دہشت گردی کی ایک خطرناک نسل داعش کی تشکیل


شدت پسندی کی تربیت گاہ و گنجلک محل وقوع کے سبب افغانستان میں خصوصی ایجنڈے کے تحت داعش کو آباد کرایا گیا۔ سرزمین افغانستان میں داعش (خراساں شاخ) سے دہشت گردی کے واقعات کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تاہم پاکستان میں جڑیں مضبوط ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ بلوچستا ن میں آئی ایس خراساں کے بڑے نیٹ ورک کاحساس اداروں کی مدد سے صفایا کیا گیا تھا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس نیٹ ورک کی جڑیں پڑوسی ملک افغانستان میں موجود ہیں، جس سے پاکستان کو مسلسل خطرات لاحق رہتے ہیں۔

افغانستان میں داعش دہشت گردی کی کئی واقعات کی ذمے داری قبول کرچکاہے۔ واضح رہے کہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی امریکی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ مبینہ طور پر افغانستان میں داعش کو ہتھیار و جنگی ساز و سامان امریکا دے رہا ہے۔ بادی النظر نظر یہی آتا ہے کہ داعش کی سہولت کاری کا مقصدایران، چین، ترکمانستا ن اور روس کو دباؤ میں لانا ہو سکتا ہے۔

امریکا خود تو افغانستان سے باہر نکلنا چاہتا ہے لیکن افغانستان میں کئی سنگین معاملات کو بے امنی کے لئے چھوڑ کے بھی جانا چاہتا ہے۔ آئی ایس کے نظریات و اس سے ہمدردی رکھنے والے اور مخالفت کے حوالے سے عالمگیر نظریے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ مریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف فوٹیل نے خبردار کیا ہے کہ ”شام میں آخری محاذ پر شکست کے باوجود ’داعش‘ کا خطرہ ختم نہیں ہوا ہے۔ یہ گروپ منتشر ہونے کے باوجود انتہا پسندوں کی خطرناک نسل کی نمائندگی کرتا ہے اور مستقبل میں دہشت گردی کی ایک خطرناک نسل تشکیل دے سکتا ہے“ ۔

جنرل جوزف نے امریکی سینٹ کی ایک کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ”داعش کے خطرے کے حقیقی انسداد کے لیے داعش کے نظریات سے درست طریقے سے نمٹنا ہوگا۔ اگر اس کے نظریات سے نہ نمٹا گیا تو مستقبل میں یہ گروپ تشدد پسند انتہا پسندی کے بیج بو سکتا ہے“ ۔ خطے میں داعش کو خصوص مفادات کے لئے منظم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، بالخصوص سری لنکا حملے کے بعد جس طرح بھارت کی داعش کو سہولت کاری کے حوالے سے تفصیلات منکشف ہوئیں تو اس کے اثرات سے پاکستان و افغانستان کو غیر محفوظ کرنے کی سازشیں بھی عالمی برداری کے سامنے آئیں۔

افغان مفاہمتی عمل کے بعد افغانستان میں پر تشدد واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا، داعش (خراساں شاخ) ایسے واقعات میں ملوث ہوئی جس کا براہ راست نشانہ عوام بنے۔ بھارت کے داعش کی سہولت کاری کا انکشاف امریکی ادارے کے فارن پالیسی نے ایک رپورٹ میں کیا۔ فارن پالیسی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ سری لنکا میں 2019 میں ایسٹر پر کیے گئے حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے تھے اور بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر توجہ نہ دی گئی تو اس کے مستقبل میں عالمی منظر نامے پر تبادہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

رپورٹ کے مطابق ہندوستانی دہشت گردی کی کہانی تاریخی طور پر دنیا کی نظروں سے اوجھل رہی، ہندوستان کی انتہا پسندانہ پالیسی ایک تباہ کن خطرہ ہے، اگر اس کا نوٹس نہ لیا گیا تو اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔ جریدے نے دعویٰ کیا کہ بھارت نے داعش کو استعمال کر کے مذہبی گروپس خاص کر نوجوانوں کو استعمال کر کے دوسرے ممالک اور بین الاقوامی مذہبی تحریکوں کے ذریعے انتہا پسندی اور دہشت گرد نظریات کو فروغ دیا ہے اور شام کی لڑائی میں بھارتی دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ملے ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارتی دہشت گردوں کے افغانستان میں داعش کے ساتھ مل کر لڑنے کے واضح ثبوت ہیں اور داعش اور بھارتی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں واضح اضافہ ہوا ہے، پھر چاہے 2016 میں اتاترک ائرپورٹ پر حملہ ہو یا زیر زمین پیٹرزبرگ پر حملہ ہو، بھارتی دہشت گردوں نے خاص کر افغانستان اور شام کو اڈہ بنا کر دہشت گردانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی داعش پاکستان بنا رہی ہے، افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے ذریعے سازشیں ہوتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے کالعدم تنظیموں کی معاونت کی جا رہی ہے۔ کالعدم تنظیموں کا کنسورشیم بنایا جا رہا ہے، بھارت کی اشتعال انگیزی سے متعلق شواہد بھی موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے دہشتگردوں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے اور اس باررے میں ثبوت ہیں، بھارت انتہا پسند تنظیموں کو فنڈنگ کر رہا ہے، مصدقہ اطلاعات ہیں سرحد کے ساتھ بھارتی قونصل خانوں کے ذریعے سازش کی جا رہی ہے۔

مختلف ذرائع سے دہشتگرد تنظیموں کو رقوم فراہم کی جا رہی ہیں۔ میجر جنرل بابر افتخار کا کہناتھا کہ الطاف حسین گروپ کو بھی بھارتی خفیہ ایجنسی کی فنڈنگ کے شواہد ہیں، عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے عمائدین اور علما بھی ان لوگوں کا ہدف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت دہشتگردوں کے تربیتی مراکز کی پشت پناہی کر رہا ہے، دہشتگردوں کے 66 تربیتی مراکز افغانستان اور 21 بھارت میں ہیں۔

ہ دولت اسلامیہ کی جانب سے افغانستان اور پاکستان میں بھی کارروائیوں کے لیے قدم رکھنے کی کوشش کی گئی، لیکن ریاست کی جانب سے بروقت اقدامات کی وجہ سے داعش کو پاکستان میں قدم جمانے کا موقع نہیں مل سکا، خیال رہے کہ کچھ برس قبل ا داعش کی جانب سے تشہیری مہم شروع کی گئی، جس میں پاکستان میں مقیم لاکھوں کی تعداد میں موجود افغان مہاجرین کی بستیوں، میں دولت اسلامیہ کی جانب سے ایک کتابچہ تقسیم کیا گیا کہ وہ ’اسلامی خلافت‘ کے قیام کے لیے حمایت کریں۔

دولت اسلامیہ کے مطابق وہ خراسان میں خلافت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے جس میں پاکستان، افغانستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک شامل ہوں گے ، پشتو اور دری زبان میں چھاپے گئے اس کتابچے میں افغان باشندوں کو مخاطب کیا گیا۔ ’دعوت جہاد‘ نامی پشتو اور دری زبان میں لکھے بارہ صفحات پر مبنی اس کتابچے میں کلاشنکوف پر لگے کالے رنگ کے پرچم پر کلمہ اور مہر رسول ﷺ کے ساتھ نمایاں انداز میں فتح لکھا ہوا تھا، جب کہ کاروں پر اسٹیکر بھی دیکھے گئے ذرایع یہ بتا تے ہیں کہ یہ مواد افغانستان کے علاقے کنٹر سے آیا۔ فی الحال یہ کتابچے پشاور، نوشہرہ اور دیگر علاقوں میں افغان مہاجرین کی بستیوں میں دولت اسلامیہ کی جانب سے نامعلوم افراد نے تقسیم کییگئے تھے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے دولت اسلامیہ کی پاکستان میں کسی سرگرمی سے قطعی لاعلمی اور تردید کرتے ہیں۔ بین الافغان مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے شروعات میں خطے کو ایک نئی جنگ سے بچانا ضروریہے تو اس اہم معاملے پر توجہ دینی ہو گی، افغان مہاجرین کی جلد از جلد واپسی کو ممکن بنانا ہو گا، غیر ملکیوں کی سرگرمیوں کو قانون کی گرفت میں لا کر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھا جائے۔ ورنہ خطہ ایک نئی نہ ختم ہونے والی جنگ کے لیے تیا رہے کیونکہ قبائلی علاقوں میں مسلسل آپریشن کے بعد انھیں حکومت اور سیاسی جماعتوں نے جس طرح نظر انداز کیا ہے، اس سے خدشہ رہتاہے کہ نوجوانوں کے رجحانات کو موڑا جاسکتا ہے کیونکہ احساس محرومی کے شکار کسی بھی فرد یا قوم سے ردعمل نہ صرف فطری ہوتا ہے بلکہ اس میں بدلے اور ناراضگی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔

حکومت کو اس کے مکمل خاتمے کے لیے اور ایسی تنظیموں کا راستہ روکنے کے لیے تواتر سے اقدامات کرنا ہوں گے ۔ پاک فوج سرحدوں کی حفاظت کر رہی ہے لیکن سیاسی بے چین اور احساس محرومی کے شکار عوام کے ساتھ کب تک اکیلے نبرد آزما رہے گی۔ فوج اپنے حصے سے بڑھ کر کام کر رہی ہے جب کہ سیاسی جماعتوں، صوبائی اور وفاقی حکومتیں محاذ آرائیوں سے بیزار ہونے ہونے والی عوام کی زیادتیوں کا ازالہ فوری نہیں کیا گیا تو مستقبل میں دولت اسلامیہ کا وجود انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ عراق و شام کے حالات سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے کیونکہداعش کے ساتھ صرف ہمدردی افغانستان کے عوام کو ہی نہیں، بلکہ پاکستان میں بھی کئی کالعدم تنظیمیں اور گروہ ہیں، جو دولت اسلامیہ کی جانب سے شام و عراق میں کی جانے والی کارروائیوں کو درست قرار دیتے رہیہیں۔

پاکستان میں بڑی شدومد کے ساتھ فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے، جس کے سبب فرقہ وارانہ خیالات کے حامل انتہاپسندوں کو داعش کی صورت میں اپنے خوابوں کی تکمیل کا ذریعہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ منفی جذبات ابھارنے کے لیے پاکستان کے ان ہی علاقوں کو ایک بار پھر کسی بین الاقوامی ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ داعش میں شمولیت کے لیے غلط فہمیوں کی ماضی کی فضا دوبارہ سازگار بنانے کے لیے اس قسم کے پروپیگنڈے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اور مستقبل میں ان علاقوں میں احساس محرومی کے نام پر کسی بھی مسلح گروپ کو دوبارہ قدم جمانے میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

اب یہ ارباب اختیار کی پالسیوں پر منتج ہے کہ وہ کس طرح مستقبل میں داعش کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرتی ہے۔ کیا وہ ماضی کی طرح کسی ’خاص مقاصد‘ کے لیے ان علاقوں میں کسی نئی مہم جوئی کے حق میں ہیں یا پھر قلع قمع چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ پاکستان کے پالیسی سازوں پر منحصر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی پراکسی وار کے مضر اثرات سے مملکت کو محفوظ بنانے کے لئے اداروں اور عوام کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا ہو، تاکہ مملکت کے خلاف نت نئی سازشوں کا مقابلہ پوری قوت کے ساتھ کیا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).