یرغمال جہاز اور کامران کے ابا کا کھلا خط



پیاری پیری گرین (peregrine)!

تین دن پہلے تک میں تمہارے نام سے بھی واقف نہیں تھا لیکن آج، میں نے اپنے دشمنوں کی فہرست میں تمہارا نام سرخ روشنائی سے لکھ دیا ہے۔ تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ وہی فہرست ہے جس میں، مَیں نے ہندوستان اور اسرائیل کے علاوہ ملکی غداروں اور غیر ملکی شر پسندوں کے حسب نسب درج کیے ہوئے ہیں۔ جانی، تم نے اس سوئے ہوئے شیر کی چٹکی کاٹی ہے جس کی شرافت کی زمانہ گواہی دیتا ہے۔ جو ہر چند اپنی بھل مانسی کے، باطل سے اکثر اوقات ادھار پکڑنے کے باوجود، اس سے نہ کبھی دبا ہے اور نہ ہی باطل کے سامنے کبھی اپنی گردن جھکائی ہے۔

ہم نے تمہارے صرف ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈالر ادا کرنے تھے۔ صرف ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈالر! یہ تم نے کیا بھونڈی اور نیچ حرکت کی ہے کہ ہمارے طیارے کو اڑان بھرنے سے روک دیا؟ تمہیں کیا لگتا ہے ہم تمہارا قرض کھا کر کہیں دوڑے جا رہے ہیں؟ ہم نے دنیا کے اربوں ڈالر ادا کرنے ہیں لیکن مجال ہے کبھی کسی نے ایسی ارزل حرکت کی ہو۔ ہم گزشتہ چوہتر برس سے قائم و دائم ہیں اور ہمارے کئی شعراء دنیا کو بتا گئے ہیں کہ جب تک سورج چاند رہے گا ہم یہیں اور اسی حالت میں رہیں گے۔

ہم یہاں سے بھاگ کر کہیں نہیں جانے والے اور ویسے بھی ہم بھاگ کر کہاں جا سکتے ہیں؟ ہمارے اور ہمارے دیرینہ دوست چین کے درمیان ایک انتہائی اونچا پہاڑی سلسلہ ہے اور اب اس عمر میں پہاڑ نہیں چڑھا جا سکتا۔ بھارت سے ہماری پیدائشی دشمنی ہے جب کہ افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات ایک عرصے سے کشیدہ ہیں۔ اس لیے ہم وہاں بھی نہیں جا سکتے۔ باقی بچ گیا بحیرہ عرب تو یقین رکھو، تمہارے چند ٹکوں کے ادھار کے خوف سے ہم سمندر میں چھلانگ لگا کر حرام موت نہیں مریں گے۔ اگر ہمیں مرنا ہی ہوتا تو تمہاری رزیل حرکت کے بعد ہمارے لیے چلؔو بھر پانی ہی کافی تھا۔

تمہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ میرا بیٹا کامران سعودی عرب کے بعد ملائشیا کی جیل سے رہا ہو کر اسی طیارے سے اپنے وطن کی مٹی چومنے واپس آ رہا تھا، جس کو تم  نے رکوا لیا ہے۔ تم نہیں جانتے کہ میرا کامران غصے کا کتنا تیز ہے۔ اس کے بچپن کی بات ہے ایک دن ہمارے محلے کا دکاندار ہمارے گھر آ کر ہم پر دھونس جمانے لگا کہ سورج غروب ہونے تک اس کا ادھار بے باق کیا جائے۔ کامران دوڑ کر اپنے باورچی خانے سے چاقو اٹھا لایا اور دکاندار کو بتایا کہ پیسے تو ہمارے پاس رکتے نہیں ہیں کیونکہ ہم انہیں ہاتھوں کی میل سمجھتے ہیں۔ لیکن چاچا ادھار کے بدلے اگر یہ چاقو لے جانا چاہو تو میں اسے تمہارے پیٹ میں غروب آفتاب سے پہلے گھونپ دیتا ہوں تم  لے جاؤ۔ اس واقعہ کے بعد ہم نے ہمیشہ پرچون فروشوں سے بغیر پیسے ادا کیے کھانے پینے اور برتنے برتانے کی چیزیں لیں لیکن اللؔہ کا شکر ہے کبھی کسی کے مقروض نہیں ہوئے۔

کامران اس وقت کوالالمپور ائیرپورٹ کے لاؤنج میں اس جگہ اپنی چادر بچھا کر لیٹا ہوا ہے جہاں سے ہمارا طیارہ اسے صاف نظر آ رہا ہے۔ کامران نے قسم کھا لی ہے کہ اگر تم  نے لاؤنج سے گزر کر طیارے تک پہنچنے کی کوشش کی تو اس کی لاش سے گزر کر ہی پہنچ پاؤ گے۔ اسے اس کی ماں نے حکم دیا ہے کہ اگر اس نے ایک انچ بھی طیارے کو ہلنے دیا تو وہ اسے کبھی اپنا دودھ معاف نہیں کرے گی۔ اگرچہ کامران نے بچپن میں صرف ڈبے کا دودھ ہی پیا ہے لیکن میرا کامل ایمان ہے کہ وہ تمہارے جیسے ندیدے قرض خواہ کو کبھی اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔

جگر، تم نے ہم سب پاکستانیوں کو شرمندہ کر دیا ہے۔ یقین جانو ہم قرض مانگتے ہوئے کبھی اتنے شرمسار نہیں ہوئے جتنا تم نے ہمیں شرمسار کیا ہے۔ مانا ہم نے روس کے خلاف سرد جنگ میں ڈالروں کے عوض دنیا کی مدد کی، لیکن تم  نے تو ہمیں گلی کا غنڈہ اور کرائے کا وہ بدمعاش سمجھ لیا جو قرض لوٹانے میں لیت و لعل سے کام لیتا ہے۔ ٹھیک ہے ہم اپنے جانبازوں، ٹینکوں اور طیاروں سے اپنے دشمنوں کا دل دہلاتے رہتے ہیں لیکن حیف ہے، تم نے ہمیں وہ بد قماش سمجھ لیا جو بینک سے ادھار لے کر گاڑی خریدتا ہے اور پھر بھاگ جاتا ہے۔ یاد رکھو، تمہیں تمہاری اسفل حرکت کی سزا اس دنیا میں بھی ملے گی اور آخرت میں بھی ملے گی۔

اے کم ظرف کمپنی! تم  نے اس قوم کو للکارا ہے جو ترانہ نشور ہے۔ جس نے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائے ہوئے ہیں اور جس کے سامنے کہسار رائی کے برابر ہیں۔ تم نے اس قوم کے غیظ و غضب کو دعوت دی ہے جو جاگے تو دریاؤں کا سینہ چیر دے (اسی لیے دنیا منتیں مانتی ہے اور ہمارے خلاف سازشیں کرتی ہے کہ ہم ہمیشہ خواب غفلت کے مزے لیتے رہیں)۔ وہ عظیم قوم جس کی ٹھوکر سے صحرا دو نیم ہو جاتے ہیں۔

شہزادے! تم نے اس قوم کو مقابلے پر اکسایا ہے جس کے پاس، درجہ ہشتم کے مطالعہ پاکستان کے مطابق سونا اگلتے کھلیان، سر سبز وادیاں اور بہتی آبشاریں ہیں۔ جب کہ دہم جماعت کی مطالعہ پاکستان کی کتاب میں سنہرے حروف میں لکھا ہوا ہے کہ یہ قوم معدنی دولت سے مالا مال ہے۔ اس کے پاس رہو ڈیم، پلا ڈیم اور چاندی کے پہاڑ ہیں۔ تم اس قوم کے خلاف لنگوٹ کس کر میدان میں آئے ہو، جس کے لبوں پر ہر وقت دعا رہتی ہے، ”مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے، میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے“ ۔ ڈئیر! یقین جانو، ہم سے ادھار واپس مانگ کر تم  نے اپنی موت کو دعوت دی ہے۔

اگرچہ ہمیں ہوائی جہازوں کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے اقبال ہمیں بتا گئے ہیں کہ ہم سب شاہین ہیں۔ اس کے باوجود تم ہماری پرواز میں کوتاہی کے سبب بنے ہو، اس لیے تمہارا ہر خوشۂ گندم جلانا ہم پر واجب ہو گیا ہے۔ ہمارے پاس جہاز کم ہیں ورنہ ایک چھوڑ دو جہاز ہم تمہارے منہ پر دے مارتے۔ ہاں ہمارے پاس جنگی جہاز کافی ہیں اور ہمارا شدت سے دل چاہ رہا ہے کہ ایٹم بم رکھ کر ایک ایف سولہ اپنے وطن کی حرمت پر قربان کر دیں۔

یاد رکھو، ہم ہر ظلم برداشت کر سکتے ہیں لیکن قرض خواہوں کے ہاتھوں اپنی تذلیل بالکل برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر آج ہم تمہارے سامنے خاموش بیٹھے رہے تو ہم تو آدھی دنیا کے مقروض ہیں، پھر ہم اقوام عالم میں سر اٹھا کر کیسے زندہ رہیں گے؟ G 20 میں شامل ہر ایرا غیرا ملک اپنے کھاتے کھول کر بیٹھ جائے گا۔

استاد! اب تم اپنے کیے پر پچھتا رہے ہو گے لیکن میرے پاس تمہارے لئے ایک خوشی کی خبر بھی ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تم سے لڑائی تمہارا قرض لوٹانے کے بعد کریں گے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم تمہارے پیسے ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں مزید دو دن دو تاکہ کسی اور ملک سے ادھار مانگ کر تمہارا ادھار چکا سکیں۔

محمد عامر الیاس
Latest posts by محمد عامر الیاس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).