کیا بیٹی زحمت ہوتی ہے؟


کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے حلانکہ جہالت کا کسی دور سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک رضا کارانہ روش ہوتی ہے جسے قومیں اور لوگ اپنی کمزوریوں کی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں کیونکہ حقائق کوئی حسب نسب نہیں دیکھتے اوریہ تاریخ کے دامن میں ایک کڑوے سچ کے طور پر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک کڑوا سچ عورتوں کے وجود کے حوالہ سے بھی ہے ان کے وجود کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کی داستانیں تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں۔

سلطنت عثمانیہ اورمغلیہ کے شاہی درباروں میں بڑے بڑے حرم ہوتے تھے جہاں پر باندیوں اور غلام عورتوں کو محکوم بنا کر رکھا جاتا تھا، بادشاہ و سلطان اپنے ذوق اور پسند کے مطابق مختلف کنیزوں کے ساتھ رنگ رلیاں منایا کرتے تھے۔ آج اگر ہم اپنی ماضی کی تاریخ کا جائزہ لینے کی کوشش کریں وہ تاریخ جس پر ہمیں آج بھی ناز ہے تو ہمارے سرشرم سے جھک جائیں گے عیاشیوں، رنگ رلیوں اور قومی خزانے لٹانے میں ہمارا کوئی ثانی نہ تھا اور ہم آج بھی اسی دور میں لوٹ جانے کے خواب دیکھتے اور دکھاتے رہتے ہیں مگر حقیقی زندگی میں ریوائنڈ بٹن نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی جو گزرگیا سو گزر گیا، دنیا میں وہی قومیں اور لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے آج سے منسلک رہتے ہیں جو اپنے ماضی میں کھوئے رہتے ہیں وقت انہیں لتاڑ کرپیچھے چھوڑ تا چلا جاتا ہے اور ایک دن وہ ماضی کے کھنڈرات میں تبدیل ہو جاتے ہیں، کچھ رویے اور عادتیں تبدیل ہونے کی بجائے وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی چلی جاتی ہیں۔

ہم اپنے ماضی سے نکل کر اگر آج میں جھانکنے کی کوشش کریں تو ہمیں یہ اندازہ ہوگا کہ ہمارا بیٹیوں کے بارے میں طرز فکر آج بھی قرون وسطیٰ جیسا ہی ہے جیسے پہلے بیٹوں کو خاندان کے وقار کی علامت جانا جاتا تھا اور ان کی پیدائش پر دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا تھا بالکل ویسا ہی آج بھی ہو رہا ہے۔ ہم آج اکیسویں صدی میں بھی ”بیٹے کو رحمت اوربیٹی کو زحمت“ سمجھتے ہیں والدین ڈلیوری سے پہلے ہی ڈاکٹر ز اور دائیوں سے پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ بچے کی جنس کیا ہے۔

ہمارا یہ تجسس ہی ہماری مینٹیلٹی کا ترجمان ہے جیسے ہی والدین کو پتا چلتا ہے کہ ”بیٹی“ ہے تو ان کے چہروں پرفوری پریشانی کے اثرات ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں دوسری طرف اگر انہیں بتا دیا جائے کہ ”بیٹا“ ہے تو ڈلیوری سے پہلے ہی آنے والے دنوں کی پلاننگ شروع ہوجاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری اس بے ہودہ اور گندی سوچ کا ہسپتال یا کلینک کے عملے تک کو ادراک ہوتا ہے حتیٰ کہ صفائی کرنے والی مائی بھی مبارک باد کے طور پر بیٹے والی فیملی سے ایک سے دو ہزار ڈیمانڈ کرتی ہے جبکہ بیٹی والی فیملی سے اس طرح کا کوئی تقاضا نہیں کرتی جو کچھ بھی ملتا ہے وہ چپ کر کے لے کر چلی جاتی ہے۔

بیٹے کی پیدائش پر آج بھی دل کھول کر خرچ کیا جاتا ہے جبکہ بیٹی کی پیدائش پر مبارک باد دینے کو معیوب عمل سمجھا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے پر ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ میں اپنے سماج کی دو مثالیں دینا چاہوں گا جس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ میں ایک ایسے باپ کو جانتا ہوں جس کے گھر میں پہلی بیٹی ہونے پرصف ماتم بچھ گئی تھی اورباپ نے بیٹی کے پیدا ہونے پر تقریباً 15 دنوں تک اپنے ہی گھر میں قدم نہیں رکھا تھا ساس بیٹی کے پیدا ہونے پر بہو سے دلبرداشتہ تھی اور بہو کا رو روکر برا حال ہو چکا تھا جیسے کہ اس نے بیٹی کو جنم دے کر کوئی بہت بڑا کرائم کر دیا ہو۔

اس موقع پر اس مجرم لڑکی کی والدہ نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا کہ ”جو تمہارے اندر گیا ہے وہی باہر آئے گا“ اس میں تمہارا کوئی قصورنہیں ہے۔ آج بھی اسی گٹر زدہ مینٹیلٹی کے ساتھ بچیوں کے وجود کو چار و نہ چار تسلیم کیا جاتا ہے۔ دوسری مثال میں ایک اور باپ کی دینا چاہوں گا جس کا تعلق میرے ہی قرب وجوار سے ہے۔ ایک باپ کی چار بیٹیاں ہیں وہ بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے بہت دلبرداشتہ تھا گزشتہ دنوں اس کے ہاں پانچویں بیٹی کی پیدائش ہوئی تو گھر میں رنجیدگی چھا گئی باپ نے وہ بچی اپنی بے اولاد بہن کو گود دے دی بظاہر یہ عمل بہت ہی اچھا محسوس ہوتا ہے مگر اس کی گہرائی میں جائیں تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اس نیکی کے پیچھے ”مجبوری کا نام شکریہ“ کا اصول کار فرماہے اور اسی اصول کی بنیاد پر بچی کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے اگر بیٹا پیدا ہوجاتا تو باپ کبھی بھی یہ نیکی نہ کرتا اور اگر بہن کے پاس بیٹے کا آپشن ہوتا تو وہ کبھی بھی بچی کو قبول نہ کرتی۔

بچوں کو خوب پڑھایا لکھایا جاتا ہے جبکہ بچیوں کو بامشکل پرائمری تک تعلیم دی جاتی ہے پھر ان کو گھر کے کام کاج میں لگا دیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے والدین کی یہ مینٹیلٹی ہوتی ہے کہ ”بچیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں“ ان کو پڑھا لکھا کر کیا کرنا ہے وقت پر شادی کر کے اس کو اگلے گھر روانہ کردیں گے یعنی ماں باپ کی نظر میں بچی کا سب سے بڑا فرض اس کی شادی کرنا ہے، بیٹی پر سرمایہ لگانا ان کی نظر میں فضول ہوتا ہے کیونکہ وہ سرمایہ ریٹرن نہیں ہوتا جبکہ بچیوں کا ریٹرن ان کا اگلا گھر ہوتا ہے اس لیے والدین یہ خسارہ برداشت نہیں کرتے اور سب کچھ بیٹے پر نچھاورکردیتے ہیں۔

حالانکہ بیٹے اور بیٹی کی فیلنگز میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے بیٹیوں کا دل اگلے گھر جانے کے بعد بھی اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے لیے دھرکتا رہتا ہے جبکہ دوسری طرف بیٹے اپنی منصب کی مچان پر پہنچ کر اپنے والدین اور بہنوں کو اگنور کرنا شروع کردیتے ہیں۔ میرا تعلق چونکہ ٹیچنگ پروفیشن سے ہے بچیاں اکثر اوقات اپنے گھر سے پاکٹ منی نہیں لاتیں وجہ پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ ”میرے پاپا کا ان دنوں ہاتھ تنگ ہے“ اس لیے ان دنوں میں اپنے پاپا سے پاکٹ منی نہیں لیتی۔

ذرا سوچیے کیا یہ compromiseبیٹا کر سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ بیٹیاں ہر حال میں اپنے ماں باپ کے دکھوں کو سانجھا کرنے پیش پیش رہتی ہیں۔ مگر کیا یہ ظلم کی بات نہیں ہے کہ ہم اپنے بیٹوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے زمین وآسمان ایک کر دیتے ہیں جبکہ بیٹیوں کو یہ کہہ کر ”تم ابھی بچی ہو“ اس کی خواہشات کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور بڑی ہونے پر محض جہیز دے کر ٹرخا دیتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو زندہ درگورکر دیا جاتا تھا اور آج ان کی خواہشات اور آرزوؤں کو درگور کر دیا جاتا ہے تبدیل تو کچھ بھی نہیں ہوا بس طریقہ کارتبدیل ہوا ہے یقین مانیں ہم آج بھی اسی زمانے میں جی رہے ہیں حالانکہ بچیاں کسی سے کم نہیں ہیں اور آج ہر میدان میں وہ اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہیں ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بچیاں صرف شادی کے لیے نہیں ہوتیں حالانکہ اس بات سے انکار نہیں ہے کہ یہ بھی زندگی کی ایک بڑی سچائی ہے مگرہمیں بچیوں کو بھی جینے کے لیے بچوں کی طرح لیول گراؤنڈ دینا ہوگا تاکہ وہ بھی اپنی زندگی پورے طریقے اور آزادی سے جی سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).