ارطغرل ڈرامہ میں چھپا سبق


پاکستان میں ارطغرل ڈرامہ بڑے شوق سے دیکھا جا رہا ہے، اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈرامے کے مرکزی کردار ارطغرل (انگین التان) سمیت دیگر اداکار جو حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں ہیں انھیں پاکستانیوں کی طرف سے بے پناہ پیار اور محبت ملا اور ابھی بھی مل رہا ہے۔ یہ بات بتانے کی وجہ یہ ہے ارطغرل ڈرامہ کو دیکھ کر ہم جذبہ ایمانی توتازہ کرلیتے ہیں لیکن اس ڈرامہ میں چھپے راز کو شاید اب بھی ہم نہیں پاسکے۔

حقیقی واقعات پر مبنی ڈرامہ کی کہانی پر پھر سے ایک مرتبہ غور کریں تو آپ کو اس کے اندر چھپا زندگی کا ایک ایساسبق ملے گا جوایک انسان کو بندہ بننے کا نسخہ ہے۔ ڈرامہ دیکھنے کے بعد بھی اگر آپ کو یہ نسخہ حاصل نہیں ہوسکا تو چلیں میں آپ کو بتاتا ہوں۔ ڈرامہ کی تمام تر کہانی سے دو بنیادی نتائج اخذ ہوتے ہیں، اول یہ کہ ہر ایک مسلمان کا اولین فرض جہاد ہے جبکہ ڈرامہ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ کس طرح ایک خانہ بدوش قائی قبیلہ پرامن سرزمین کی تلاش میں سرگرداں رہتاہے، ایک ایسی سرزمین جہاں وہ امن، سکون اور خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔

پرامن سرزمین کے حصول کے لئے قائی قبیلہ کے جنگجو، بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین نے جو قربانیاں دیں وہ آپ نے اس ڈرامہ میں دیکھیں ہوں گی اور ایسے دلخراش سین پر افسردہ ہو کر سوچا بھی ہوگا کہ قائی قبیلہ کے ساتھ کیا کچھ ہوتارہا ہے۔ ڈرامہ ارطغرل کے آنے سے قبل تک ہم قائی قبیلہ اور ارطغرل کے نام تک سے واقف نہیں تھے لیکن جب تاریخی واقعات ڈرامہ کی شکل میں ہماری نظروں کے سامنے آئے تو ہمارے اندر جذبہ ایمانی تازہ ہو گیا۔

قائی قبیلہ کے مسلمان جنگجووں کے جہاد اور آزاد سرزمین کے حصول کے لئے کی جانے جدوجہد جیسے حالات و واقعات بہت سے ہیں لیکن ہم صرف اس وجہ سے لاعلم ہیں کہ ہمیں اسلامی تاریخ کے مطالعہ کا نہ ہی شوق رہا ہے اور نہ ہی وقت۔ ہمارے پاس وقت ہے تو صرف واٹس ایپ، فیس بک، ٹک ٹاک وغیرہ کے لئے۔ تھوڑا سا وقت نکال کر اسلامی تاریخ کا مطالعہ بھی کر لیا کریں۔ اسلام کی آمد سے لے کر اب تک اگر ہم مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ مسلمان ایک طرف جہاد کرتے رہے ہیں تو دوسری طرف ایک آزاد، پرامن سرزمین کی تلاش میں رہے ہیں جہاں ان کے بیوی بچے، بوڑھے، جوان امن و سکون کی زندگی بسر کرسکیں، جہاں خواتین کی عزتیں محفوظ رہیں، جہاں مذہبی آزادی حاصل ہو۔

اگر غور کریں توقائی قبیلہ کی طرح آزاد اور پرامن ریاست کے قیام کے لئے جو قربانیاں ہمارے آباو اجداد نے دیں ہیں ان کو شاید ڈرامائی شکل بھی نہ دی جاسکے۔ موجودہ دور میں بھی مسلمان قائی قبیلہ کی طرح مشکلات کا شکار ہیں۔ کشمیر کو دیکھیں جہاں روزانہ معصوم، نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور خواتین کی عزتیں پامال کی جا رہی ہیں، اسی طرح دنیا کے دیگر کئی حصوں چیچنیا، بوسنیا، روہنگیا، انڈیا، فلسطین، سوڈان وغیرہ میں مسلمانوں کے ساتھ جوسلوک ہو رہا ہے ذرا اس پر ایک نظر ڈالیں۔ جب آپ موجودہ دور میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو جانیں گے تو شکر ادا کریں گے کہ آپ کولاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والی آزادی ایک پلیٹ میں رکھ کرہمیں مل گئی ہے، شاید اسی لئے اس آزادی کی ہمیں قدر نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہم انسان تو ہیں لیکن بندے نہیں بن سکے۔

کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے میری نظر کے سامنے اشفاق احمد صاحب کا سنایا ہوا ایک قصہ سامنے آ گیا، سوچا آپ سے شیئر کردوں جو انسان سے بندہ بننے کا ایک نسخہ ہے۔ اشفاق احمد صاحب قصہ سناتاے ہوئے کہتے ہیں کہ میں گھر سے نکل کر روڈ پر چلا جا رہا تھا کہ ایک بابا نے زمین سے چھوٹی سی ٹہنی لی اور فرش پر رگڑ کر بولا ”لو میں تمھیں انسان کو بندہ بنانے کا نسخہ بتاتا ہوں، اپنی خواہشوں کو کبھی اپنے قدموں سے آگے نہ نکلنے دو، جو مل گیا اس پر شکر ادا کرو، جو چھن گیا اس پر افسوس نہ کرو، جو مانگ لے اس کو دے دو، جو بھول جائے اس کوبھول جاو، دنیا میں بے سامان آئے تھے، بے سامان واپس جاو گے، سامان جمع نہ کرو، ہجوم سے پرہیز کرو، تنہائی کو ساتھی بناو، جسے خدا ڈھیل دے رہا ہے اس کا کبھی احتساب نہ کرو، بلا ضرورت سچ فسادہوتا ہے، کوئی پوچھے تو سچ بولو، نہ پوچھے تو چپ رہو، لوگ لذت ہوتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں کا نجام برا ہوتا ہے، زندگی میں جب خوشی اور سکون کم ہو جاتے ہیں تو سیر پر نکل جاو، تمھیں راستے میں سکون بھی ملے گا اور خوشی بھی، دینے میں خوشی ہے، وصول کرنے میں غم، دولت کو روکوگے تو خود بھی رک جاو گے، چوروں میں رہو گے تو چور ہوجاو گے، اللہ راضی رہے گا تو جگ راضی رہے گا، وہ ناراض ہوگا تو نعمتوں سے خوشبو اڑ جائے گی، سادھوں میں بیٹھوگے تو اندر کا سادھو جاگ جائے گا، تم جب عزیزوں، رشتہ داروں، اولاد اور دوستوں سے چڑنے لگو تو جان جاو اللہ تم سے ناراض ہے اور تم جب اپنے دوستوں کے لئے رحم محسوس کرنے لگو تو سمجھ لو تمھارا خالق تم سے راضی ہے، ہجرت کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا۔

“ بابے نے ایک لمبی سانس لی، اس نے میری چھتری کھولی، میرے سر پر رکھی اور فرمایا ”جاو تم پر رحمتوں کی یہ چھتری آخری سانس تک رہے گی، بس ایک چیز کا دھیان رکھنا، کسی کو خود نہ چھوڑنا، دوسرے کو فیصلے کا موقع دینا، یہ اللہ کی سنت ہے، اللہ کبھی اپنی مخلوق کو تنہا نہیں چھوڑتا، مخلوق اللہ کو چھوڑتی ہے اور دھیان رکھنا جو جا رہا ہے اسے جانے دینا مگر جو واپس آ رہا ہے، اس پر کبھی اپنا دروازہ بند نہ کرنا، یہ بھی اللہ کی عادت ہے، اللہ واپس آنے والوں کے لئے ہمیشہ اپنے دروازے کھلا رکھتا ہے، تم یہ کرتے رہنا، تمھارے دروزے پر میلہ لگا رہے گا“ اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں کہ میں واپس آ گیا اور مجھے انسان سے بندہ بننے کا نسخہ مل گیا تھا۔ آج ہر پاکستانی کو انسان سے بندہ بننے کی ضرورت ہے تاکہ لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والی آزادی کا قرض چکایا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).