ویلنٹائن ڈے کی جگہ سسٹر ڈے


رات جب امی کا حکم صادر ہوتا چلو سونے کی تیاری کرو تو بڑی بہن جھٹ پٹ اٹھ کر بستر لگانے لگتی۔ میں چھوٹی تھی تو میرا کام ابو کے پلنگ کی چادر ٹھیک کرنا اور سرہانے پانی کا کٹورا بھر کر رکھنا ہوتا تھا۔ صبح دروازے کے پاس پڑا تازہ اخبار بھی ابو کو میں نے ہی دینا ہوتا تھا۔ سردیوں میں ابو کے صبح آفس پہن کے جانے والے جوتے کمرے میں ، مَیں ہی رکھتی تھی۔ ہر دن ہی فادر ڈے ہوتا تھا۔

امی چھوٹے بھائی کی پیدائش پہ کافی بیمار اور کمزور ہو گئیں۔ بڑی بہنیں گھر کا کام کرتی تو میرا کام چھوٹے بھائی کے لنگوڑ ڈوری پہ پھیلانا ہوتا اور شام ڈھلتے ہی پہلے امی آواز دے کر کہہ دیتی کہ کپڑے اتار لاؤ تو وہ چھوٹے چھوٹے کپڑے مجھے تہہ کرنا ہوتے ،انہیں تہہ لگا کر ٹوکری میں جمانا میرا کام ہوتا۔

اسی دوران کندھے سے لگا کر بھائی کو ڈکار دلانے کے لیے بھی امی مجھے ہی صدا دیتیں۔ عام دنوں میں شام کی چائے کی پیالیاں دھو کے رکھنا ، پرندوں کو دانہ پانی دینا یہ کام امی نے میرے ذمہ لگا رکھے تھے، گو کہ گھر میں کئی افراد تھے لیکن امی اپنے سے جڑے رکھنے کے لئے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے کہہ دیتی تھیں۔ بچپن لڑکپن کھیل کود کے ساتھ ساتھ امی کے کاموں میں گزرا ہر دن ہی مدر ڈے جیسا تھا ہمارا۔

بڑے ہوئے تو آس پاس وقت گزرنے کے ساتھ اتنی تیزی سے تبدیلیاں آنا شروع ہو گئیں کہ ہم تو وہ رویہ دہرانے کا تصور بھی نہ کر سکے جو ہمارے والدین ہمارے ساتھ روا رکھتے تھے۔ کیا خوب تربیت تھی۔ کہیں کہیں تو تربیت پہ اتنا زور رہتا تھا کہ تعلیم نظر انداز ہو جاتی تھی۔

آج تعلیم پہ بہت زور دیا جاتا ہے۔ بچے پڑھ رہے ہوں تو کسی کام کے لئے آواز نہیں دے سکتے۔ کھانے کا وقت ہے تو کھانا بچوں کے سامنے جا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ آج بچوں کو ماں باپ کی اہمیت تربیت کے بجائے مدر ڈے اور فادر ڈے بنا کر دلائی جاتی ہے۔

درحقیقت ہم بحیثیت قوم اندھی تقلید میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ہم اپنی ، اقدار اپنے معاشرتی اصول ، اپنی خاندانی روایات کو پس پشت ڈال کر بیرونی اقدار کو اختیار کرتے ہوئے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔

استاد کو پورے سال عزت نہیں دیتے اور سال میں ایک مرتبہ ٹیچر ڈے منا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ مدر ڈے فادر ڈے اور فلاں فلاں ڈے منا کر ہم بہت خوش ہوتے ہیں۔ بس ایک ڈے ہم اپنی معاشرتی مجبوریوں کی بدولت منا نہیں پاتے لیکن چونکہ ہمیں اندھی تقلید کی عادت پڑ چکی ہے تو دن آئے اور ہم خاموشی سے گزار دیں یہ بھی گوارا نہیں ہوتا۔

اب وہ دن یعنی ویلنٹائن ڈے بھی ایسا کہ یہاں کی جو ریت ہے ، وہ الگ ہے، دوسرے معاشروں کے لوگ تو مادر پدر آزاد ہیں ہر طرح سے منا لیتے ہیں ، اب چونکہ اس دن کو یہاں منا نہیں سکتے تو بھئی جانے دو ، مت دو کوئی ردعمل لیکن ہماری نوجوان نسل ایسے دن کیونکر  ضائع جانے دے لہٰذا اس دن کو سسٹر ڈے کا نام دے کر منانا ضرور ہے۔

ایک طرف تو سسٹرز ڈے منا کر یعنی ہم اپنی معاشرے میں عورت کو عزت دے رہے ہیں۔ یہ جو آئے روز ایک درد ناک بیماری معاشرے میں پنپ رہی ہے کہ ہر دوسرے دن عصمت دری کی شکار معصوم لاشیں کچرے کنڈیوں، کھیتوں اور کھنڈرات سے ملتی ہیں۔ کبھی اپنے معاشرے کی اس برائی کی عکاسی کرتے ہوئے کسی دن کا اہتمام کرنے کی سوجھی؟ یہ سوال ان سب سے ہے جو ویلنٹائن ڈے کی مخالفت میں سسٹر ڈے منانے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں؟

ہم بہت پست حوصلہ قوم ہیں ، ہمیں بھیڑ چال تو آتی ہے لیکن خود سے کوئی راستہ نکالنا مشکل لگتا ہے۔

کیا ہم ایک ایسا دن منانے کا اہتمام نہیں کر سکتے ہیں جس سے ان ماں باپ میں یہ احساس پیدا کر سکیں کہ خدارا اپنے معصوم بچے بچیوں کو اپنے وجود ، اپنے جسم کی حفاظت کی تربیت دے دیں۔ انہیں اپنے سے دور مت کریں۔ ہم سے اچھے تو پرندے اور جانور ہیں جو اپنے بچوں کو اس وقت تک اپنے سے دور نہیں کرتے جب تک وہ خود چلنا یا اڑنا نہ سیکھ لیں۔ جب کہ ہم انسان ہو کر اپنے بچوں کو لاپروائی سے گلی محلے میں کھیلنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ کسی کے گھر رکنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔

منائیے ، یہ دن بھی تو منائیے تاکہ ہمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی آئے، اندھی تقلید مت کیجیے ، اپنے ماحول اور معاشرے کی ضرورت کو مدنظر رکھیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).