اگر شام جل رہا ہے تو پاکستان کون سا گلزار ہے


فرقان علی


\"\" آج شام جل رہا ہے! ہم میں سے کون ہے جو اس حقیقت کا انکاری ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ آج شامی عوام تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔
میں کویت کے علاقہ جلیب الشویخ میں رہائش پزیر ہوں۔ جہاں دیگر عرب و غیر عرب اقوام کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں شامی بھی آباد ہیں۔ میری ان سے اکثر شام کے تازہ ترین حالات پر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ ان میں سے کچھ شامی میرے پڑوسی ہیں اور کچھ میرے دفتری کولیگ۔ تو اتنا تو ہمارا ایک دوسرے پر حق بنتا ہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی خیر خبر رکھیں اور اپنی دعاؤں اور نیک تمناوں میں ایک دوسرے کو یاد رکھیں۔
یہاں ایک بات عرض کرتا چلوں کہ ہم شام میں رہنے والوں کو ’’شامی‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن سوائے ہمارے یعنی سوائے پاکستان کے پوری کی پوری عرب دنیا اور پھر باقی بچی کچی دنیا شام کو سیریا اور شامیوں کو ’’سوری‘‘ کہتی ہے یہ بات شامیوں کے علم میں بھی شاید نہیں کہ ہم پاکستانی ان کے ملک کو شام اور انہیں ’’شامی‘‘ کیوں کہتے ہیں؟
بہرحال جہاں تک میرے تھوڑے بہت علم کا تعلق ہے تو وہ میں آپ کے ساتھ ضرور شیئر کرسکتا ہوں۔
اگر ہم تاریخی حوالے سے بات کریں تو تاریخ جس خطے کو ’’بلاد شام‘‘ کہتی ہے وہ سرزمین موجودہ دور میں آج چار مختلف ممالک کہ نام سے جانی جاتی ہے۔ اور وہ چار ممالک ہیں فلسطین، سیریا، لبنان اور اردن۔
ویسے شامیوں (سیریاکے لوگوں) سے میرا تعلق جنگ سے بہت پہلے کا ہے۔ ہم میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ شام جنگ کی خوفناک آگ میں جھلسنے سے پہلے ایک طویل عرصہ تک فرقہ واریت اور نسل پرستی کا عزاب بھی جھیل چکا ہے۔
شام میں اتنے فرقے ہیں کہ اگر ہم پورے پاک وہند کے فرقوں کو بھی ایک ساتھ جمع کرلیں تو شام میں موجود فرقوں کی تعداد اس زیادہ ہوگی۔ کچھ فرقے تو ایسے ہیں جن کا بحیثیت مسلمان ہم نے شاید کبھی نام ہی نہ سنا ہو۔ اور پھر ماضی میں جیش الفتح، النصرہ فرنٹ، حرکتہ النور الدین زنگی اور کئی ایسے چھوٹے بڑے شدت پسند ونگ بھی درپردہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ بہرحال قصہ مختصر یہ کہ شام (سیریا) جنگ سے پہلے فرقہ واریت، نسل پرستی، دھڑا بندی کا ایک طویل دور گزار چکا ہے۔ اس پر جنگ کی اذیت ان کے لیے ایسی ہی تھی جیسے سونے پہ سہاگہ۔
پاکستان دنیا کے ان بڑے ممالک میں سے ایک ہے جہاں نہ صرف شام بلکہ پوری دنیا کہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی تصاویر اور ویڈیوز سب سے زیادہ دیکھیں جاتی ہیں۔ نہ صرف یہ کہ دیکھی جاتی ہیں بلکہ اس پر شدید غم اور غصہ کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔
اور آخر کیوں نہ ہو؟ بحیثیت مسلمان وہ ہمارے کلمہ گو بھائی ہیں۔
اللہ کے رسولﷺ کی ایک حدیث کے مطابق تمام مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں یعنی تکلیف چاہے انسان کے جسم کے کسی بھی حصہ میں ہو۔ لیکن اس تکلیف کی اذیت پورے کا پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہم سے میلوں دور بسنے والے دکھی مسلمان بھائی بہنوں کے لیے ہم اور ہمارے دل بغیر کسی رنگ و نسل اور فقہی تعصب سے با لا تر ہوکر ہمیشہ ان کےغم میں غمگین اور ان کی مدد کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔
اب یہاں میرا ایک سوال ہے کہ! کیا یہ ہمارا مکمل ایمان ہے؟ ایسی کیا وجہ ہے کہ اپنے وطن سے میلوں دور بسنے والا مسلمان ہمیں ہر قسم کے رنگ ونسل اور فقہی فرق کہ بالآخر مسلمان ہی نظر آئے اور ہماری وہ ہی نظر جب دور سے پلٹ کر اپنے ہی نزدیک آئے تو وہ ہی مسلمان اپنے ہی وطن میں ہمارے لیے دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ، سنی اور نہ جانے کیا کیا بن جائیں؟
ایسا لگتا ہے کہ بحیثیت ایک قوم ہماری دور کی نظر تو بہت تیز ہے لیکن بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ ہماری قریب کی نظر کچھ کمزور ہوتی جارہی ہے۔
اور شاید یہ نظر کی کمزوری کا بھی نہیں بلکہ نظریہ کی کمزوری کا معاملہ ہو۔
لیکن کیا ایسا نہیں ہوسکتا؟ کہ ہم اپنے ایمان اور نظریہ کو اس حد تک بہتر بنالیں۔ کہ ہمیں صرف دور ہی سے مسلمان مسلمان نہ نظر آئیں بلکہ اپنے ملک میں بسنے والے ہم وطن مسلمان بھائی بہن بھی ہمیں بغیر کسی مسلکی لیبل کے فقط مسلمان ہی نظر آئیں؟ اور جو مسلمان نہیں ہیں انہیں ہم انسان سمجھیں؟
تاریخ گواہ ہے کسی بھی ملک کو مکمل جلانے سے پہلے اسے تعصب کی چنگاریوں سے دہکایا جاتا ہے۔ اسے فکری اور نسلی دھڑوں میں بانٹا جاتا ہے۔
آج اگر شام جل رہا ہے۔ تو آج پاکستان بھی تعصب اور فرقہ واریت کی چنگاریوں سے محفوظ نہیں رہا۔ اگر ہمیں ان چنگاریوں کو ایک خوفناک آگ میں تبدیل ہونے سے بچانا ہے تو ہمیں اپنے اوپر سے سب لیبل اتار کر صرف اور صرف مسلمان اور پاکستان کا لیبل لگانا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments