ملائیشیا: پی آئی اے کا طیارہ مسافر اتار کر ضبط کر لیا گیا


پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کے مسافر طیارے بوئنگ 777 کو ملائیشین حکام نے قبضے میں لے لیا ہے۔

پی آئی اے کا یہ طیارہ جمعے کو اپنی معمول کی پرواز پر کوالالمپور پہنچا تھا جہاں سے اس نے پاکستان کے لیے روانہ ہونا تھا۔

پرواز کے لیے مسافروں کی بورڈنگ کا عمل جاری تھا کہ اچانک مقامی حکام کی طرف سے ایئرلائن کو آگاہ کیا گیا کہ عدالتی حکم پر پاکستان کے جہاز کو قبضے میں لے لیا گیا ہے۔

پی آئی اے کا کہنا ہے کہ ایک کیس برطانیہ کی عدالت میں زیرِ التوا تھا اور اسی کیس میں ملائیشیا کی عدالت سے یک طرفہ فیصلہ حاصل کر کے طیارے کو قبضہ میں لیا گیا ہے۔

حکام کے مطابق سفارتی سطح پر معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یاد رہے کہ پی آئی اے نے 12 برس قبل لیزنگ کمپنی پیری گرین سے بوئنگ 777 طیارہ لیز پر حاصل کیا تھا اور فریقین کے درمیان ادائیگیوں کے معاملے پر تنازع چل رہا ہے۔

یورپی ایجنسی نے پی آئی اے کو عارضی پروازوں کی اجازت دینے سے انکار کر دیا

ایوی ایشن ذرائع کے مطابق پیری گرین اور پی آئی اے کے درمیان 14 ملین ڈالر کا تنازع ہے جس کی وجہ سے جہاز کو تحویل میں لیا گیا ہے۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لیزنگ کمپنی پیری گرین اور پی آئی اے کے درمیان ادائیگیوں کے معاملے پر تنازع گزشتہ چھ ماہ سے برطانوی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ برطانوی عدالت میں زیرِ سماعت مقدمے کے باوجود لیزنگ کمپنی نے ملائیشیا کی ایک عدالت سے رجوع کیا جہاں عدالت نے پی آئی اے کا مؤقف سنے بغیر طیارے کو قبضے میں لینے کا یک طرفہ فیصلہ دیا۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ اس تنازع میں پی آئی اے کا مؤقف ہے کہ لیزنگ کمپنی جہاز کے کرائے کی مد میں جتنا مطالبہ کر رہی ہے، اتنے پیسے نہیں بنتے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی اٹارنی جنرل، پاکستانی سفارت خانہ اور دیگر حکام ملائیشین حکام سے رابطہ کر رہے ہیں۔ لیکن اب جو بھی ہو گا عدالتی احکامات کی روشنی میں ہو گا۔

عبداللہ حفیظ کے بقول ہفتہ اور اتوار کی وجہ سے ملائیشیا میں عدالتیں بند ہوں گی جس کی وجہ سے آئندہ دو دن تک اس بارے میں پیش رفت ممکن نہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ملائیشیا میں عدالتی حکم پر طیارے کو تحویل میں لیا جانا ایک ناخوشگوار واقعہ ہے، مسئلے کے احسن حل تک مسافروں کی مناسب دیکھ بھال کی جائے گی۔

ترجمان نے مزید کہا کہ پی آئی اے نے سفارتی سطح پر اس معاملے کو اٹھانے کے لیے حکومت پاکستان کی حمایت حاصل کی ہے جب کہ ملائیشیا میں پھنس جانے والے مسافروں کے لیے متبادل انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

ترجمان کے بقول “مسافروں کو وطن واپس لانے کے لیے ایک خلیجی ایئرلائن کے جہاز کا انتظام کیا گیا ہے جس کے ذریعے ہفتے کی صبح تک مسافر پاکستان پہنچ جائیں گے۔

پی آئی اے کی پرواز ملائیشیا میں روکے جانے پر پاکستان کی حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔

ترجمان مسلم لیگ (ن) مریم اورنگزیب نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ ‏‎”نالائقوں، نااہلوں اور چوروں کی وجہ سے آج ملک کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ ‏‎کبھی بین الااقوامی پاپندیاں، کبھی پاکستان ہائی کمیشن کے اثاثے منجمد اور کبھی قومی ایئرلائن کا طیارہ ضبط ہو رہا ہے، اس پر حکومت کو شرم آنی چاہیے۔”

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کی سیکریٹری اطلاعات شازیہ مری نے کہا ہے کہ ملائیشیا میں پی آئی اے کے طیارے پر قبضہ ملک کی بدنامی ہے۔ حکومت کی طرف سے طیارے کے واجبات ادا نہ کرنا شرمناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ “اس طرح کے واقعات سے ثابت ہو رہا ہے کہ نالائق وزیرِ اعظم ملک کے امور سے لاتعلق ہیں۔ حکومت نے پہلے پائلٹوں کو رسوا کیا اب قومی ایئر لائن کو رسوا کر رہی ہے۔”

حکومتی ترجمان شہباز گل نے مذکورہ معاملے پر کئی ٹوئٹس کی ہیں جن میں ان کا کہنا ہے کہ ملائیشیا میں روکا جانے والا پی آئی اے کا طیارہ 12 برس قبل لیز پر لیا گیا تھا۔

ان کے بقول کرونا کی وجہ سے پی آئی اے کا طیارہ گزشتہ مہینوں کے دوران استعمال میں نہیں تھا۔ پوری دنیا میں کرونا کی وجہ سے ریٹ کم ہوئے اور پی آئی اے بھی لیزنگ کمپنی کے ساتھ نئے ریٹ پر بات چیت کر رہا تھا۔

شہباز گل کے بقول لیزنگ کمپنی کا تعلق نہ تو ملائیشیا سے ہے اور نہ ہی وہاں کوئی کیس چل رہا ہے۔ لیکن کمپنی نے مقامی عدالت سے حکمِ امتناع لے کر طیارے کو روکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پی آئی اے لیزنگ کمپنی کے ساتھ نئے معاہدے پر بات نہ کرتا اور ملکی پیسہ نہ بچانا چاہتا تو تنقید کرنے والے خوش ہوتے جیسے پہلے برسوں میں ہوتا آیا تھا۔

انہوں نے اپوزیشن کی تنقید کے جواب میں کہا کہ ‏تنقید کرنے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ اگر آپ کا قومی ادارہ قومی بچت کی کوشش کر رہا ہو اور برطانیہ میں کیس لڑ رہا ہو تو ہمیں بطور پاکستانی پی آئی اے کی انتظامیہ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa