پاکستان کی براڈشیٹ کو ڈھائی کروڑ ڈالرز سے زائد کی ادائیگی، معاملہ ہے کیا؟


پاکستان میں حالیہ دنوں میں برطانیہ کی کمپنی ‘براڈشیٹ’ کا بہت زیادہ تذکرہ کیا جا رہا ہے۔اس کمپنی کو ادا کیے گئے 2 کروڑ 87 لاکھ ڈالرز بھی زیر بحث ہیں اور سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ پاکستانی روپوں میں لگ بھگ پانچ ارب روپے رقم اس کمپنی کو کیوں ادا کی گئی۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں، جب سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو معذول کر کے، حکومت سنبھالی تو اس وقت حکومت کی طرف سے احتساب کا نعرہ بلند کیا گیا۔

فوجی حکومت نے احتساب کے نعرے کو اپنی حکومت مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا اور ماضی کے حکمرانوں کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے نئے نئے بنے قومی احتساب بیورو (نیب) نے 2000 میں برطانوی کمپنی براڈشیٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ جس کے تحت انہیں 200 سیاسی رہنماؤں، سرکاری افسران، فوجی حکام اور دیگر کے نام دیے گئے۔ ان سب کی بیرون ملک جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ جس پر براڈشیٹ کمپنی نے کام شروع کیا اور دی گئی فہرست میں سے مبینہ طور پر کچھ کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔

اس فہرست میں سب سے پہلا نام جس سیاسی رہنما کا آیا وہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے آفتاب احمد خان شیر پاؤ تھے جن کے امریکہ میں موجود اکاؤنٹس میں لاکھوں ڈالرز کا علم ہوا۔ اس پر ان کے خلاف پاکستان میں کارروائی شروع ہوئی اور آفتاب شیر پاؤ کو گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن یہ رقم واپس آنے کا کوئی انتظام نہ ہو سکا۔

دوسرا اہم نام آبدوزوں کے سودے میں بھاری کمیشن لے کر بحری فوج کے سربراہ کے عہدہ سے فارغ ہونے والے نیول چیف ایڈمرل منصور الحق کا تھا۔ ان کے اکاؤنٹس میں بھی 70 لاکھ ڈالرز سے زائد کا انکشاف ہوا۔

اس پر قومی احتساب بیورو نے ان کے خلاف کیس بنایا اور امریکی حکومت کی مدد سے انہیں پاکستان واپس لایا گیا۔ جہاں ان کے اعزازات تو واپس ہو گئے لیکن پلی بارگین کے ذریعے وہ معمولی ادائیگی کے بعد بیرون ملک چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔

احسن اقبال کی نیب کو 'پلی بارگین کی پیش کش'

براڈشیٹ کے ساتھ نیب کا جو معاہدہ ہوا تھا اس کے مطابق نیب نے چوری شدہ رقم سے ریکوری ہونے پر 20 فی صد براڈشیٹ کو ادا کرنی تھی۔ لیکن 2003 تک براڈشیٹ کو معمولی سی رقم کی ادائیگی کی گئی۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ بیرون ملک اکاؤنٹس کی تفصیل اور دیگر معلومات تو حاصل ہوئیں لیکن اس رقم کو واپس لانے کا کوئی میکنزم موجود نہ تھا۔

ان اکاؤنٹس میں موجود رقم کو پاکستان واپس لانے کے لیے کوئی ایسی قانون سازی اور ان ممالک کے ساتھ معاہدے موجود نہ تھے۔ جس کی وجہ سے پاکستان نے تحقیق اور تفتیش تو کی، لیکن ریکوری نہ ہونے کے برابر تھی۔

براڈشیٹ کی معلومات اور سیاسی فائدے

براڈشیٹ کی معلومات اگرچہ نیب کو ملیں۔ لیکن براڈشیٹ کے مطابق ان کا پاکستان میں سیاسی فائدہ اٹھایا گیا۔ اس بارے میں براڈشیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے برطانیہ میں موجود صحافی عرفان ہاشمی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں اس معلومات سے سیاسی فائدے اٹھائے گئے۔

انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت پیپلز پارٹی کے آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے خلاف 50 لاکھ ڈالر کے امریکہ میں موجود ان کے اکاؤنٹس کی معلومات دی گئی اور یہ اکاؤنٹ منجمد کرا دیے گئے۔ لیکن بعد ازاں انہی اکاؤنٹس کو حکومت پاکستان نے ڈی فریز کرایا اور کہا کہ ہمیں ان اکاؤنٹس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔آفتاب شیرپاؤ اس کے بعد پاکستان کے وزیر داخلہ بھی بنے۔

کاوے موسوی کا پاکستانی سیاسی رہنماؤں کے حوالے سے کہنا تھا کہ نیب کی طرف سے ان کی دی گئی معلومات کو سنجیدہ نہیں سمجھا گیا اور کئی بار معلومات فراہم کرنے پر ان کی طرف سے کہا گیا کہ اس شخص کا نام فہرست سے نکال دیں۔ بعد میں جب دیکھا گیا تو وہی شخص حکومت کی مرضی کے مطابق حکومت کا حصہ بن چکا ہوتا تھا۔

براڈشیٹ کو ادائیگی کس طرح ہوئی؟

براڈشیٹ کو حالیہ دنوں میں حکومت پاکستان کی طرف سے دو کروڑ 87 لاکھ ڈالرز کی ادائیگی کی گئی ہے۔

براڈشیٹ نے 2000 میں کام کا آغاز کیا اور 2003 میں اس کے ساتھ معاہدہ ختم کر دیا گیا تھا۔

پاکستان کی موجودہ حکومت دوسروں کو اذیت دے کر خوش ہوتی ہے: حسین نواز

اس بارے میں نیب کا کہنا تھا کہ براڈشیٹ کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا کمپنی اس معیار پر پوری نہیں اتری اور انہیں مطلوبہ معلومات اور مدد نہیں ملی جس کی وجہ سے معاہدہ ختم کیا گیا۔ لیکن براڈشیٹ نے اس فیصلے کو 2009 میں ثالثی عدالت میں چیلنج کیا۔

سات سال تک یہ مقدمہ چلتا رہا جس کے بعد 2016 میں اس کیس کا فیصلہ پاکستان کے خلاف اور براڈشیٹ کے حق میں ہوا۔

اس دوران پاکستان کی طرف سے اس کیس کو لڑنے کے لیے برطانیہ میں موجود لا فرمز کو بھاری رقوم کی ادائیگیاں بھی کی جاتی رہیں۔

کاوے موسوی نے اس حوالے سے اپنے انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کیس کو لڑنے کے لیے بھی پاکستانی حکام مختلف لا فرمز کے ساتھ ڈیل کرتے رہے کہ انہیں یہ کیس لڑنے کے لیے دیا جائے اور کمیشن و کک بیکس حاصل کی گئیں۔

کاوے موسوی کا کہنا تھا کہ کیس جیتنے کے بعد انہوں نے نواز شریف حکومت سے رابطہ کیا اور ان سے ادائیگی کے لیے کہا تو حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ جس پر انہوں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ حکومت پاکستان کا مزید پیسہ ضائع کر دیں گے اور انہوں نے اس کیس پر دو کروڑ ڈالرز کی خطیر رقم ضائع کی۔

ان کے بقول یہ تو پاگل پن ہے۔

نوازشریف نے تحقیقات رکوانے کی کوشش کی؟

کاوے موسوی کا یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ نواز شریف کی طرف سے اپنے خلاف تحقیقات رکوانے کے لیے انہوں نے براڈشیٹ کو رشوت کی پیشکش بھی کی۔

اس بارے میں کاوے موسوی کا کہنا ہے کہ ایک شخص انجم ڈار ان سے ملا اور نواز شریف کے خلاف جاری تحقیقات روکنے کے لیے دو کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کی پیشکش کی۔

اس شخص کے مطابق وہ نواز شریف کا بھتیجا تھا اور اس نے نواز شریف سے فون پر بات بھی کی۔ تاہم کاوے موسوی کے اس بیان کی نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس نام کا کوئی شخص ان کے خاندان میں نہیں ہے۔

کاوے موسوی کے مطابق یہ پیشکش انہیں سال 2012 میں ہوئی اور اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ آصف علی زرداری نے مختلف جگہوں پر ان کی طرف سے منجمد کرائے گئے اکاؤنٹس دوبارہ کھلوائے۔

نیب چیئرمین استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں: نواز شریف

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک ادارے کے ساتھ معاہدہ سال 2003 میں ہی ختم ہو گیا اور سال 2012 میں ان کے کیے گئے کام کے حوالے سے انہیں رشوت کی پیشکش کیسے ہو سکتی ہے؟ اس پر کاوے موسوی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو ایک انٹرویو میں کہا کہ نواز شریف کو معلوم تھا کہ رقم ادائیگی کا معاملہ مصالحتی عدالت میں زیرِ سماعت تھا اور وہاں جا کر یہ معاملہ مزید کھل جانا تھا۔ جس کی وجہ سے نواز شریف نے پیشکش کی جسے مسترد کر دیا گیا۔

اس معاملے پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر کاوے موسوی کو رشوت کی پیشکش کی گئی تو انہیں اسی وقت وہاں کی پولیس کو آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ اب انہیں کئی سال کے بعد یہ کیوں کہنا پڑ رہا ہے؟۔

نیب ملزمان کو آگاہ کرتا تھا؟

کاوے موسوی نے اپنے حالیہ انٹرویوز میں اس بات کا انکشاف بھی کیا ہے کہ نیب کو جو معلومات وہ فراہم کرتے تھے۔ ان اکاؤنٹس میں سے کچھ دن بعد رقوم غائب ہو جاتی تھیں۔

ان کے بقول نیب اس بارے میں معلومات ان افراد کو فراہم کرتا تھا جس کے بعد وہ افراد ان اکاؤنٹس کو ہی مکمل طور پر ختم کر دیتے تھے۔

نواز شریف کی مبینہ جائیدادوں کے حوالے سے بھی ان کا کہنا ہے کہ نیب کے اندر موجود افراد نے ہی نواز شریف کو ان تحقیقات کے حوالے سے آگاہ کیا جس کے باعث انہوں نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔

ایک ارب ڈالر کا قصہ

کاوے موسوی کے انٹرویوز کے دوران ایک ارب ڈالر کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔ جس کے مطابق کاوے موسوی کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی موجودہ حکومت کی چند شخصیات کو ایک سیاسی شخصیت کے ایک ارب ڈالر خلیجی ملک سے یورپی ملک کے اکاؤنٹ میں جمع ہونے سے متعلق آگاہ کیا تھا۔ لیکن اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

ان کے بقول اس ملاقات میں شریک ایک شخص کا کہنا تھا کہ اس میں ان کا کمیشن کتنا ہو گا؟

پاکستان نے نیب پر عائد دو کروڑ 87 لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کر دیا

کمیشن مانگنے والے شخص کے بارے میں مختلف باتیں کی جا رہی ہیں اور اپوزیشن کی ایک رکن عظمیٰ بخاری نے پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر پر رشوت مانگنے کے الزامات عائد کیے۔

اس الزام کی شہزاد اکبر نے تردید کی اور عظمیٰ بخاری کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ قائم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

حالیہ دنوں میں وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اس ایک ارب روپے کے اکاؤنٹ کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ اشرافیہ نے این آر او کے ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنی دولت کو تحفظ دیا اور عوام کو خسارے میں رکھا۔

وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ایک سیاست دان نے سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر برطانیہ کے بینک میں منتقل کیے۔ جب وزیرِ اعظم چوری کرے گا تو رجحان نیچے تک جائے گا۔

وزیرِ اعظم نے کہا کہ جاننا چاہتے ہیں براشیٹ کو مزید تحقیقات سے کس نے روکا؟

اپنے بیان میں عمران خان نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ براڈشیٹ مکمل شفافیت سےتحقیقات کرے اور کرپشن کے یہ انکشافات ابھی صرف آغاز ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ جب اقتدار میں آتے ہیں تو لوٹ مار کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں سب سے زیادہ نقصان عوام کو پہنچتا ہے۔ کیوں بار بار یہ انکشافات ہو رہے ہیں۔ یہی بات وہ کرپشن کے خلاف اپنی 24 سالہ جدوجہد میں کرتے آ رہے ہیں اور یہ کرپشن پاکستان کی ترقی کے لیے خطرہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ براڈشیٹ واضح کرے کہ کس کے کہنے پر تحقیقات روکی گئیں، اشرافیہ بیرون ملک اثاثوں کے تحفظ کے لیے منی لانڈرنگ کرتی ہے تاکہ ان کے خلاف ملک میں کارروائی بھی نہ ہو سکے۔

ایک ارب ڈالر کے حوالے سے کاوے موسوی کا کہنا ہے کہ یہ اکاؤنٹ رکھنے والی سیاسی شخصیت کا نام حکومت کو بتا دیا گیا تھا۔ لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ براڈشیٹ نے ایسی کسی شخصیت کا نام نہیں بتایا۔

مشیر احتساب شہزاد اکبر نے بھی اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ انہیں اس شخص کا نام نہیں بتایا گیا۔

یہ ایک ارب ڈالر برطانیہ کے اکاؤنٹ میں موجود ہیں یا نہیں اس بارے میں بھی تاحال کوئی اطلاع سامنے نہیں آ سکی۔

براڈشیٹ کے ساتھ نیا معاہدہ ممکن ہے؟

کاوے موسوی کے مطابق پاکستان حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جس طرح ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں براڈشیٹ کے ساتھ کوئی نیا معاہدہ ہوتا ممکن نظر نہیں آ رہا۔

نواز شریف کی سزا، پس منظر اور پیش منظر

کاوے موسوی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ان کی پاکستانی حکام سے ملاقاتیں ہوئیں۔

ان کے بقول ایسی ہی ایک ملاقات میں مبینہ طور پر پاکستان کی فوج کے میجر جنرل مالک نامی شخص بھی شریک تھے۔ جن کا تعلق پاکستان کی خفیہ ایجنسی سے بتایا گیا۔

تاہم صحافی طلعت حسین کے مطابق پاکستان کے سیکیورٹی ذرائع نے کاوے موسوی کے ساتھ کسی بھی فوجی افسر کی ملاقات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ تمام تر معاملات سویلین حکومت کے ساتھ تھے اور فوج کا ایسے کسی معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔

کاوے موسوی کا بھی کہنا ہے کہ اس شخص کے بارے میں پاکستان کے خفیہ ادارے سے تعلق بتایا گیا لیکن ان کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

کاوے موسوی نے پاکستان حکومت کو نیا معاہدہ کرنے اور ادا کی گئی رقم واپس کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان اپنے بیانات کے مطابق براڈشیٹ کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے کچھ دلچسپی رکھتے ہیں۔

لیکن کاوے موسوی کی طرف سے موجودہ حکومت کی ایک شخصیت کی طرف سے نئے معاہدے کے لیے کمیشن کے مطالبے جیسے بیانات کے بعد معاہدے کے امکانات معدوم ہوتے نظر آتے ہیں۔

نیب کیا کہتا ہے؟

پاکستان کی حکومت نے براڈشیٹ کو ادائیگی کردی ہے۔ لیکن اس اہم معاملے میں نیب کا ادارہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے اور اب تک ان کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں ان کا کہنا ہے کہ براڈشیٹ فرم کے ساتھ معاہدہ 2003 میں ختم کر دیا گیا تھا۔ براڈشیٹ فرم کے ساتھ معاہدہ اس وقت کے صدر کی منظوری سے ہوا تھا۔ نیب کی موجودہ انتظامیہ کا اس معاہدے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

رواں ماہ 5 جنوری کو جاری بیان میں کہا گیا کہ براڈشیٹ نے پہلے 2006 پھر 2012 میں ثالثی فورم سے رجوع کیا۔ براڈشیٹ کی مایوس کن کارکردگی پر 2003 میں معاہدہ منسوخ ہوا۔

بیان کے مطابق اٹارنی جنرل نے برطانوی فرم کے ذریعے ہی کیس کا دفاع کیا۔

ٹیتھیان کاپر کمپنی نے پاکستانی اثاثے منجمد کرنے کا عمل شروع کر دیا

نیب نے کہا ہے کہ ثالثی فورم کے جرمانے کو چیلنج بھی کیا گیا تھا۔ کارروائی سے متعلق وزارتِ قانون اور اٹارنی جنرل آفس آگاہی فراہم کرتے رہے ہیں۔ 55 کروڑ ڈالر کے کلیم پر 2018 میں دو کروڑ 72 لاکھ ڈالرز ایوارڈ کیے گئے۔ جس پر لندن ہائی کورٹ سے بھی ریلیف نہ ملا۔

قومی احتساب بیورو کا کہنا ہے کہ معاملہ ثالثی کونسل میں تھا اور اٹارنی جنرل آف پاکستان اور وزارتِ قانون و انصاف کی طرف سے مکمل تعاون کیا گیا۔

اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیاکہ نیب کا کسی بھی جگہ کوئی کردار نہیں ہے۔

سیاسی بیان بازیاں

براڈشیٹ کو ادائیگی کے معاملے پر پاکستان میں سیاسی جنگ بڑھتی جا رہی ہے اور حکومت و اپوزیشن ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ براڈشیٹ کمپنی کو نواز شریف کے خلاف مقدمات ڈھونڈنے کے لیے 2 کروڑ 87 لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔ پھر بھی نااہلی کے لیے اقامے اور سزا کے لیے جج ارشد ملک کا سہارا لینا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے اور انہیں انتخابی اور سیاسی میدان سے باہر رکھنے کے لیے جو مکروہ کھیل کھیلا گیا۔ جو خطرناک سازش رچائی گئی اس کا ایک ایک مہرہ سامنے آ رہا ہے۔

اس کے جواب میں حکومتی ترجمان شہباز گل کہتے ہیں کہ براڈشیٹ کا نواز شریف کے بیان کو جھوٹ قرار دینا مسلم لیگ کو ایک بار بھی آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔

ان کے بقول پاکستان میں میاں نواز شریف کی صداقت کے ڈھول پیٹے جا رہے تھے جب کہ براڈشیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے مریم نواز کے جھوٹ کی قلعی کھول دی کہ عدالتی فیصلے نے انہیں بے گناہ ثابت نہیں کیا۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر شفقت محمود کا کہنا ہے کہ ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ منجمد کیے جانے پر براڈشیٹ کو ادائیگی کی گئی۔ لیکن اس بارے میں کوئی اطلاع سامنے نہیں آسکی کہ اکاؤنٹ میں دو کروڑ 90 لاکھ ڈالرز سے زائد رقم کس مقصد کے لیے رکھی گئی تھی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa