لاہور کے کچرے کو فوری صاف کیا جائے!


کہتے ہیں کہ ”چاول کا ایک دانہ ہی کھا کر دیگ کا پتہ چل جاتا ہے۔“ لیکن یہاں ہم پاکستانی تو کچھ عجب سی قوم ہیں ایک دانہ تو کیا پوری کی پوری دیگ کھا جاتے ہیں پتہ نہیں چلتا۔ حتیٰ کہ ہم پچھلے کئی دہائیوں سے بے شمار دیگیں کھا چکے ہیں مگر ہمارے ذائقوں کے مسام تقریباً بند ہوچکے ہیں۔ کسی بھی کڑوے، کسیلے، روکھے، پھیکے ذائقے کا فرق معلوم ہی نہیں پڑتا۔ ہر چیز مزے دار اور خوش ذائقہ ہی لگتی ہے۔ ایک بار چر چل نے کہا تھا۔

”ایک رات خندق میں گزارنے سے انسانی رویوں میں تبدیلی آہی جاتی ہے۔“ مگر افسوس ہماری قوم نے خندقوں میں راتیں تو کیا مورچوں میں کئی کئی دن بھی گزارے ہیں۔ دہشت گردی، اغوا گردی، مذہب گردی سے لے کر انسانیت گردی تک بہت لوٹ کھسوٹ بھوگ لی۔ لیکن گزری نسلوں اور آنے والی نسلوں نے بھی سکون بس شاذ ہی پایا۔ نہ اس وطن کو چھوڑ کر کہیں اور جا سکتے ہیں نہ یہاں بھر پور خوشیوں کے ساتھ زندگی کر سکتے ہیں۔ ہماری اوقات تو رین بسیرا کرنے والے ان پنچھیوں کی طرح ہے جو پہر، دوپہر چھتر چھایہ میں سستا لیتے ہیں۔

اس کے بعد پھر دانہ دنکا چگنے کے لیے حکم کی اتباع میں نکل پڑتے ہیں۔ پاپا کہتے تھے پچاس کی دہائی میں لاہور پھولوں سے مہکا کرتا تھا۔ باغوں کا شہر کہلاتا تھا۔ مال روڈ پر چین کی بانسری بجتی تھی۔ دوسری طرف امریکا سرکار سے بھی میرا نام ہے محبت والا رشتہ تھا۔ ہم افغانستان کی جنگ میں نہیں پھنسے تھے اور ڈومور جیسا نعرہ بھی دریافت نہیں ہوا تھا۔ لاہور میں بے شمار درخت تھے اور عمارتیں بہت کم تھیں۔ اندرون لاہور کی چھتوں پر پلاسٹک کی نیلی ٹینکیاں کہیں نظر نہیں آتی تھیں۔

بلکہ ہاتھ سے پمپ چلانے والے نلکوں سے پانی آیا تھا۔ لاہور کی مشہور لمبی بی آر بی نہر کے دونوں کناروں پر دور تک چلتے ہوئے درخت سبزے کا منفرد نظارہ پیش کرتے تھے۔ بعد میں ان خوبصورت درختوں کو کہیں سڑک کو چوڑا کرنے اور کہیں رہائشی مکانات تعمیر کرنے کے لیے بے دردی سے کاٹ ڈالا گیا۔ پاپا بتاتے تھے کہ UET کے ہاسٹل کی سبز گھاس پر بیٹھے وہ سارے دوست اپنی اپنی چائے کی پیالیوں سے اٹھتی ہوئی بھاپ کے ساتھ موروں کی بولیاں بھی سنا کرتے تھے۔

UET سے تھوڑا آگے مغلیہ دور کا عالیشان شالا مار باغ آموں، امردوں اور شہتوت کے درختوں سے لدا ہوا ہوتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ لاہور میں عجیب ترقی ہوتی گئی جو اسے سیمنٹ اور بجری سے بنے ہوئی بلند و بالا عمارتوں، پلوں اور خود رو رہائشی منصوبوں سے بھرتی گئی۔ لاہور کی آبادی بڑھتی گئی اور اس کی خوب صورتی ماند پڑتی گئی۔ اگر نئے شہر تعمیر کیے جاتے تو پرانے شہروں میں اتنا کوڑا کرکٹ بھی نہ جمع ہوتا۔ پاکستان میں کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا کوئی معقول بندوبست نہیں ہے۔

سوائے کمپنیوں کے اوپر الزامات لگانے کے۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ 20 ملین ٹن کے حساب سے کوڑا پیدا ہوتا ہے۔ کراچی جیسے روشنیوں کے شہر کو تو ہم تباہ و برباد اور بدحال کر ہی چکے ہیں۔ اب لاہور جو پنجاب کا دل ہے اسے بھی باغوں کے شہر کی بجائے کوڑے کا شہر بنانے میں کوئی کمی نہیں کی جا رہی۔ لاہور میں نہ تو کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے کوئی اقدامات کیے جا رہے ہیں نہ ہی سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں۔ گل برگ جیسا خوش پوش علاقہ بھی اب گند برگ کہلانے کے قابل ہو چکا ہے۔

پنجاب کے پسندیدہ وزیر اعلیٰ وسیم اکرم پلس محترم عثمان بزدار کب اپنے حلق سے کچھ اونچی آواز نکالیں گے اور لاہور کے گند کو صاف کرنے کا حکم صادر کریں گے۔ کم از کم جس صوبے کی کمائی کھاتے ہیں اسے صاف تو کروا دیں صفائی تو یوں بھی نصف ایمان ہے۔ LWMC یعنی لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں دس ہزار میدان میں کام کرنے والے کارکن ہیں۔ لیکن کام کہیں بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اسلم اقبال صاحب بھی تاریخ پر تاریخ دیے جا رہے ہیں بلکہ اب تو منظر سے غائب ہی ہو گئے ہیں۔

اللہ قرآن میں کہتا ہے تم وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں۔ یوں بھی ہمارے یہاں غیر قانونی سب کام خوب دھڑلے سے کیے جاتے ہیں جس میں کوڑے کا جلانا بھی شامل ہے۔ 2010 میں شہباز شریف صاحب نے LWMC کے نام سے بورڈ تشکیل دیا جس کا ایک چیئر مین بھی تھا۔ اس بورڈ کی کارکردگی بڑھانے کے لیے تجربہ کا ر اور پیشہ ورانہ لوگوں کو اس کمپنی میں اجرت پر رکھا گیا۔ اوز پاک اور البراک کے نام سے ترکی کمپنیوں کو لاہور کے کوڑے کرکٹ کو صاف کرنے کے لیے معاہدے کے تحت رکھا گیا۔

اب ان سے یہ معاہدہ ختم ہو چکا ہے۔ ہر معاہدہ کوئی چار مرتبہ بڑھایا گیا لیکن آخر کار یہ ختم ہو کر رہ گیا۔ آرٹیکل 29 کے مطابق کلائنٹ اور ٹھیکے دار کے بیچ ٹھیکہ ختم ہونے کے بعد صاف طور پر بتا دیا گیا ہے کہ تمام مشینری، گاڑیاں اور بقیہ تمام لوازمات کمپنی کو واپس کر دیے جائیں گے۔ لاہور ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا۔ کبھی لاہور میں تڑکے ہی خاکروب سب سڑکوں پر جھاڑو دیتے ہوئے نظر آئے تھے۔

کوڑا کرکٹ کبھی اپنے کوڑا دانوں سے باہر نہیں نکلا تھا۔ مگر اب بڑے بڑے کوڑا دانوں کے گردو نواح میں میلوں تک کوڑے کے ڈھیر ہمارا منہ چڑاتے ہیں۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت خواب تو بہت دکھاتی ہے، منصوبہ بندیاں تو بہت کرتی ہے لیکن کام کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پاؤں کو تالہ بندیاں لگ جاتی ہیں۔ عوام بدحال ہے پہلے مہنگائی کے ہاتھوں اور اب جگہ جگہ کوڑے کے بدبودار ڈھیر لوگوں کو بیماریوں کی دعوت عام دے رہے ہیں۔ ہم کرپشن اور بدعنوانیوں کے نعرے تو سنتے ہی جا رہے ہیں کام وہاں بھی ہوتا ہے نظر نہیں آ رہا۔

فرنٹ مین رکھنا تو شاید دنیا کی پرانی روایتیں ہیں۔ اس بات کو جانتے ہوئے ثبوتوں کو مزید ٹھوس طریقے سے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ بات دوسری طرف نکل گئی اصل بات تھی لاہور سے کوڑے کو صاف کرنے کی۔ بہت سے ترقی پذیر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی خاطر خواہ انتظام موجود نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر کوڑے کو مکمل طور پر اقدامات اٹھائے جائیں کیونکہ صرف چار یا پانچ مہینوں کے بعد جب برسات کی رم جھم شروع ہو جائے گی تو پھر اور بھی مشکلات ہوں گی۔

پہلے ہی عوام پر ہر طرف تیرگی کی دھند چھائی ہے ایسے میں جب لوگ اپنی گلیوں اور سڑکوں پر نکلتے ہیں تو لگتا ہے کوڑا اپنے شہر کی زبوں حالی کے قصے سناتا ہے۔ ہماری حکومتیں چین اور دیگر ممالک کی ترقی کے منصوبوں کی کہانیاں تو سناتے ہیں۔ ماضی میں ترکی جیسے دوست ملک سے معاہدے بھی کر رکھے تھے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم نے ان سے اتنے سال سیکھا کیوں نہیں کچھ۔ اس دوران تو کلین لاہور کے نام سے کم از کم اپنی مقامی کمپنی بن جانی چاہیے تھی۔

لاہور جو اپنی تاریخ تہذیب، ثقافت، فن اور زندہ دل لوگوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ کوڑے کرکٹ کے جا بجا ڈھیروں سے اس کی حالت ہولناک ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے کہیں علیم خان اس بہت سرعت سے ری سائیکلنگ پلانٹ لگانے کے لیے میدان میں کود پڑے تھے لیکن پھر فوراً ہی نیب کی زد میں آ گئے۔ بلا شبہ ہمارا یہ تین ہزار سال تاریخی شہر جو بارہ دروازوں میں بند ہے آج کوڑے کو اپنے دامن میں سموئے آنسو بہا رہا ہے۔ راہ گیر اب سڑکوں پر پاپیادہ چلتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ کوڑے کی سٹراندان کے نتھنوں میں گھستی چلی جاتی ہے۔ 25 دسمبر سے لے کر 15 جنوری تک تاریخیں ملتی رہیں لیکن افسوس ہے حکومتی نا اہلی پر کہ لاہور پورا کوڑا کوڑا ہو گیا۔ لاہور کا سب سے بڑا مسئلہ کوڑا ہے۔ خدا را! لاہور کو بچایا جائے۔ لاہور کے کوڑے کچرے کو فوری صاف کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).