ڈونلڈ ٹرمپ: ہمارے شہر سے ہو کر دھواں گزرتا ہے


ڈونلڈ ٹرمپ 2020 ءکا انتخاب ہی نہیں ہارے، تاریخ بھی ہار گئے۔ چار برس تک اپنے ناقابل پیش گوئی اقدامات، الٹے سیدھے بیانات اور کھوکھلے دعووں کے سہارے پہلی مدت پوری کرنے کے بعد انہوں نے ایک حیران کن انتخابی مہم چلائی۔ 2016ء میں انہوں نے ہلیری کلنٹن کے 227 کے مقابلے میں 305 الیکٹرول ووٹ حاصل کیے تھے۔ 2020 ءمیں ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ انتخاب کے مقابلے میں ایک کروڑ دس لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کیے لیکن جو بائیڈن کے 306 کے مقابلے میں صرف 232 الیکٹرول ووٹ حاصل کر سکے۔ انتخابی قواعد کے مطابق انہیں پروقار طریقے سے اقتدار منتقل کر کے رخصت ہونا تھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی شہرت کے عین مطابق وائٹ ہاﺅس میں اپنے آخری ایام کو تماشا بنا کے رکھ دیا۔ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ دو غیرمعمولی اعلانات کیے تھے۔ اول؛ وہ دوسری ٹرم مکمل ہونے کے بعد تیسری مدت کے لئے بھی انتخاب لڑیں گے۔ دوسرا حیران کن بیان یہ تھا کہ انتخاب ہارنے کی صورت میں وہ انتخابی نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ دراصل ٹرمپ کہنا چاہتے تھے کہ وہ جمہوری روایات اور قوانین کو خاطر میں نہیں لاتے۔

3 نومبر کی رات انتخابی نتائج سے کہیں زیادہ تجسس ڈونلڈ ٹرمپ کے ردعمل کے بارے میں تھا۔ سنہ 2000 کے امریکی انتخابات میں آئینی بحران پیدا ہوا تھا لیکن عدالتی فیصلے کے بعد ڈیموکریٹ امیدوار الگور نے اپنی شکست تسلیم کر لی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی شکست ماننے سے انکار کر دیا اور پرتشدد مزاحمت میں اپنے حامیوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ دسمبر کی ابتدا میں واشنگٹن میں جمع ہونے والے ہجوم کے درمیان ٹرمپ کی موجودگی ہنگامہ آرائی کی بالواسطہ تائید تھی۔ یہ سلسلہ چھ جنوری کو اپنے نقطہ عروج کو جا پہنچا جب ان کے بے قابو حامی کانگریس کی عمارت پر عین اس وقت چڑھ دوڑے جب بائیڈن کی صدارت کی رسمی توثیق کی جا رہی تھی۔ ایوان نمائندگان کی عمارت کے اندر ہنگامہ آرائی میں پانچ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس ناقابل یقین واقعے کے ردعمل میں امریکی کانگریس نے ٹھیک ایک ہفتے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی قرارداد منظور کر لی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی رفقا ایک ایک کر کے ان کا ساتھ چھوڑنے لگے۔ ٹرمپ کی اپنی جماعت ری پبلکن پارٹی کے دس ارکان نے مواخذے کی علانیہ حمایت کی۔

امریکی تاریخ میں ٹرمپ پہلے صدر ہیں جنہیں اپنی مدت صدارت میں دو دفعہ مواخذے کا ’اعزاز‘ حاصل ہوا ہے۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاﺅس میں گبرئیل گارشیا مارکیز کے ناول ”Autumn of the Patriarch“ کا مرکزی کردار بنے بیٹھے ہیں جس کی کیفیت کو خود لاطینی امریکہ کے عبقری ادیب نے ’اقتدار کی تنہائی‘ کا نام دیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ شخصی وقار اور سیاسی اختیار کی تمام علامات سے محروم ہو چکے ہیں تاہم سمجھنا چاہیے کہ یہ صرف ایک پراپرٹی ڈیلر یا ٹیلی ویژن شخصیت سے سپر پاور کی صدارت تک پہنچنے والے فرد کی کہانی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ عالمی تاریخ ایک نئے موڑ پر آ پہنچی ہے۔

یہ قصہ ٹھیک تیس برس پہلے سرد جنگ ختم ہونے کے بعد شروع ہوا تھا۔ 1989ءکے موسم خزاں سے 1991ء کے موسم سرما تک کے دو برس ایک نئی امید کے ساتھ گزرے تھے۔ خیال تھا کہ اشتراکی آمریت سے کشاکش میں کامیابی پانے کے بعد سرمایہ دار دنیا جمہوری اقدار کے سفر کو آگے بڑھائے گی۔ ایسا سوچنے والے (بشمول آپ کے نیاز مند کے ) سخت غلطی پر تھے۔ سرمائے کی حرکیات اور جمہوریت میں ٹھیک ایسا ہی ناگزیر تضاد پایا جاتا ہے جو آمریت کے استبداد اور جمہوری آزادیوں میں ملتا ہے۔ یہ سمجھنا ایک تاریخی غلطی ہے کہ جمہوریت کسی شعوری جدوجہد کے بغیر کھلی منڈی کی منافع خوری کے ساتھ بقائے باہمی پر مبنی کسی سمجھوتے پر پہنچ سکتی ہے۔ درحقیقت اشتراکی حریف کی شکست نے سرمایہ داری کے لئے تگ و تاز کے نئے افق وا کیے ہیں۔

سرد جنگ کے دوران سرمایہ دار بلاک نے مذہب کو پالیسی کے ایک اہم جزو کے طور پر اختیار کیا تھا۔ تفرقے اور جنگ و جدل کی یہ تمثیل آئندہ برسوں میں دہشت گردی کی شکل اختیار کر گئی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مغربی پالیسی ساز بنیاد پرستی کے آڑ میں پلنے والے طوفان سے بے خبر تھے تو یہ محض سادہ لوحی ہو گی۔ نائن الیون، افغانستان، عراق، یمن، شام اور لیبیا سمیت دنیا بھر کے وسیع خطوں میں جنگ اور خانہ جنگی کا کھیل درحقیقت اسلحہ سازی کی صنعت کا تحفظ تھا۔ اس کے نتیجے میں پھیلنے والی تباہی اور انسانی آلام ایسے نتائج ہیں جن کی اپنے کثیر منزلہ دفاتر میں بیٹھ کر سکے گننے والے پروا نہیں کیا کرتے۔ جمہوری میکنزم کو سرمائے کا آلہ کار بنانے کی سازش سے انتہا پسند قوم پرستی، تہذیبی تفرقے اور مقبولیت پسند سیاست نے جنم لیا۔

جمہوری دقت نظر سے عاری اور آمرانہ رجحانات رکھنے والی حکومتوں کو دائیں اور بائیں بازو کی کلاسیکی تقسیم میں رکھنا ممکن نہیں۔ وینزویلا کے ہیوگو شاویز، روس کے پیوٹن اور بھارت کے نریندر مودی میں بہت کچھ مشترک ہے۔ (کچھ رہنماﺅں کے نام، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، بوجوہ نہیں لئے جا سکتے)۔ پاپولسٹ رہنما عوام کے نام پر ’بدعنوان اشرافیہ‘ کے خلاف نعرے لگاتا ہے۔ قومی خود مختاری کے نام پر عالمی اقدار روندتا ہے، جمہوری اور آئینی پیچیدگیوں سے نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ اپنی کرشمہ ساز شخصیت پر گہرا یقین رکھتا ہے۔ عمومی شائستگی کو بنظر حقارت دیکھتا ہے۔ بغیر کسی جھجک کے ناقابل یقین وعدے کرتا ہے۔ بیرونی سازشوں کی دہائی دیتا ہے۔ جارحانہ رویے میں پناہ لیتا ہے۔ اپنی شخصی رائے کو اجتماعی مشاورت سے بہتر سمجھتا ہے۔ ہمہ وقت ایک بحران اٹھائے رکھنے کے خبط میں مبتلا ہوتا ہے۔ امریکہ کے حالیہ واقعات میں اطمینان کا ایک بنیادی زاویہ یہی ہے کہ ٹرمپ کو کسی مدمقابل شخصیت نے نہیں، آئینی نظام نے شکست دی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا واشنگٹن کے واقعات عالمی سطح پر مقبولیت پسند سیاست کے ابھار پر اثر انداز ہو سکیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).