کابل میں آئس کریم ٹانگ کے بدلے ملتی ہے؟


عصمت نے کہا، آئس کریم کا سردی گرمی سے کیا تعلق؟ زوئے آئس کریم کھانے کے لئے ہم نے اپنا اماں کا چوڑیاں چرایا تھا۔ تم کو معلوم ہے ہم جنگل سے آیا ہے۔ عصمت ہمارے لئے چائے لایا تھا۔ یہ فروری کی یخ بستہ صبح تھی۔ فضا میں کوئلے کی باس رچی تھی۔ چہار شاخ نے برف کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ چہار شاخ سے آنی والی سرد ہوائیں رگوں میں خون جمانے دینے والی تھیں۔ ہم لوگ جناح روڈ کے ایک تھڑے پر بیٹھے تھے۔سامنے سورج گنج بازار کے سنگم پر واقع ہوٹل سے بار والا (بیرا) عصمت ہمارے لئے چائے لایا تھا۔۔چائے کے پیالیوں سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔

کوئٹہ، زرغون روڈ کے ڈاک خانے سے شمال کی جانب نکلیں تو چمن روڈ پر غالباَ ستر کلومیٹر پر ایک جنگل آباد ہے۔ یہ جنگل ہی ہے مگر انسانوں کا جنگل ہے۔ اجڑے گھروں کا ایک شہر جسے جنگل کہتے ہیں ۔پہلے وقتوں میں شہروں کا فاصلہ ڈاک خانے سے ڈاک خانے تک ناپا جاتا تھا۔ جنگل میں مگر کوئی ڈاک خانہ نہیں ہے۔ یہاں خط نہیں پہنچتے۔ ادھر زرغون روڈ سے پانچ سو قدم کے فاصلے پر جناح روڈ واقع ہے۔ یوں تو یہ فاصلہ پانچ سو قدم کا ہے مگردونوں سڑکوں کے مزاج میں عشروں کی دوری ہے۔ زرغون روڈ پر طاقت خیمہ زن ہے۔ جناح روڈ پر دانش کی رہائش ہے۔ جناح روڈ کے تھڑے کوئٹہ کی غیر روایتی دانش گاہیں ہیں۔ ان دانش گاہوں پر میر غوث بخش بزنجو سے لے کر گل خان نصیر، عبداللہ جان جمالدینی، سائیں کمال خان، ڈاکٹر اقبال ترین، عرفان احمد بیگ، آغا گل، ڈاکٹر شاہ محمد مری سے لے کر موجودہ وقت کے دانشوروں عثمان قاضی اور عابد میر سب نے دانش سمیٹی بھی اور بانٹی بھی۔

 ہم نے چائے منگوائی۔ ایک بیس بائیس سال کا نوجوان چائے لایا۔ منفی درجہ میں وہ سردی سے کانپ رہا تھا۔ شاہد نے بار والا سے پوچھا، کیا نام ہے تمہارا؟ عصمت! تم کو سردی نہیں لگتی؟ کیوں نہیں لگتا، کیا ہم انسان نہیں ہے؟ اس نے اکھڑے سے لہجے میں جواب دیا۔ زوئے غصہ کیوں کرتا ہے بیٹھو ہمارا ساتھ چائے پیؤ۔ شاہد نے بے تکلف ہوتے ہوئے دعوت دی۔ ہم کو چائے پسند نہیں ہے۔ عصمت نے روکھے لہجے میں جواب دیا۔ تو کیا پسند ہے؟ ہم کو آئس کریم پسند ہے۔ آئس کریم! قریباَ ہم سب نے ایک ساتھ حیرت سے کہا! اس سردی میں آئس کریم اور وہ بھی کوئٹہ میں؟ زوئے تم پاگل واگل تو نہیں ہے۔ عصمت نے کہا، آئس کریم کا سردی گرمی سے کیا تعلق؟ زوئے آئس کریم کھانے کے لئے ہم نے اپنا اماں کا چوڑیاں چرایا تھا۔ تم کو معلوم ہے ہم جنگل سے آیا ہے۔

ہم نے عصمت کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ اس نے بتایا کہ اس کا تعلق جنگل سے ہے۔ کوئٹہ چمن روڈ پر مسے زئی کے قریب ایک جنگل ہوا کرتا تھا۔ روس کی آمد کے بعد جب مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا اس جنگل میں مہاجرین کے لئے ایک عارضی کیمپ کا بندوبست کیا گیا۔ بستے بستے یہ ایک شہر کی صورت اختیار کر گیا۔ اس کیمپ میں جہاں ایک طرف لٹے پٹے مہاجرین تھے وہاں قندھار سے صرف پچاس کلومیٹر کی دوری پر واقع ہونے کے سبب یہاں افغان مجاہدین کے بے شمار اڈے تھے۔ روس کے جانے کے بعد جب افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو اس کے اثرات جنگل میں بھی دیکھے جانے لگے۔ آہستہ آہستہ جنگل چھوٹے موٹے جنگی کمانڈروں کی آماجگاہ بن گیا۔ پھر یہاں اسلحہ اور منشیات کے کاروبار نے زور پکڑ لیا۔ اب یہاں مفرور مجرم بھی پناہ لیتے تھے۔ اس لئے جنگل کا باسی ہونا اب شناخت کی بجائے دھمکی کی علامت بن گیا تھا۔ جنگل اب درختوں کا نہیں، انسانوں کا جنگل تھا۔

عصمت افغانستان کے ایک اسکول استاد کا بیٹا تھا۔ باپ کو مجبوری میں مہاجر ہونا پڑا۔ عصمت نے بتایا کہ پانچویں جماعت کے بعد میرے باپ نے مجھے کوئٹہ میں داخل کرایا۔ یہاں میرے والد کا ایک کزن کاسی روڈ پر سبزی کی دکان چلاتا تھا۔ میں اسی کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک دن جب ہم اسکول سے واپس آرہے تھے تو راستے میں مجھے میرے چچا نے پوچھا کہ چھولے کھاﺅ گے؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں مجھے شریخ (آئس کریم) کھانی ہے۔ اس نے مجھے شریخ کھلا دی۔ اس کے بعد یہ قریباَ معمول بن گیا۔ چچا بغیر مانگے مجھے شریخ کھلاتا۔ دو چار ماہ بعد ایک رات مجھے سوتے میں چچا نے چھیڑا۔ میں نے چیخنا اور رونا شروع کر دیا۔ میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر چچا نے کہا، تم چیخو مت۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ مجھے معاف کر دو۔ آئندہ میں ایسا خیال بھی دل میں نہیں لاﺅں گا۔ صبح ایک معمول کا دن تھا۔ چند دن گزرنے کے بعد ایک شام چچا نے مجھے بٹھا کر کہا کہ میرا تم پر نو سو روپے جو قرض ہے وہ واپس کر دو۔ میں حیران تھا کہ قرض کس چیز کا؟ چچا نے حساب لگا کر بتاتا کہ روز کے پانچ روپے آئس کریم کے حساب سے ان کا مجھ پر نو سو روپے کا قرض ہے۔ میں بہت پریشان ہوا۔ چچا نے کہا کہ اگر میں ایک بار ان کے ساتھ ’ غلط کام‘ کر لوں تو وہ میرا قرض معاف کر دیں گے۔ میں راضی نہ ہوا۔ چچا نے کہا کہ مجھے اب یہ پیسے تمہارے باپ سے لینے ہیں۔ میں نے کہا، چچا یہ کام نہیں کروں گا، باقی آپ جو کہیں میں کرنے کو تیا ر ہوں۔ پھر چچا کے لئے میں نے دوکانداروں سے وزن والے وٹے چرائے، اپنی ماں کا ہار چرایا، ساتھ والے گھر سے ایک کلاشنکوف چرائی، ایک کمندان کے کتے کو زہر کھلایا۔ پانچ سال بعد چچا قندھار میں قتل ہوا تو قرض سے میری جان چھوٹی۔ جب تک چچا زندہ تھا میں کبھی شریخ نہ کھا سکا۔

وقت کروٹ لیتا رہتا ہے۔ ان تھڑوں پر بیٹھتے بیٹھتے عصمت سے ایک انسیت سی ہو گئی تھی۔ بہت مدت بعد ایک دن عصمت کو سریاب روڈ پر واقع مصنوعی اعضاء کے ہسپتال میں دیکھا۔ عصمت کی دونوں ٹانگیں کٹی ہوئی تھیں۔ ایک بے بس سی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ یہ بھی شریخ کی دین ہے۔ ایک کام سے سپین بولدک گیا تھا۔ دوستوں نے کہا کہ آئے ہی ہو تو قندھار چل کر شریخ کھاتے ہیں۔ قندھار پہنچے تو لڑائی شروع ہو گئی۔ شہر سے نامانوس راستوں پر بھاگتے بھاگتے ایک بارودی سرنگ کی زد میں آ گیا تھا۔

عصمت کو دیکھ کربے اختیار ماما عبد الخالق یاد آئے گئے۔ ماما خالق افغان جہاد کے ایک چھوٹے سے کمانڈر تھے۔ ان کی ایک ٹانگ بارودی سرنگ کھا گئی تھی۔ ایک آنکھ میں کسی روسی سپاہی کی گولی لگی تھی۔ کسی زمانے میں مجاہدین کے لئے دیگر چیزوں کے ساتھ امریکی جوتے بھی آتے تھے۔ جانے کس نے ایک دن ماما سے کہا کہ ماما امریکی جوتے بہت آتے ہیں۔ آپکی داہنی ٹانگ تو ہے نہیں تو داہنے جوتے کا کیا کرتے ہو؟ ماما مسکرایا اور کہا، ’ہماری گلی کے تندور والے کی بائیں ٹانگ نہیں ہے‘۔

اس ملک میں ایسے گوہر نایاب موجود ہیں جو افغان سرزمین پر جنگ میں سے امن برآمد کرنے کی آرزو لے کر بوڑھے ہو گئے۔ ایسے وطن پرست اور امن دوست دانشور کل نم آنکھوں ملا عمر سے اور اختر منصور کے قصیدے لکھتے تھے۔ آج ملا ہیبت اللہ کے بیٹے کے خودکش حملے پر داد شجاعت کی داستانیں لکھیں گے۔ عصمت کی تو ٹانگیں نہیں رہیں۔ ماما عبدالخالق جانے اب زندہ بھی یا نہیں۔ دکھ یہ ہے کہ تندور والا بائیں پاﺅں میں کیا پہنتا ہو گا؟ امریکہ سے اب جوتے نہیں آتے، بارود آتا ہے۔ ایک دوری جناح روڈ اور زرغون روڈ کے مزاج میں ہے۔ ایسی ہی ایک دوری راولپنڈی کے جرنیلی سڑک اور اسلام آباد کے شاہراہ دستور میں ہے۔ مشکل یہ ہے کہ افغانستان کے لئے بسنے والا ہر جنگل شاہراہ دستور اور جرنیلی سڑک کے سنگم پر آباد ہوتا ہے۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah