شہنواز امیر کی لمبی پینگ


سولہ ماہ قبل جب ایاز امیر کے بیٹے کے ہاتھوں بہو کے قتل کی خبر پھیلی، تو طوفان برپا ہو گیا صحافیوں کے ہاتھ ڈھیروں اسٹوریز لگ گئیں تحقیق، تفتیش، سنی سنائی باتوں کو سچے لہجے میں سنایا جانے لگا۔ گڑے مردے اکھڑ گئے۔ قاتل کے اعمال، پرکھوں کے اعمال سے جوڑے گئے۔ والدین کی تربیت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ احتجاجی ریلیوں میں قاتل کی پھانسی کے مطالبے کیے گئے۔ عام لوگوں کی جانب سے اس یقین کا اظہار کیا گیا کہ دیکھنا کچھ نہیں ہو گا، صاف بچ جائے گا۔

مقتولہ کے والد کے بیانات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنے۔ پھر ایاز امیر سے دھیان کسی اور بھڑکتی خبر کی طرف لگا دیا گیا۔ گہرا سکوت چھا گیا۔ عدالتوں میں اہم ترین سیاسی نوعیت کے کیسز کی کارروائی کی سنسنی خیز خبروں میں عوام کی گہری دلچسپی کے پیش نظر ان کی بصیرت، بصارت اور سماعت کے بوجھل ہونے کے احساس کو مقدم رکھتے ہوئے مذکورہ کیس کی کارروائی کسی، پھڑکتی اسٹوری کی آس میں نہ بتائی گئی، نہ ہم نے جاننے کی کوشش کی کہ لاش کب دفن ہوئی، قاتل کا کیا بنا، وارث کیا ہوئے۔ اور پھر اسی کیس سے جڑی ایک بار پھر اسٹوری ہاتھ آ گئی۔

”سارہ انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو سزائے موت“ ۔

ایاز امیر کا کالم پڑھا جو انہوں نے بیٹے کی پھانسی کے فیصلے کے بعد لکھا ہے۔ قتل ہوتے ہیں کئیوں کو پھانسیاں بھی ہوتی ہیں، خبر نہیں آتی، آ جائے تو ہمارے احساس میں وہ شدت نہیں ہوتی، شاید اس لیے کہ وہ ہمارے شناسا نہیں ہوتے، شناسائی کسی بھی رشتے کسی بھی مفہوم کسی بھی ڈگر کی ہو، اس سے جڑی ہر قسم کی یاد اور بات اہم ہوا کرتی ہے۔

مشہور صحافی ایاز امیر کے بیٹے کو پھانسی ہو گئی!
جب بیٹے کی پھانسی کا فیصلہ سنا ہو گا تو کانوں میں ایک آواز گونجی ہو گی۔
”مبارک ہو بیٹا پیدا ہوا ہے“ ۔

نومولود کا لہو رنگ چہرہ، جو یقینا دم گھٹنے سے خود کو بچانے کی کوشش میں ہوا ہو گا، آنکھوں کے سامنے آ گیا ہو گا، مردانگی کے احساس کے ساتھ مٹھائی تقسیم اور مبارک بادیں وصول کی ہوں گی۔ زندگی کی جانب بڑھتا پہلا قدم، شاہ نواز کے بچپن کے سارے رنگ ایک کے بعد ایک آنکھوں کے سامنے لہرائے ہوں گے۔ کسی خواہش کے اظہار کا پہلا لفظ، پہلی سالگرہ، پہلی شرارت، پہلی کامیابی، کھلکھلانا، بھاگنا، دوڑنا، ضد کرنا۔ جھولے میں بٹھا کر، دونوں ہاتھوں سے رسی تھام کر لمبی پینگ دینا۔ اس وقت جھولتے بچے کو دیکھ کر تو کہیں دماغ کے گوشے میں وہ خیال تو نہ آیا ہو گا، کہ ایاز امیر کی سوچ کی طرح میری انگلیاں بھی رک گئی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments