براڈ شیٹ اسکینڈل: انصار عباسی کے چبھتے ہوئے سوالات


معروف صحافی انصار عباسی نے ایک رپورٹ میں براڈ شیٹ اسکینڈل کے بارے میں اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ صحافی کا کہنا ہے کہ یہ سوالات پاکستان کے لئے شرمندگی کا باعث ہیں اور بدستور جواب طلب ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ حکومت نے مقامی عدالت کی جانب سے منجمد کئے جانے سے قبل تیس ملین (تین کروڑ) ڈالرز لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن منتقل کئے جانے کی کوئی وضاحت نہیں کی۔ ان معاملات میں حکومتی طریقہ کار سے بخوبی آگاہ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ بیرون ممالک پاکستانی سفارت خانوں اور ہائی کمیشنز میں چند ہزار ڈالرز بھی فالتو یا اضافی نہیں ہوتے۔ جب سفارتی عملے کو ہفتوں تنخواہیں نہیں ملتیں تب ماہانہ رقوم فراہم کی جاتی ہیں، لہٰذا کس طرح تین کروڑ ڈالرز لندن کے پاکستانی ہائی کمیشن میں موجود تھے کہ برطانوی حکام آسانی سے ضبط کر لیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لندن ہائی کورٹ کے فیصلے ہی سے قبل رقم پیشگی لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکائونٹ میں منتقل ہو چکی تھی جو ناقابل یقین بات ہے۔ کیا حکومت پاکستان نے پاکستانی ہائی کمیشن کے اکائونٹ میں دانستہ رقم منتقل کی تھی تاکہ براڈ شیٹ آسانی سے اپنی رقم حاصل کر سکے جبکہ براڈ شیٹ کا مالک ایک معمر ایرانی انٹیلی جنس افسر بتایا جا تا ہے۔

ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق اب ضمنی بجٹ وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر مختص نہیں کیا جاسکتا۔ آیا وزیر اعظم اور کابینہ نے اس رقم کی ادائیگی کی منظوری دی تھی۔

اس کے علاوہ مذکورہ رقم کی ہائی کمیشن کے اکائونٹ میں منتقلی ہائی کورٹ کے فیصلے سے قبل کی گئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی بھی قبل ازوقت زر مبادلہ منتقلی کے لئے اجازت درکار ہو تی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا انہوں نے بھی اس کی منظوری دی تھی ؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے کسی غلطی کی صورت میں وزیر خزانہ اور سیکرٹری خارجہ سے وضاحت طلب کی جانی چاہئے کہ انہوں نے تین کروڑ ڈالرز پاکستانی ہائی کمیشن کے اکائونٹ میں ڈالنے کی اجازت کیسے دی؟

بین الاقوامی قانون کے مطابق سفارتی مشنز کے بینک اکائونٹس سفارتی اکائونٹ کے زمرے میں آتے ہیں جنہیں جینوا کنونشن کے تحت تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ برطانوی حکام ایک سفارتی اکائونٹ کو کس طرح ضبط کر سکتے ہیں یا پاکستانی حکومت میں کوئی انہیں اجازت دے سکتا ہے۔ مین کئی حقیقی اور قانونی سوالات اٹھتے ہیں۔

مالی انتظامی طریقہ کار اور مقامی قانون کے حوالے سے بھی حکومت پاکستان سے سوالات کے جوابات طلب ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سفارتی اکائونٹ کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ اسے ریاست کا استثنیٰ حاصل ہو تا ہے اور متعلقہ ریاست کے حکم پر ہی اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ استثنیٰ وزیر اعظم اور کابینہ کی اجازت کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک سوال یہ ہے کہ ثالثی جج کے فیصلے کو حکومت پاکستان نے عام کیوں نہیں کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).