سانحۂ مچھ: گلے پر چلتی چھری کی آواز کس نے سنی؟



بس تھوڑی دیر میں میرا گلا کٹ جائے گا پھر میرے کانوں میں میرے ساتھی کے گلا کٹنے کی آواز نہیں آئے گی۔ بس تھوڑی دیر اور۔ اذیت تو بہت ہو گی مگر شاید اپنے ساتھیوں کا وحشیانہ ذبیحہ دیکھنے کے بعد میرا مر جانا ہی بہتر ہے۔ غالباً یہی خیال آ رہے ہوں گے مچھ میں ذبح ہونے والے کان کنوں کو۔ رگوں میں خون جما دینے والا منظر۔ ہاتھ پیر بندھے، سخت سردی اور سنگلاخ فرش پر ایک کے بعد ایک ذبح ہوتا انسان۔ پتا نہیں ذبح کرنے سے پہلے منہ میں کپڑا بھی ٹھونسا تھا یا نہیں۔

کپڑا نہیں تھا تو سوچیں انسانی گلے پر چھری چلنے سے کیسی آوازیں آئی ہوں گی ، اگر کپڑا منہ میں ڈالا تھا تو بھی گھٹی گھٹی درد ناک آوازیں تو نکلی ہوں گی۔ ذبح ہونے والوں کو خوف کے علاوہ شاید اپنے خاندان والوں کا خیال بھی آیا ہو۔ کسی کو اپنی نو بیاہتا بیوی اور کسی کو اپنی بے سہارا بہنیں یاد آئی ہوں گی ، کسی کو اپنے بوڑھے باپ کا خیال بھی آیا ہو گا۔ مرنے والوں نے مرنے سے پہلے کیا سوچا ہو گا کہ آخر کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہا ہوں؟

کوئی سہارا ہوتا تو کیا آج وہ یوں درندوں کی چھری تلے پڑے ہوتے؟ عید قرباں کے لئے بھی حکم ہے کہ اگر دو جانور ہوں تو ایک کو دوسرے کے سامنے نہ ذبح کیا جائے، تڑپایا نہ جائے۔ مگر جانے وہ کیسے خدا کے نام لیوا تھے کہ انسانوں کے ساتھ جانوروں والی نرمی بھی نہ برتی۔ گیارہ انسان ذبح کردیے گئے۔ ماؤں بہنوں، باپوں نے اپنے پیاروں کی گلے کٹی لاشیں دیکھیں ہوں گی تو ان کو کیسا محسوس ہوا ہو گا؟ کسی میں اتنی ہمت ہے کہ اپنے بیٹے، باپ، بھائی، شوہر کو ان لاشوں کی جگہ رکھ کر ان مظلوموں کا درد محسوس کر سکے؟

کسی نے محسوس نہیں کیا۔ ان درد سے بے حال، نیم مردہ خاندانوں نے حوصلہ ہارتے ہوئے اپنے بچے کھچے پیاروں کی جانوں کی حفاظت کے لیے مرے ہوؤں کی لاشیں سامنے رکھ کر وزیراعظم سے ملنے کا مطالبہ کر دیا۔ اور کیا کرتے؟ ڈرے سہمے لوگ لاشیں خاموشی سے دفنا دیتے تو درندوں کو کھلی چھٹی مل جاتی۔ یہ ذبیحہ روز کا معمول بن جاتا۔ سات روز ایسے ہی لاشیں تکتے گزر گئیں۔ میڈیا پر کچھ ایمان فروش مسخرے، سراپا درد خاندانوں کو الزام دیتے رہے، ان کی کوتاہیاں اور غلطیاں نکالتے رہے، وزیراعظم نے خون خون ہوئے دلوں اور کٹی میتوں پر بلیک میلنگ کا الزام لگا کر ظلم اور گھمنڈ کی تا قیامت یاد رہنے والی مثال قائم کر دی۔

اپنے لیڈر کی اندھی پیروی کرنے والوں نے بھی تڑپتے خاندانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کسی نے کہا کہ لاشیں دکھا کر پیسے بٹورے جا رہے ہیں، کسی نے گھر والوں پر ہی لاش کی بے حرمتی کا الزام دھر دیا۔ حکومتی وزراء نے غمزدہ خاندانوں کو ان کے مالی مطالبات پوری دنیا کے سامنے دکھاتے ہوئے شرمندہ بھی کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ پیسے بڑھا دیے ہیں اور کیا کریں؟

اس سارے واقعے میں علماء کا کردار البتہ کہیں نظر نہیں آتا وہ تمام مولوی جو کورونا کو فحاشی کی سزا قرار دیتے ہیں یا دیس کی بیٹیوں کے ناچنے پر، پتلون پہننے پر عذاب الٰہی کا ڈراوہ دیتے نہیں تھکتے ، انہوں نے ایک بار بھی یہ زحمت نہیں کی کہ ظالم، سنگدل، بے رحم حکمرانوں کو بھی مظلوم کے حق میں للکار سکیں یا خدا کا ڈراوا دے دیں۔

ایسا کچھ نہیں ہوا۔ لاشیں تھک ہار کر دفنا دی گئیں، وزیراعظم اپنی انا کا جھنڈا لہراتے ہوئے انتہائی نزاکت سے پُرسے کی آڑ میں اپنے رتبے کی اہمیت جتا کر واپس ہو گئے۔ وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ ادھر لاشیں دفن ہوئیں ادھر حکومت نے سکھ کا سانس لیا، تھوڑی بہت جو بے چینی تھی وہ بھی ختم ہوئی اور بات آئی گئی ہو گئی۔

البتہ ایک چیز ہے جو ہمیں اب سوچ لینی چاہیے ، وہ یہ کہ ہزارہ کے لوگ تو کب سے موت کا سامنا کرتے آ رہے ہیں ، انہوں نے تو یہ صدمہ جیسے تیسے جھیل ہی لیا لیکن وہ گیارہ ذبح شدہ لاشیں اس بھیانک حقیقت کا ثبوت ہیں کہ انتہا پسند ہماری جڑوں میں گھر بنا چکے ہیں اور خون کا یہ کھیل حکومت کے نظر چرا لینے سے خودبخود ختم نہیں ہو جائے گا۔

آج جو ہمیں مظلوم خاندانوں کے ساتھ مل کر ان کی جانوں کی حفاظت کا مطالبہ حکومت سے کرنا چاہیے تھا، انتہا پسندی اور دہشت گردی سے ملک کو پاک کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے تھا لیکن ہم نے ان نڈھال، نہتے لوگوں کا ساتھ دینے کے بجائے ان پر ان کے اپنوں کی ہی لاشوں کے لیے لالچ کی تہمت لگائی تو کل جب یہ چھری ہمارے باپ بھائیوں کے گلے تک پہنچے گی تب ہم ان کی لاشوں کی کیا قیمت مقرر کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).