چڑیا اُڑی، کوّا اُڑا، ہاتھی اُڑا


مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ ہم بحیثیتِ قوم ترقی پسند ہیں یا رجعت پسند، جمہوریت پسند ہیں کہ آمریت پسند۔ البتہ ہم اور ہماری قیادت ’فلم پسند‘ ضرور ہے۔

بنیادی مسائل جائیں تیل لینے۔ ہمیں تو بھیا ہر آن ایک ڈرامہ چاہیے اور ہماری قیادت نہ صرف انتہائی باصلاحیت ایکشن تھرلر ڈرامہ پروڈیوسر ہے بلکہ غیر ملکی ڈراموں کی بھی مثالی تقسیم کار ہے۔

رومن سرکس تو عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے سال میں ایک یا دو بار یا کسی جشنِ فتح کے موقع پر منعقد ہوتا تھا۔ مگر ہم تو شاید پیدا ہی سرکس دیکھنے اور سرکس جینے کے لیے ہوئے ہیں۔

تازہ ترین غیر ملکی پیش کش ہے براڈ شیٹ سرکس۔ رنگ ماسٹر کاوے موسوی ہر دوسرے تیسرے روز اپنے ہیٹ سے نیا کبوتر نکال رہے ہیں اور ہم، ہمارا میڈیا اور ہماری قیادت تالیاں پیٹتے ہیں۔ دیدے گول گول گھماتے ہوئے ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھاتے ہیں اور اگلی قسط کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔

ایک ایسے وقت جب ریاستی معاشی ہاتھ میں سوراخ ہے اور روزمرہ کام چلانے کے لیے کبھی سمندر پار پاکستانیوں کے آگے ہاتھ جوڑ کر، کبھی برادر ممالک کے آگے ہاتھ پھیلا کر اور کبھی ٹیکس نادہندگان کی ٹھوڑی میں ہاتھ دے کر پیسہ پیسہ جوڑا جا رہا ہے، کوئی مائی کا لال نہیں سوچ رہا کہ اس ’خون پسینے کی قومی کمائی‘ میں سے انتیس ملین ڈالر کاوے موسوی کی براڈ شیٹ کمپنی کس طرح ایک برطانوی عدالت کے ذریعے نیب اور حکومت کے منھ میں ہاتھ ڈال کر لے اُڑی اور ہم اپنی عدالتی نااہلی اور تساہل پسندی کا احتساب کرنے کے بجائے کاوے موسوی کے سلسلے وار کرتبی انکشافات پر بقول شخصے ’انجوائز لے رہے ہیں‘۔

جب موسوی صاحب کہتے ہیں کہ کسی انجم ڈار نے خود کو نواز شریف کا کزن بتا کر مجھے شریف خاندان کے کالے دھن کے معاملات پوشیدہ رکھنے کے لیے پچیس ملین ڈالر رشوت کی پیش کش کی تو تمام عمرانی کابینہ کورس میں جھوم اٹھتی ہے ’دیکھا ہم نہ کہتے تھے یہ چوروں کا جتھا ہے‘۔

مگرجب یہی موسوی صاحب گل افشانی کرتے ہیں کہ جب براڈ شیٹ کمپنی نے ایک ارب ڈالر کے ایک پُراسرار اکاؤنٹ کا سراغ لگایا تو موجودہ حکومت کے ایک مبینہ اہلکار نے اس کیس پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے پوچھا ’میرا کمیشن کتنا ہوگا؟‘ اس پر حکومتی ترجمان کہتے ہیں کہ ’موسوی جھوٹ بول رہا ہے۔‘

موسوی صاحب کہتے ہیں انھوں نے پاکستانی حکومت کے چند نمائندوں کو ایک ارب ڈالر مالیت کے ایک مشتبہ بینک اکاؤنٹ کے بارے میں بتایا۔ مگر وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ ’ہمیں نام نہیں بتایا گیا۔‘

موسوی کے بقول نیب نے صرف سیاسی حریفوں کا پیچھا کیا۔ ’ہم جس کا نام بتاتے نیب کے اندر سے کوئی نہ کوئی یہ نام لیک کر دیتا اور اگلے ہی ہفتے کالے دھن کے اس اکاؤنٹ سے رقم نکال لی جاتی۔‘

نیب کہتا ہے موسوی بے پر کی اُڑا رہا ہے۔ موسوی کہتا ہے نیب بذاتِ خود بے بال و پر ہے۔

آپ بھول جائیں کہ کہانی میں کون سچا ہے کون جھوٹا، بس اس وقت تک ڈرامے کا مزہ لیں جب تک کوئی اور ایکشن تھرلر سامنے نہیں آتا۔

بالکل ویسے ہی مزہ لیجیے جیسے آپ اور ہم نے 2011 میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت والے ایبٹ آباد حملے کے بعد منظرِ عام پر آنے والے میمو گیٹ کا مزہ لیا تھا۔

یاد ہے نا ایک صاحب تھے منصور اعجاز؟ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ صدر آصف زرداری کی جانب سے امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک خط امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین ایڈمرل مائک مولن تک ’میں نے پہنچایا تھا۔‘

اس خط میں صدر زرداری نے بذریعہ حسین حقانی بذریعہ منصور اعجاز ایڈمرل مائک مولن سے استدعا کی تھی کہ آپ ہی ہیں جو جنرل کیانی اور جنرل شجاع پاشا کو زرداری حکومت کا تختہ الٹنے سے باز رکھ سکتے ہیں۔ اس احسان کے بدلے زرداری حکومت امریکہ کو ہر وہ منھ مانگی سہولت دے گی جو اوباما سرکار نے خواب میں بھی نہیں دیکھی ہو گی۔

مزے کی بات ہے کہ اس مبینہ خط کے مصنف حسین حقانی کا نام منصور اعجاز نے تو بہت بعد میں لیا۔ اس سے پہلے عمران خان نے بھرے جلسے میں بتا دیا کہ یہ خط کس نے تحریر کیا ہے۔

جب ایک ٹی وی اینکر ثنا بچہ نے پوچھا کہ منصور اعجاز سے بھی پہلے آپ تک خط کے مصنف کا نام کس نے پہنچایا تو خان صاحب نے کہا وہ دراصل، بات یہ ہے، دیکھیں نا، آپ تو جانتی ہی کہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔

امریکیوں نے بس اتنا اعتراف کیا کہ کوئی چٹھی ملی تھی جس پر نہ تو کسی کے دستخط تھے اور نہ مہر لہذا اسے شاید سنجیدگی سے پڑھے بغیر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔

امریکیوں نے اس خط کو کتنی گھاس ڈالی اس سے قطع نظر قائدِ حزب ِ اختلاف نواز شریف، آئی ایس پی آر اور میڈیا ریٹنگ کے طفیل میمو گیٹ سکینڈل کو پاکستان میں اتنی ہی مقبولیت ملی جتنی کئی برس بعد ارتغرل غازی کے حصے میں آئی۔

میمو گیٹ کا فائدہ یہ ہوا کہ حسین حقانی اپنی سفارت سے برطرف ہو کر اشتہاری قرار پائے۔ ایبٹ آباد حملے میں پیشہ ورانہ غفلت کا سوال میمو گیٹ کے ہنگامے میں دب گیا۔

زرداری حکومت اگلے تین برس بالکل سیدھی سیدھی چلتی رہی۔ کیانی صاحب اور پاشا صاحب نے مدتِ عہدہ میں توسیع انجوائے کی اور پھر سب میمو گیٹ بھول بھال کر ہنسی خوشی رہنے لگے۔

اسی طرح براڈ شیٹ کے ڈرامے کی جانب میڈیا اور عوام کی توجہ ہر بچے کے لیے سود مند ہے۔ سب سے زیادہ توجہ ہٹاؤ کا فائدہ سرکار کو ہے۔

مثلاً کوالالمپور میں پی آئی اے کا ایک طیارہ لیز کی عدم ادائیگی کی پاداش میں ایک عدالتی حکم پر ضبظ ہو گیا۔ براڈ شیٹ سے توجہ ہٹے تو کوئی پوچھے۔

آسٹریلیا کی ٹھیتھیان کمپنی کی جانب سے ریکوڈک کانکنی کیس میں چھ ارب ڈالر ہرجانے کی رقم پاکستان کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہی ہے۔ اس تلوار کو سر سے ہٹانے کے لیے کیا کیا جتن ہو رہے ہیں۔ نہ کوئی پوچھ رہا ہے نہ بتا رہا ہے۔

گذشتہ برس پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی مصنوعی قلت کا سبب بننے والی بارہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی منافع خوری اور ایرانی تیل کی سمگلنگ میں ان کمپنیوں کے ملوث ہونے کے شواہد پر مبنی ایف آئی اے کی رپورٹ اب سینیٹ میں زیرِ غور ہے۔ اسی موضوع پر ایک اعلی سطحی تحقیقی رپورٹ سرکاری فیصلہ سازوں کی میز پر بھی پڑی ہے۔ پڑی ہے تو بس پڑی ہے۔

شوگر مافیا کی بازی گری سے متعلق رپورٹ بھی کئی ماہ سے حکومت کی میز پر ہے۔ بجلی کمپنیوں کو عدم ادائیگی کے سبب گردشی قرضے کا حجم تئیس سو ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔

گیس، تیل، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا کوڑا ہر مہینے دو مہینے بعد عوام کی پیٹھ پر پڑ رہا ہے۔ گیس کی صنعتی و عوامی لوڈ شیڈنگ بھی عروج پر ہے۔

مگر ان سب معاملات کو سلٹانے اور ان سے متعلق تحقیقاتی سفارشات پر عمل درآمد کے بجائے یہ حکومت بھی پچھلوں کی طرح عوام سے ’چڑیا اڑی، کوّا اڑا، ہاتھی اڑا، ہاہ ہاہ ہاہ‘ کھیل کے عوام کو ’ٹائم پاس‘ کروا رہی ہے۔

اور جو اس بچگانہ کھیل سے بور ہو رہے ہیں ان کے منورنجن کے لیے ازقسمِ براڈ شیٹ والے کاوے موسوی جیسے کردار آ رہے ہیں جا رہے ہیں، جا رہے ہیں اور آ رہے ہیں۔

خوش رہیں، آباد رہیں، ’انجوائز لیں‘ اور اگلی ڈرامہ پروڈکشن کا انتظار کریں۔ زندگی کا کیا ہے وہ تو اپنے قرینے سے کٹ ہی رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).