یہی ہے زندگی، کچھ خواب چند امیدیں!


کسی زمانے میں دنیا منڈی کی معیشت والے مغربی ممالک، اور ان ممالک کو ’سامراج‘ کے نام سے یاد کرنے والے ’بائیں بازو‘ کے اشتراکیوں کے درمیان تقسیم تھی۔ مغربی ممالک سرخ آندھی کو دو بڑے راستوں (Prongs) سے ’آزاد دنیا‘ کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ سدباب کے طور، جہاں مشرقی یورپ کے راستے میں نیٹو کے ذریعے عسکری صف بندی کی گئی، تو وہیں اشتراکیت کو جبر کا نظام بتلاتے ہوئے مغربی یورپ میں جمہوریت، انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کے خوش نما تصورات کو اس کے مقابل اجاگر کیا گیا۔

دوسری طرف وسطی ایشیا کے راستے بڑھتی سرخ یلغار کے سامنے اسلامی بنیاد پرستی کے بطن سے پھوٹنے والی جہادی تنظیموں کو استوار کیا گیا، جنہیں ’بائیں بازو‘ کے سرخوں کے مقابل ’دائیں بازو‘ کے طور جانا جاتا تھا۔ سرخ فوجیں جب دریائے آمو کے پار ادھرافغانستان میں اتریں، تو ’دائیں بازو‘ سے وابستہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی کھوکھ سے جنم لینے والے جہادی جھتے ہمارے معاشرے کی رگوں میں اتر گئے۔ تاہم ایک عشرے کے اندر اندر سوویت یونین کی پسپائی کے نتیجے میں سرخے لاوارث ہو گئے۔

ستمبر 2001ء میں حالات نے پلٹا کھایا تو امریکہ کی سرپرستی میں نمو پانے والے ’مجاہدین‘ راتوں رات ’دہشت گرد‘ بن گئے۔ مشرق وسطیٰ کی طرف بڑھتی سرخ یلغار کو روکنے کے لئے، کل تک جن کے ساتھ مل کر جہادی جتھوں کی آبیاری کی گئی تھی، اب انہی سے مطالبہ تھا کہ افغانستان میں قابض مغربی فوجوں کے مقابلے میں ان جہادیوں کی بیخ کنی کی جائے۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کا خاتمہ ہوا تو پاکستان سے ’ڈو مور‘ کا یہ مطالبہ زوروں پر تھا۔

ایک طرف پاکستانی افواج مذہبی انتہا پسندوں سے بر سر پیکاراور جانوں کے نذرانے پیش کر رہی تھیں تو دوسری طرف مغربی دارالحکومتوں کے ایماء پر ایک مربوط سکیم کے تحت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھایا جا رہا تھا۔ پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں سے 200 نوجوانوں کو منتخب کر کے مغربی دارالحکومتوں میں لے جانا، اسی مہم کی ایک کڑی تھی۔ (اس اہم معاملے کی کچھ تفصیل عنایت ہو تو ہم پڑھنے والوں کی رہنمائی ہو گی۔ و-مسعود)

وہ تمام عناصر جو کسی زمانے میں متروک ’بائیں بازو‘ سے وابستہ رہے تھے، اور مغرب کو ’استعمار‘ کے نام سے یاد کرتے تھے، اب انہی مغربی دارالحکومتوں کے منظور نظر بن کرخطے میں تمام مسائل کا ذمہ دار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرانے میں پیش پیش تھے۔

اسی دور میں ہیلری کلنٹن نے ’ڈیپ سٹیٹ‘ کا نظریہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مثال دے کر واضح کیا تو لبرلز اسے لے دوڑے۔(ہیلیری کلنٹن اکتوبر 2009ء میں پاکستان آئی تھیں۔ ان کے دورے کی معمولی سے معمولی تفصیل دستاویز ہو چکی اور دستیاب ہے۔ بنیادی حوالہ تو  Hard Choices ہی ہے۔ ڈیپ سٹیٹ کی مثال دیتے ہوئے پاکستان کا نام محترمہ کلنٹن نے 2020ء میں لیا۔ فیصل مسعود، اپ جیسے صاحب فراست سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ آپ تاریخ کے بیان مین دس بارہ برس کا گھپلا کریں گے۔ و-مسعود) یہی ماہ وسال تھے جب ’انڈین کرانیکلز‘ کے مہیب نیٹ ورک کی بنیاد رکھی گئی۔ مذہبی طبقہ جو کسی زمانے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ’فطرتی حلیف‘ کے طور پر جانا جاتا تھا، اس سے وابستہ انتہا پسند عناصر اب شہروں اور بستیوں میں نا صرف فوجی تنصیبات بلکہ عام شہریوں پر بھی حملہ آور تھے۔ ملا اور لبرلز، باہم متحارب ہونے کے باوجود اب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف یکسو تھے۔(برادرم فیصل مسعود، نیاز مند کہاں تک آپ سے اختلاف کرے۔ ملا اور اسٹیبلشمنٹ باہم متحارب ہونے کے باوجود لبرلز کے خلاف یکسو تھے اور ہیں۔ اٹنگے ملاؤں کے طائفے کو وزیرستان کے دورے پر  لے جایا گیا تو اس وفد میں کوئی لبرل نہیں تھا۔ آپ جیسے شائستہ بھائی سے زیادہ اختلاف کرنا مناسب نہیں لگتا۔ لبرل ذہن سے دشمنی کی حد تو یہ تھی کہ 50 رنز کرنے پر کھلاڑیوں کو تبریک کی ٹویٹ کرنے والوں کو عاصمہ جہانگیر کی موت پر 140 حروف کی تعزیت کی توفیق نہیں ہوئی۔ و مسعود)   آنے والے برسوں میں بلوچستان میں شورش، جا بجا فرقہ وارانہ قتل و غارت، اور لسانی و علاقائی بنیادوں پر راتوں رات پاک فوج مخالف تنظیموں کا یوں وجود میں آ جانا محض اتفاق نہیں تھا۔

مشرف مارشل لاء کے آخری سالوں میں دو بڑی سیاسی پارٹیاں اس نتیجے پر پہنچ چکی تھیں کہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی موجودگی میں ’بقائے باہمی‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور مقدمہ بازی سے باز آنا چاہیے۔ بے نظیر کی ناگہانی شہادت کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے ذاتی عناد رکھنے والے میاں صاحب کے ہاں ایک بار پھر چھوٹے بڑے سیاسی خاندانوں کے ورثاء کا اکٹھ ہوا، جہاں ’بقائے باہمی‘ کے مجوزہ ’بندوبست‘ کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے عہد و پیمان باندھے گئے۔

مشرف صاحب کا سورج غروب ہوا تو وہ پاکستانی معاشرہ جو کچھ عشروں قبل، ’دائیں‘ اور ’بائیں‘ کی نظریاتی تقسیم پر استوار تھا، اس کے اندر اب ایک نئی صف بندی کے خدوخال ابھرنا شروع ہو چکے تھے۔ نظریاتی نہیں، بلکہ عالمی، علاقائی اور شخصی مفادات کی بنیادوں پر پاکستانی معاشرہ ایک نئے طور پرتقسیم ہو چکا تھا۔ لکیر کے ایک طرف طاقتور اسٹیبلشمنٹ، تو دوسری طرف روایتی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہاپسند مذہبی تنظیموں اور کسی زمانے میں بائیں بازو وابستہ رہنے والے مگر دور حاضر کے ’جمہوریت پسند لبرلز‘ کا اتحاد تھا۔ زندگی کے ہر شعبے، بالخصوص انصاف کے سیکٹر اور میڈیا میں ان کے ہم خیالوں کی اندھی حمایت انہیں دستیاب تھی۔

دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی تقسیم اب جبکہ آپس میں گڈ مڈ ہو کر معدوم ہو چکی تو پاکستانی مڈل کلاس کی حمایت سے عمران خان آندھی کی طرح منظر نامے پر ابھرے۔ متوسط طبقہ جس نے عمران خان سے امیدیں وابستہ کیں، نسبتاً تعلیم یافتہ پاکستانیوں پر مشتمل ہے کہ دو خاندانوں کو باری باری جنہوں نے ملک پر حکومت کرتے دیکھا ہے۔ نوجوان نسل کہ چوتھے صنعتی انقلاب کے برپا ہونے سے کچھ سال پہلے جس نے آنکھ کھولی اور بھٹو کے سحر سے جو آزاد ہے۔

کثیر تعداد میں سمندر پار پاکستانی ہیں کہ سمٹی ہوئی دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں کے خدوخال اور اپنی محرومیوں کے اسباب سے جو آگاہ ہے۔ سیاسی خاندانوں سے جو بیزار اور ان کی اگلی نسلوں کو حکمران ماننے کو تیار نہیں۔ جمہوری اقدار، سویلین بالا دستی اور انسانی حقوق پر مبنی نظام اور نظریات سے ہرگز جو بیگانہ و بے خبر نہیں، تاہم کڑے احتساب اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی چاہتے ہیں۔ اس طبقے سے وابستہ افراد کو یہ باور کرانا کہ تباہ حال معیشت کا ذمہ دار تنہا عمران خان ہے، اس قدر آسان نہیں۔

تقسیم کے دوسری طرف روایتی سیاسی خاندان اور ان کے معاونین اب آئین اور سول بالا دستی کے نام پر ’سلیکٹرز‘ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ معاشرے کے طاقتور طبقات کی حمایت ان خاندانوں کو حاصل ہے۔ کم از کم دو بڑے میڈیا گروپس بالخصوص انگریزی اخبار ان خاندانوں کی اقتدار میں واپسی کے منتظر ہیں۔ ان سے وابستہ ملازمین میں سے اکثر سوشل میڈیا پر حکومت اور اس کے ’سہولت کاروں‘ کے خلاف ہمہ وقت متحرک دیکھے جاتے ہیں۔

مغرب نواز لبرلز ہر صورت موجودہ نظام کو گرانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہ مقصد اگر مدرسوں کے طالب علموں کی اسلام آباد پر مجوزہ چڑھائی کی صورت میں حاصل ہوتا ہے تو بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ روایتی سیاسی خاندانوں اور ملا، لبرل گٹھ جوڑ پر مشتمل اتحاد کی نظر میں موجودہ احتساب اور سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات سول بالا دستی کے لئے راہ عزیمت اختیار کرنے والے سیاستدانوں، ججوں اور صحافیوں کے پر کاٹنے کا بہانہ ہیں۔

دو گروہوں کے درمیان کشمکش کے خدو خال اس وقت واضح ہو جاتے ہیں، جب گرد اڑاتے کراچی میں بیٹھ کر مرتضیٰ وہاب ٹی وی کیمروں کے سامنے آئین پاکستان لہراتے اور جاتی عمرہ کے محلات کے سامنے کھڑے ہو کر احسن اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان ووٹ کے ذریعے بنا اور ووٹ کو عزت نہ دینے کی وجہ سے ٹوٹا تھا۔ تو عین اسی وقت سکرین کے دوسرے حصے میں شہزاد اکبر ’براڈ شیٹ معاملے‘ اور لاہور میں میاں اسلم کچرا اٹھانے والی غیر ملکی کمپنیوں کو دیے گئے ٹھیکوں کی تفصیلات بیان کرتے ہیں۔

وہ جو نفرت کے عذاب میں مبتلا ہیں، ان سے قطع نظر، کئی ’جمہوریت پسندوں‘ کے نظریاتی اخلاص کی قدر کی جانی چاہیے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر ابھی کل تک سرخ انقلاب کے رومانی تصور کے اسیر تھے، (برادر محترم سرخ انقلاب کے رومانی تصور کا اسیر ہونا کوئی جرم نہیں تھا ٹھیک اسی طرح جیسے سرمایہ دار بلاک کی گود میں بیٹھ کر سبز انقلاب کی امید باندھنا۔ ایران کے سبز انقلاب اور اٖفغانستاں میں طالبان کے پانچ سالہ خونین انقلاب کے بارے میں بھی رہنمائی فرماتے رہا کریں۔ شوکت اسلام کا جلوس، نطام مصطفیٰ  کی تحریک اور بریگیڈیئر امیر سلطان کا قتل ابھی اتنی پرانی تاریخ نہیں کہ پڑھنے والوںکو یاد نہ ہو – و مسعود)

اب شریفوں سے امیدیں وابستہ کیے آج بھی حقیقت کی دنیا سے دور ہی جیتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے یاد رکھنے کی بات تاہم یہ ہے کہ عشروں پہلے سرخ رومان پسندوں کو شکست مغربی منڈی کے ساہوکاروں یا جہادی جتھوں کے ہاتھوں نہیں ہوئی تھی۔ پیٹ خالی ہو تو خواب ٹوٹنے اور آنکھ کھلنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔

ضروری نوٹ: آپ سے اختلاف رائے کا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ آپ کی رائے کو مسترد کیا جائے۔ “ہم سب” ہم سب کا ہے۔ آپ کی تحریر دو چار روز نظر نہ آئے تو درویش بےقرار ہو کر انتظار کرتا ہے۔ باقی اختلاف رائے کے معاملات ہیں۔ کبھی زیادہ تفصیل سے لکھیں گے۔ وطن عزیز کی سلامتی اور ترقی کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔ و مسعود  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).