پی ڈی ایم قیادت کا بدلتا آہنگ


پی ڈی ایم کی تحریک کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد اپوزیشن کیمپ میں بڑی حد تک خاموشی چھا چکی ہے۔ اب اپوزیشن جگہ جگہ جلسے تو کر رہی ہے۔ لیکن بڑی جماعتوں کے قائدین نے ان جلسوں میں شریک ہونے سے گریز کی راہ اپنا رکھی ہے۔ اپوزیشن کا آخری جلسہ جو لورالائی میں منعقد ہوا۔ اس میں صرف مولانا فضل الرحمٰن اور محمود اچکزئی نے شرکت کی۔

لاڑکانہ کے جلسے سے خطاب کے دوران آصف علی زرداری نے جس طرح کے الفاظ کا چناؤ کیا۔ وہ کافی چونکا دینے والا تھا۔ سابق صدر نے پی ڈی ایم کی قیادت کو اپنی سوچ اور طریقہ کار تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے اپنی پارٹی کے ارادوں سے آگاہ کر دیا ہے۔ بعد میں اپوزیشن اتحاد کی بڑی بیٹھک میں پیپلز پارٹی کے قانون دانوں نے قائدین کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے مضمرات سے آگاہ کیا۔ بقول ان کے اپوزیشن اراکین کے پارلیمان سے نکلنے کی صورت میں حکومت 18 ویں آئینی ترمیم ختم کر سکتی ہے۔ جس کی وجہ سے صوبوں کو مالی مشکلات کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی سی ای سی کے اجلاس میں قانونی ماہرین نے بریفنگ دیتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ اگر اپوزیشن کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اپنی نشستیں چھوڑ بھی دیتے ہیں۔ تب بھی سینٹ الیکشن ہوسکتے ہیں۔ اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ڈی ایم کی قیادت نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے فیصلے کو مؤخر کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ اب ضمنی انتخاب لڑنے کی تیاریوں میں مصروف ہو چکی ہیں۔

ملک کے بعض لکھاریوں کے ساتھ ساتھ چند وفاقی وزرا نے بھی اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کے پہلے مرحلے کو ناکام قرار دے دیا ہے۔ ان تبصروں کے مطابق پی ڈی ایم اپنے اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ حکومت سمجھتی تھی۔ کہ جب اپوزیشن جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کے استعفوں کا وقت آئے گا تو ان جماعتوں میں بڑی تھوڑ پھوڑ بھی ہو گی اور فارورڈ بلاک بھی بنیں گے۔ جس کا انہیں سیاسی فائدہ حاصل ہو گا۔ اب ان کی امیدوں پر پانی پھر چکا ہے۔ لگتا ہے زرداری صاحب نے خطرے کی بو سونگھ لی تھی۔ اسی لئے انہوں نے نون لیگ اور دیگر حکومت مخالف جماعتوں کو اسمبلیاں چھوڑنے سے گریز پر آمادہ کیا۔ ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن اب اس آپشن کو سینٹ کے الیکشن یا لانگ مارچ کے بعد آزمائے۔

مریم نواز کی جانب سے لانگ مارچ کی تاریخ کو عوام کی سہولت کے مطابق طے کرنے کے بیان کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اپوزیشن اب سوچ سمجھ کر اپنے قدم آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ویسے بھی فروری میں اسلام آباد کا موسم بہت سرد ہوتا ہے۔ اس سخت موسم میں لوگوں کی بڑی تعداد کو اسلام آباد لا کر بٹھانا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

اس سارے جھگڑے میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے بیشتر اراکین کا رویہ غیر جمہوری اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے۔ خان صاحب شروع دن سے ہی اپوزیشن کے اکثر قائدین کو چور، ڈاکو اور کرپٹ کہہ رہے ہیں۔ وہ ہر تقریب میں ایک ہی بات دہراتے ہیں کہ ”میں ان کو این آر او نہیں دوں گا“ ۔ عمران خان کی طرف سے یہ جملے تواتر کے ساتھ ادا ہو رہے ہیں۔ حالانکہ بطور وزیراعظم ان کا فرض منصبی ہے کہ وہ سیاسی میدان کی گرما گرمی کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ان کو فراخ دلی کے ساتھ اپنے حریفوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ان کی جائز بات کو سننا چاہیے۔

خان صاحب کی طرف سے اپوزیشن قائدین کے لئے کرپٹ اور ڈاکو کے الفاظ استعمال کرنا انتہائی نامناسب اور غیراخلاقی بات ہے۔ کیونکہ ابھی تک نیب کسی سیاستدان کے خلاف جس کا تعلق اپوزیشن کے ساتھ ہے، کچھ بھی نہیں ثابت کر سکا۔ شاید وزیراعظم کے اندر اس بات کا گھمنڈ ہو کہ وہ ایک صفحے کی حکومت رکھتے ہیں۔ جس کا ایجنڈا صرف مخالفین کو دبا کر رکھنا ہے۔

فنکشنل لیگ کے محمد علی درانی نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں اس بات پر زور دیا تھا کہ حکومت سیاستدانوں کے خلاف چلنے والے مقدمات کو تیزی کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچانے کا بندوبست کرے تاکہ اس بات کا فیصلہ ہو سکے کہ کون کرپٹ یا چور ہے۔ جب تک کسی سیاستدان کو سزا نہیں ہو جاتی، اس وقت تک کسی کو بھی چور یا ڈاکو کہنا انصاف کے مسلمہ اصولوں کے منافی ہے۔

اس ہفتے کی اہم پیش رفت فوج کے ترجمان جنرل بابر افتخار کی پریس بریفنگ تھی۔ انہوں نے پی ڈی ایم کے متوقع لانگ مارچ کے بارے میں فرمایا کہ اپوزیشن کا پنڈی آنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ انہوں نے دیگر معاملات کے علاوہ اپوزیشن کے ساتھ بیک ڈور رابطوں کی بھی تردید کی ہے۔ فوجی ترجمان نے اس الزام کو بھی غلط قرار دیا ہے کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ جنرل صاحب کی پریس ٹاک کی ٹائمنگ بڑی اہم تھی۔ کیونکہ سیاست میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اپوزیشن کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ پر لگائے گئے الزامات کے بعد فوج کی طرف سے وضاحت کا آنا ناگزیر تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی باڈی لینگوئج یہ ظاہر کر رہی تھی کہ آنے والوں دنوں میں اسٹیبلشمنٹ اپنے آپ کو نیوٹرل رکھنے کا ارادہ کر چکی ہے۔ فوجی ترجمان نے بڑے نپے تلے انداز میں اپوزیشن کی تحریک کا ذکر کیا۔ ان کا چہرہ سختی سے بالکل عاری تھا۔ جنرل صاحب نے دانستہ موجودہ حکومت کی حمایت میں بیان دینے سے گریز کیا۔ جیسا کہ ماضی میں وہ کرتے رہے ہیں۔

دوسری طرف فنکشنل لیگ کے محمد علی درانی کا متحرک ہونا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ موصوف نے میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کر کے انہیں مخصوص حلقوں کا پیغام پہنچایا۔ اس ڈرامائی پیش رفت کے بعد نواز شریف کا بیانیہ پس منظر میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ جبکہ آصف علی زرداری اور نون لیگ کے معتدل ذہن رکھنے والے رہنما جن کی قیادت شہباز شریف کر رہے ہیں، نے ایک بار پھر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے۔

زرداری صاحب جو کہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، کو اس چیز کا بخوبی ادراک ہے کہ ایک وقت میں دو محاذ کھولنا دانشمندی نہیں بلکہ ہے۔ ماضی میں سابق صدر نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا جو بیان دیا تھا۔ اس کی وجہ سے انہیں بہت نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اب وہ پھونک پھونک کر اپنے قدم آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

گیارہ جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد میں شامل بعض قوم پرست رہنماؤں اور بالخصوص میاں نواز شریف کے فوج کے سربراہ پر کیچڑ اچھالنے کی وجہ سے اپوزیشن مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ نواز شریف جو کہ تین دفعہ ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ انہیں یہ بات سمجھ لینا چاہیے تھی کہ فوج کے خلاف بیان بازی دیوار کے ساتھ سر ٹکرانے کے مترادف ہو سکتی ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے سے گریز کرتے تو نون لیگ کو بہت سیاسی فائدہ ہو سکتا تھا۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں پیپلز پارٹی کی قیادت جو اپنے پتے سوچ سمجھ کر استعمال کرتی رہی ہے، نے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔

لگتا ہے کہ سیاسی میدان میں زندہ رہنے کے لئے نون لیگ نے بھی اپنی سٹریٹجی کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مریم نواز کا بدلتا ہوا لب و لہجہ اب اس چیز کی غماضی کرتا ہے۔ دوسری طرف شاید خاقان عباسی نے شہباز شریف کا پیغام نون لیگ کے قائد نواز شریف کو پہنچا کر انہیں اپنا ہاتھ ہولا رکھنے کی درخواست کی ہے۔ اس پیش رفت کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ کہ اندرون خانہ معاملات کو سدھارنے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).