جاوید میانداد کا ریکارڈ اور عمران خان کی ڈیکلیریشن: جب عمران خان نے انڈیا کے خلاف جیت کو جاوید میانداد کے ریکارڈ پر ترجیح دی


دسمبر 1982 میں انڈین کرکٹ ٹیم سنیل گواسکر کی قیادت میں چھ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے پاکستان پہنچی تو دونوں ملکوں کے شائقین ایک سخت مقابلے کی توقع کر رہے تھے اس کی وجہ دونوں ٹیموں میں ورلڈ کلاس کرکٹرز کی موجودگی تھی اور پھر انڈیا پاکستان کرکٹ کی روایتی گہماگہمی بھی سب کو یاد تھی جو 1978 میں کھیلی گئی سیریز میں دیکھی جا چکی تھی۔

انڈین ٹیم کی بیٹنگ لائن سنیل گواسکر کے علاوہ مہندر امرناتھ، دلیپ وینگسارکر، سندیپ پاٹل، ارون لعل، روی شاستری اور یشپال شرما پر مشتمل تھی جبکہ کپل دیو جیسا میچ وننگ آل راؤنڈر اور مدن لعل اور دلیپ دوشی جیسے تجربہ کار بولرز بھی ٹیم کا حصہ تھے۔

تب کسی کو کیا پتہ تھا کہ ظہیرعباس، جاوید میانداد اور مدثر نذر کا رنز کا طوفان انڈین بولرز سے نہیں رک پائے گا اور پھر سب سے بڑھ کر بولنگ میں عمران خان کا ون مین شو انڈین بلے بازوں کو وکٹ پر ٹکنے ہی نہیں دے گا۔

سیریز کا پہلا ٹیسٹ لاہور میں ڈرا ہوا لیکن پھر کراچی اور فیصل آباد میں پاکستانی ٹیم کی جیت نے اس کے خطرناک ارادے ظاہر کر دیے کہ آنے والے میچوں میں بھی انڈیا کی ٹیم اسی طرح کے سلوک کے لیے تیار رہے۔

سیریز کا چوتھا ٹیسٹ حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم میں 14 سے 19 جنوری کے درمیان کھیلا گیا۔ عمران خان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا لیکن 60 کے مجموعی سکور پر اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے بلوندر سنگھ ساندھو نے لگاتار گیندوں پر محسن خان اور ہارون رشید کو آؤٹ کر دیا۔ اس کے بعد ہونے والے دو واقعات انتہائی اہم ہیں، ایک تو مدثر نذر اور جاوید میانداد کے درمیان ہونے والی شراکت، اور دوسرا عمران خان کا اننگز ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ۔

میانداد

عمران خان نے ڈکلیئر کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی

پہلے ذرا اننگز ڈکلیئر کرنے کی بات کر لیتے ہیں۔ جاوید میانداد دوسرے دن کھیل کے اختتام پر 238 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے۔

تیسرے دن یعنی 16 جنوری کو نیاز اسٹیڈیم میں موجود شائقین اور ٹی وی پر یہ میچ دیکھنے والے انھیں ٹرپل سنچری بناتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے لیکن پاکستان کا سکور جب تین وکٹوں پر 581 رنز ہوا تو کپتان عمران خان نے اننگز اس وقت ڈکلیئر کر دی جب جاوید میانداد 280 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے۔

جاوید میانداد نے 2003 میں شائع ہونے والی اپنی سوانح حیات ʹکٹنگ ایجʹ میں اننگز ڈکلیئر کرنے سے متعلق ایک پورا باب تحریر کیا ہے جو 13 صفحات پر مشتمل ہے۔

میانداد لکھتے ہیں ʹمیرے ذہن میں تھا کہ میں حنیف محمد کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں ٹرپل سنچری بنانے والا دوسرا پاکستانی بنوں گا۔ میں 300 سے آگے کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا۔ ظاہر ہے میرے ذہن میں سرگیری سوبرز کے 365 رنز تھے۔ ایسا موقع آپ کو زندگی میں بار بار نہیں ملتا۔’

ʹجب دوسرے دن کھیل ختم ہوا تو عمران خان نے ڈکلیئر کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی اور نہ ہی کوئی ہدایت دی تھی یہان تک کہ جب تیسرے دن ہم نے اننگز شروع کی تو اس وقت بھی عمران خان نے ڈکلیئریشن کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

میانداد

'میں نے جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ کھیل کی ابتدا کی تھی۔ انڈیا دفاعی فیلڈ پلیسنگ کی وجہ سے باؤنڈری لگانا چیلنج تھا لیکن جب پانی کا وقفہ ہوا تو اس وقت تک میں گھنٹے بھر میں 42 رنز کا اضافہ کر چکا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ ظہیرعباس پویلین کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں سے عمران خان ہمیں اشارہ کررہے تھے۔'

جاوید میاندا نے لکھا کہ ʹمیری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ میں دکھ اور غصے کی کیفیت سے دوچار تھا۔’

میانداد اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں ʹمجھےاندازہ تھا کہ تیسرے دن بیٹنگ کر کے پاکستانی ٹیم کو اتنا وقت نہیں مل پاتا کہ وہ انڈیا ٹیم کو آؤٹ کر سکے لیکن پاکستانی ٹیم سیریز میں دو صفر کی پہلے ہی سبقت لے چکی تھی اور انڈیا ٹیم میں مقابلے کی ہمت باقی نہیں رہی تھی اور اس بات کا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ وہ پانچویں اور چھٹے ٹیسٹ میں کم بیک کرسکے گی۔

‘عمران خان کو مجھے کم ازکم ٹرپل سنچری مکمل کرنے کا موقع ضرور دینا چاہیے تھا یا پھر وہ مجھے پہلے سے یہ بتا دیتے کہ میرے پاس کھیلنے کا کتنا وقت ہو گا؟’

میانداد کہتے ہیں ʹمجھے یاد ہے کہ جب میں پویلین کی طرف واپس جا رہا تھا تو سنیل گواسکر نے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ میں بمشکل جواب دے پایا کہ ہم نے اننگز ڈکلیئر کر دی ہے جس پر گواسکر حیرت میں پڑ گئے اور کہنے لگے اگر کوئی انڈین بیٹسمین تین سو کے قریب ہوتا تو میں کبھی بھی اننگز ڈکلیئر نہ کرتا۔’

جاوید میانداد اب کیا کہتے ہیں؟

حیدرآباد ٹیسٹ کو 38 سال بیت چکے ہیں۔ اپنی کتاب میں ڈکلیریشن کے بارے میں عمران خان پر کھل کر تنقید کرنے کے بعد جاوید میانداد اب اس معاملے میں بالکل مختلف رائے رکھے ہوئے ہیں۔

وہ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے تصویر کے دونوں رخ پر نظر ڈالتے ہیں۔

ʹاس وقت دونوں چیزیں صحیح تھیں۔ یا تو آپ ریکارڈ کے لیے جانے دیتے تو ہو سکتا ہے میچ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا۔ ہمارے لیے میچ جیتنا زیادہ ضروری تھا اور آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انڈیا کے خلاف جیت کیا معنی رکھتی ہے۔’

جاوید میانداد کہتے ہیں ʹانڈین ٹیم نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی تھی اور اس کے بولرز ایک اوور کرانے کے لیے پانچ سے دس منٹ لے رہے تھے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس زمانے میں دن میں 90 اوورز کی قید نہیں تھی۔’

جاوید میانداد کا کہنا ہے ʹریکارڈ کا کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ یہ بنتا یا نہیں؟ آپ ایک رن پہلے بھی آؤٹ ہوسکتے ہیں۔ آپ کا فیصلہ وقت کے لحاظ سے صحیح ہوتا ہے اور اس وقت آپ کو ملک کا مفاد بھی پیش نظر رکھنا ہوتا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ʹ

میانداد کہتے ہیںʹ 280 کے بعد بھی مجھے موقع ملا تھا جب میں نے انگلینڈ کے خلاف 260 کیے تھے میری سوچ یہ ہے کہ چانسز آپ کو ملتے رہتے ہیں اگر آپ اچھے کھلاڑی ہیں تو آپ کے رنز ہونے چاہئیں ضروری نہیں کہ صرف ریکارڈز ہی ہوں۔ʹ

انڈیا کے بولرز اگلی وکٹ کو ترس گئے

لگاتار دو گیندوں پر وکٹیں لینے کے بعد انڈیا کی ٹیم مزید کامیابیوں کے لیے ُپرجوش ہو گئی تھی لیکن جاوید میانداد اور مدثرنذر نے جس اعتماد سے کھیلنا شروع کیا اس کی وجہ سے انڈین کھلاڑیوں کے چہروں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔

پہلا دن ختم ہونے پر مدثر نذر 92 اور جاوید میانداد 96 رنز پر کھیل رہے تھے اور پاکستان کا سکور دو وکٹوں پر 224 رنز تھا۔

دوسرے دن انڈیا کھلاڑیوں کے صبر کا امتحان بڑھتا چلا گیا۔ مدثر نذر اور جاوید میانداد نے سنچریاں مکمل کیں لیکن ان کی شراکت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی اور دونوں نے اپنی ڈبل سنچریاں بھی مکمل کر ڈالیں۔

جاوید میانداد بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘وہ وقت ایسا تھا جب پاکستانی ٹیم کو لمبی بیٹنگ کرنی تھی اور اتنا سکور کرنا تھا کہ انڈیا ٹیم کو آؤٹ کرسکے۔ ٹیسٹ میچ میں عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ جو ٹیم ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتی ہے اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اتنا بڑا اسکور کرے کہ اس کی دوسری اننگز میں بیٹنگ نہ آئے اور حریف ٹیم کو دو بار آؤٹ کیا جاسکے۔’

میانداد

عالمی ریکارڈ کے بارے میں کسے معلوم تھا؟

جاوید میانداد اور مدثر نذر کی تیسری وکٹ کی شراکت میں سکور بورڈ پر رنز کے ہندسے تیزی سے بڑھتے جا رہے تھے کہ 511 کے مجموعی سکور پر مدثر نذر کی وکٹ گری جو 231 رنز بناکر آؤٹ ہوئے۔ انڈین ٹیم نے سکون کا سانس لیا لیکن اس وقت تک نئی تاریخ رقم ہو چکی تھی۔

مدثر نذر اور جاوید میانداد تیسری وکٹ کی شراکت میں 451 رنز کا اضافہ کر چکے تھے۔ اس طرح انھوں نے انگلینڈ کے بل ایڈرچ اور ڈینس کامپٹن کے 370 رنز کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا تھا جو انھوں نے تیسری وکٹ کے لیے جنوبی افریقہ کے خلاف 1947 میں لارڈز میں قائم کیا تھا لیکن سب سےاہم بات یہ تھی کہ مدثرنذر اور جاوید میانداد کی 451 رنزکی اس شراکت نے ٹیسٹ کرکٹ میں کسی بھی وکٹ کی سب سے بڑی شراکت کا عالمی ریکارڈ بھی برابر کردیا تھا جو آسٹریلیا کے سرڈان بریڈمین اور بل پونسفرڈ نے 1934 میں انگلینڈ کے خلاف اوول ٹیسٹ میں قائم کیا تھا۔

جاوید میانداد اور مدثر نذر جب کریز پر تھے اس وقت نہ تو انھیں پتا تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ کی سب سے بڑی پارٹنرشپ کا عالمی ریکارڈ کتنا ہے اور نہ ہی پاکستانی ڈریسنگ روم سے ان دونوں بیٹسمینوں کو عالمی ریکارڈ کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

مدثر نذر بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ʹجب میں آؤٹ ہو کر ڈریسنگ روم میں گیا تو مجھے سرفراز نواز نے بتایا کہ بیڈ لک کہ تم لوگ ایک رن کی کمی سے عالمی ریکارڈ نہیں بنا سکے ہو اور یہ ریکارڈ برابر ہو گیا ہے۔ وقتی طور پر افسوس ضرور ہوا تھا لیکن پھر یہ احساس ہوا کہ ہمارا نام سرڈان بریڈمین اور بل پونسفرڈ جیسے بڑے بیٹسمینوں کے ساتھ درج ہوا ہے جس کی زیادہ خوشی تھی۔’

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس عالمی ریکارڈ کے بارے میں کھیلنے والوں کو تو نہیں پتا تھا لیکن ٹی وی پر کمنٹیٹرز اس سے مکمل طور پر واقف تھے اور وہ تواتر کے ساتھ اس کا ذکر کمنٹری میں کر رہے تھے۔

جاوید میانداد کہتے ہیں کہ کوئی بھی کرکٹر ریکارڈ کے لیے نہیں کھیلتا۔ خوشی اس بات کی ہوتی کہ اگر ہم ایک رن زیادہ بنا لیتے تو ہم اس ورلڈ ریکارڈ میں برابر کے شریک نہیں ہوتے بلکہ صرف ہمارا نام ورلڈ ریکارڈ ہولڈر کے طور پر لکھا جاتا اور دنیا ہمیں اور پاکستان کو اس عالمی ریکارڈ کی وجہ سے یاد رکھتی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp