ماحولیاتی تبدیلی: سنہ 2020 تاریخ کا گرم ترین سال، کیا رواں برس گرمی کی شدت اور کاربن اخراج میں مزید اضافہ ہوگا؟


گرمی
یورپی یونین کے مصنوعی سیارے (سیٹلائٹ) سے موصول ہونے والے نئے اعداد وشمار کے مطابق سنہ 2020 بھی تاریخ کا گرم ترین سال رہا۔

آب و ہوا میں تبدیلی پر نظر رکھنے والی تنظیم کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس کا کہنا ہے کہ اگر گذشتہ طویل عرصے کے اوسط درجہ حرارت کو مد نظر رکھا جائے تو سنہ 2020 میں درجہ حرارت تقریباً ایک اعشاریہ دو پانچ زیادہ رہا۔

سائنسدان کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں اوسط درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کی بڑی وجہ قطب شمالی یا آرکٹِک اور سائبیریا میں بڑھتی ہوئی گرمی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں حالیہ خشک و شدید گرمی ہیٹ ویو یا کچھ اور؟

گرم موسم ہمارے مزاج پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے

آپ پانی کے بغیر کتنی دیر تک زندہ رہ سکتے ہیں

کراچی میں سردی، امریکہ میں گرمی: معاملہ کیا ہے

گذشتہ 12 ماہ میں باقی دنیا کے علاوہ یورپ میں بھی ریکارڈ گرمی دیکھنے میں آئی اور سنہ 2019 کے مقابلے میں درجہ حرارت اعشاریہ چار ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔

دسمبر 2019 میں عالمی تنظیم برائے موسمیات نے پیشنگوئی کی تھی کہ تاریخ کے گرم ترین برسوں میں سے ایک سنہ 2020 ہوگا۔

جنگلات میں آگ

کوپرنیکس کی تازہ ترین اور جامع رپورٹ کے مطابق یہ پیشنگوئی درست ثابت ہوئی ہے اور سال 2020 گرم ترین برسوں کی فہرست میں سب سے اوپر رہا ہے۔

یہ معلومات سنٹینل کی سیٹلائٹس سے موصول ہوتی ہے جو زمین کے گرد چکر لگاتی ہیں جبکہ زمین کی سطح سے بھی معلومات جمع کی جاتی ہے۔

درجہ حرارت سے متعلق معلومات سے پتا چلتا ہے کہ 1850 سے 1900 کے دوران درجہ حرارت کی اوسط کی نسبت سنہ 2020 میں ماحول 1.25 سینٹی گریڈ گرم رہا۔ 1850 سے 1900 کے دورانیے کو صنعتی دور سے پہلے کا وقت تصور کیا جاتا ہے۔

درجہ حرارت بڑھنے کا اندازا آرکٹک اور سائبیریا میں گرمائش کا سلسلہ جاری رہنے سے بھی لگایا گیا ہے۔

وہاں چند مقامات پر تاریخی اوسط کے مقابلے سالانہ درجہ حرارت چھ سینٹی گریڈ زیادہ بتایا گیا۔

گرمائش کے اس بے مثال واقعات کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات بڑھے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق آرکٹک دائرے میں لگنے والی آگ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ایک بڑی مقدار خارج ہوئی جو کہ سنہ 2019 میں اسی نوعیت کے واقعات کی نسبت زیادہ تھی۔

کوپرنیکس سروس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ 2016 کے مقابلے سنہ 2020 کچھ سرد تھا لیکن دونوں برسوں کے دوران درجہ حرارت کے اعداد و شمار ایک جیسے ہیں کیونکہ ان میں بہت کم فرق ہے۔

سائبیریا، جنگلات میں آگ

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایل نینو/ لا نینا ویدر سائیکل (بحر اوقیانوس کے پانی کی سطح کے درجہ حرارت میں متواتر تبدیلی) کے اثرات کے پیش نظر دونوں برسوں کے درمیان مماثلت کافی اہم ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق بھی 2016 کے ساتھ اعداد و شمار کے بہت کم فرق کے ساتھ سنہ 2020 تاریخ کا گرم ترین سال رہا ہے۔

2016 اسی تبدیلی کی وجہ سے گرم رہا جبکہ 2020 اسی تبدیلی سے اپنے دوسرے نصف میں ہلکا سا سرد ہوا۔

یورپ یونین کےاعداد و شمار کے مطابق یہاں 2019 کی نسبت زیادہ گرمی پڑی اور درجہ حرارت 0.4 سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔ جولائی اور اگست میں ہیٹ ویو (گرمی کی لہر) ایک اہم وجہ تھی جس نے براعظم میں گرمی کی شدت بڑھا دی۔

عالمی سطح پر 2011 سے 2020 کی دہائی گرم ترین رہی۔ آخری چھ سال سب سے گرم ریکارڈ کیے گئے۔

کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس کے ڈائریکٹر کارلو بونٹیمپو کے مطابق ’سنہ 2020 آرکیٹک خطے کے لیے بہت گرم رہا اور اس کی وجہ سے شمالی اٹلانٹک کے جنگلوں میں کئی طوفان آئے۔‘

’یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ گذشتہ دہائی میں ریکارڈ گرمی پڑی۔ یہ ایک اور یاد دہانی ہے کہ مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلی کے شدید اثرات سے نمٹنے کے لیے کاربن اخراج کو کم کرنا ضروری ہے۔‘

یورپ، پانی

سنہ 2021 میں ماحول ایک مضبوط لا نینا واقعے سے کچھ سرد ہونے کا امکان ہے لیکن ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی سطح زیادہ رہنے کی توقع ہے جس سے گرمائش جاری رہے گی۔

برطانیہ کے محکمۂ موسمیات کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اوسط سطح صنعتی انقلاب کے پہلے کے دور کے مقابلے 50 فیصد زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

محققین کے مطابق سنہ 2020 کے مقابلے 2021 میں ہوائی کے ریکارڈنگ سٹیشن مونا لوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اوسط سطح 2.29 پی پی ایم زیادہ ہوگی۔

کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران صنعتی بحران کے باوجود سائنسدانوں کے مطابق حیاتیاتی ایندھن کے استعمال اور جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے کاربن اخراج میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ برساتی جنگلات میں لانینا کے اثرات کی وجہ سے پیداوار بڑھ سکتی ہے اور گیس جذب کرنے کے عمل کو فروغ مل سکتا ہے۔ لیکن اس سے اخراج کم کرنے میں شاید مدد نہ مل سکے۔

محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ اپریل سے جون تک ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 417 پی پی ایم سے تجاوز کر سکتی ہے۔

18ویں صدی کے آخر میں جب صنعتی سرگرمیوں کا آغاز ہو رہا تھا تو اس وقت یہ مقدار 278 پی پی ایم ہوا کرتی تھی، جس کا مطلب ہے کہ 2021 میں یہ اس مقدار سے 50 فیصد زیادہ ہوگی۔

محکمہ موسمیات کے پروفیسر رچرڈ بیٹز کا کہنا ہے کہ ’انسانوں کی وجہ سے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار تیزی سے بڑھ رہی ہے۔‘

’اس سطح کو 25 فیصد تک بڑھنے میں 200 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا لیکن صرف گذشتہ 30 برس میں یہ 50 فیصد کے تجاوز کی سطح کو چھو رہی ہے۔‘

’اس سلسلے کو الٹنے اور ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح کی کم کرنے کے لیے عالمی سطح پر کاربن اخراج کو کم کرنا ہوگا۔ اور اسے روکنے کے لیے عالمی اخراج کو صفر پر لانا ہوگا۔ ایسا آئندہ 30 برسوں میں کرنا ضروری ہے تاکہ عالمی حدت کو 1.5 سینٹی گریڈ کی سطح تک محدود رکھا جاسکے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp