انجینیئرنگ کی تعلیم چھوڑ کر ایتھلیٹکس میں سونے کا تمغہ جیتنے والی غریب خاندان کی لڑکی


انڈیا کی 23 سالہ خاتون وی کے وِسمیا اپنے آپ کو 'ایکسیڈنٹل ایتھلیٹ' کہتی ہیں۔ جنوبی ریاست کیرالہ کے کنور ضلع میں پیدا ہونے والی وِسمیا انجینیئر بننا چاہتی تھیں اور وہ اس کی تعلیم میں منہمک تھیں۔

ایک وقت وہ تھا جب وہ خود کو کھیلوں میں اوسط پسند درجے کی کھلاڑی سمجھتی تھیں۔ اس وقت ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وہ ایشین گیمز میں سونے کا تمغہ حاصل کریں گی۔

ان کی بہن ایک ابھرتی ہوئی ایتھلیٹ تھیں۔ انھوں نے وِسمیا کو ایتھلیٹکس میں زیادہ دلچسپی لینے کی ترغیب دی۔

یہ بھی پڑھیے

بیڈمِنٹن کھلاڑی بی بی سی کی پہلی ’انڈین سپورٹس وومن آف دی ایئر‘

’انڈیا کے یوسین بولٹ‘ کا ٹرائلز میں شرکت سے انکار

انڈیا کی تیز ترین لڑکی کا خاندان ان سے نالاں کیوں؟

رفتہ رفتہ وہ اپنے اسکول کے سپورٹس ٹیچر اور بعد میں کالج کے کوچ کی مدد سے ایک ایتھلیٹ کی شکل میں نکھرتی گئیں۔ چنگناچیری میں واقع ان کا ایسسنشن کالج اعلی سطح کے کھلاڑیوں کے لیے معروف ہے۔

ایک ایتھلیٹ کے طور پر وِسمیا کے کیریئر کا آغاز سنہ 2014 میں اپنی ریاست کیرالہ کے لیے دو طلائی تمغوں کے ساتھ ہوا۔ اب وہ سنہ 2021 کے اولمپکس میں حصہ لینے جارہی ہیں۔

لیکن انجینیئر بننے کے خواب سے نکل کر ایتھلیٹکس کو کریئر کے طور پر انتخاب کرنا آسان فیصلہ نہیں تھا۔

ایک مشکل فیصلہ

وِسمیا کے والد الیکٹریشن ہیں اور ان کی والدہ خاتون خانہ ہیں۔

ان کا کنبہ مالی طور پر مضبوط نہیں ہے اس لیے ان کے لیے انجینیئرنگ کو چھوڑ کر ایتھلیٹ کو ایک کریئر کے طور پر منتخب کرنا مشکل فیصلہ تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کے والدین کے لیے یہ مشکل فیصلہ تھا کہ وہ کھیل کے میدان میں کریئر بنانے کے لیے اپنی دو بیٹیوں کا ساتھ دیں۔ لیکن پھر بھی انھوں نے حتی المقدور ان کا ساتھ دیا۔

ابتدا میں وی کے وِسمیا کے پاس مصنوعی ٹریک اور جدید جم کی سہولیات موجود نہیں تھیں۔ اس کے بجائے انھیں کیچڑ سے پر ٹریک پر ٹریننگ لینا ہوتی تھی۔ مون سون کے دنوں میں اس ٹریک پر ٹریننگ کرنا مزید مشکل ہو جاتا تھا۔

وِسمیا کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کے لیے ان کے کیریئر کے ابتدائی مرحلے میں مناسب وسائل، سہولیات اور تربیت اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن ملک میں اس کی کمی ہے۔

ان سب کی عدم موجودگی میں کھلاڑیوں کو انجریز (چوٹ لگنے) کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ وِسمیا خود بھی اس مرحلے سے گزری ہیں۔

انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ہرڈل ریسر یا رنر کے طور پر کی لیکن انجری کی وجہ سے انھیں اپنا ٹریک تبدیل کرنا پڑا۔ اس کے بجائے انھوں نے درمیانے فاصلے کے رنر کی حیثیت سے تربیت لینی شروع کی۔

طلائی تمغہ سے شناخت ہونے لگی

سنہ 2017 میں وِسمیا کے کریئر میں اس وقت سنہرا دور آیا جب انھوں نے آل انڈیا انٹر یونیورسٹی چیمپین شپ کی 200 میٹر دوڑ میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور 25 سالہ ریکارڈ کو توڑ دیا۔

اسی چیمپینشپ میں انھوں نے 400 میٹر کی دور میں نقرئی میڈل بھی حاصل کیا۔ اس کے بعد سے لوگوں میں ان کی پہچان بننا شروع ہوگئی۔

اس جیت نے حیرت انگیز طور پر وِسمیا کو قومی کیمپ تک پہنچنے میں مدد دی۔ وہاں انھیں تربیت کی تمام جدید سہولیات میں اور کوچز کی سہولت بھی حاصل ہوئی۔

اس کے بعد وِسمیا 400 میٹر کی ریلے ریس کے لیے قومی ٹیم کی ایک اہم ممبر بن گئیں۔ اس ٹیم نے جکارتہ میں سنہ 2018 میں ایشین گیمز میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔

وہ اس کامیابی کو اپنے کریئر کی بہترین فتح قرار دیتی ہیں۔ سنہ 2019 میں وِسمیا نے چک جمہوریہ کے شہر برنو میں منعقدہ ایتھلیٹک میٹ میں 400 میٹر ریس کے انفرادی مقابلوں میں طلائی تمغہ جیتا۔

اس کے بعد سنہ 2019 میں ہی انھوں نے دوحہ میں ہونے والے ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کے مکس ریلے میں حصہ لیا۔ ٹیم فائنل میں پہنچی اور اس نے ٹوکیو اولمپکس کے لیے کوالیفائی کیا۔

وِسمیا کو اس بات پر یقین ہے کہ اگر آپ نے مثبت رویہ برقرار رکھا اور آپ ناکامیوں سے مایوس نہیں ہوتے ہیں تو آپ کی سب سے بڑی تکلیف آپ کی سب سے بڑی طاقت بن جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp