مذہب، سائنس اور انسانی نفسیات



(محترمی سہیل تاج کا ڈاکٹر خالد سہیل سے ایک ادبی اور نظریاتی فورم ممتاز مفتی گروپ کے لیے انٹرنیٹ پر تین جنوری 2021ء کو مکالمہ)

سہیل تاج : تعارف : ڈاکٹر خالد سہیل کی زندگی میں کئی ایک دلچسپ اتار چڑھاؤ آئے۔ ان کی امی انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں۔ والد کچھ سال ذہنی انتشار کا شکار ہوئے اور پھر ٹھیک ہو گئے اور ان میں ایک صوفیانہ کیفیت در آئی۔ ڈاکٹر صاحب ان تمام حالات کو اپنے اندر جذب کرتے رہے اور ان کا بغور مشاہدہ بھی کرتے رہے۔ آپ کا تعلق خیبر پختو خواہ سے رہا اور خیبر میڈیکل کالج سے آپ نے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد بیرون ملک سے نفسیات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اب آپ گرین زون کمیونٹی کے قیام کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ سماج میں تمام لوگ ایک دوسرے کے کام آئیں، خوش رہیں۔ مگر سب سے زیادہ جو ہم ڈاکٹر صاحب کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں وہ ان کا بچپن اور فکری ارتقاء ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل: بہت نوازش سہیل تاج صاحب، آپ نے جس محبت، جس اپنایت، جس قربت اور جس چاہت سے مجھے دعوت دی۔ اس پر میں انکار نہیں کر سکا۔ یہ میرے لیے بھی ایک موقع تھا۔ ہمیں سقراط اور فرائیڈ نے یہ سکھایا ہے کہ انسان مکالمے سے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر ہم تبادلہ خیال کریں تو ایک دوسرے سے کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔

سہیل تاج: آپ نے والدین کی زندگی کے ساتھ ساتھ سماج پر بھی نظر رکھی۔ اپنے خاندان کے بارے میں کچھ بتائیں۔ آپ اپنے بچپن میں اور ہوش سنبھالنے کے بعد کیا سوچا کرتے تھے؟

ڈاکٹر خالد سہیل: میرا خاندان پنجاب سے ہے۔ میرے والدین امرتسر سے 47 ء میں ہجرت کر کے لاہور آئے۔ میرے والد چشتیہ سکول لاہور میں ٹیچر تھے۔ میرے چچا عارف عبدالمتین بھی وہاں پڑھاتے تھے۔ میرے پھوپھا خواجہ صادق حسن وہاں پرنسپل تھے۔ میرے والد کو ریاضی پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے ریاضی میں ایم ایس سی کیا۔ یہ 1954 ء کی بات ہے۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کیوں کہ اس وقت میری عمر دو سے اڑھائی برس رہی ہو گی۔ کوہاٹ میں اس وقت ایک کالج کھلا، گورنمنٹ کالج کوہاٹ۔ اس کالج میں ایک لیکچرار کی ضرورت تھی۔ والد صاحب میری والدہ اور مجھے لے کر کوہاٹ آ گئے۔

میرے بچپن کی جو یادیں میرے ذہن میں محفوظ ہیں ان میں، کوہاٹ کا ایک بڑا سا گھر ہے۔ ایک بڑا صحن ہے۔ برآمدہ ہے۔ کئی کمرے ہیں۔ اور میں اکیلا ہوں۔ ایک ٹرائی سائیکل ہے۔ مجھے گلی میں بچوں کے کھیلنے کی آواز آتی تھی اور میں باہر جانا چاہتا تھا مگر میری والدہ بہت فکر مند تھیں کیوں کہ ان کا تعلق پنجاب سے تھا، پشتو ان کو آتی نہیں تھی۔ وہ گھبراتی تھیں کہ اگر میں باہر گیا تو کوئی پٹھان مجھے اٹھا کر نہ لے جائے۔ اب مجھے ان کے جذبات کی سمجھ آتی ہے مگر بچپن میں میں ان باتوں کو نہیں سمجھتا تھا۔

وہ مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ جب تمہارے ابو آئیں گے تو تمہیں باہر لے جائیں گے۔ والد صاحب جب آتے تھے تو مجھے سائیکل پر بٹھا کر سیر کے لیے لے جایا کرتے تھے۔ والد صاحب بہت شفیق، بہت مہربان تھے۔ میرے والد میں NURTURING AND MOTHERING زیادہ تھی جبکہ میری والدہ DISCIPLERANIAN تھیں۔ ان دونوں کے کردار متضاد تھے۔ والدہ سختی کرتیں اور سکول کے کام وغیرہ کی تلقین کرتیں جب کہ والد صاحب کہتے یہ تو ابھی بچہ ہے، آپ اس پر ابھی سے کیوں اتنا بوجھ ڈالتی ہیں۔ جب یہ بڑا ہو گا تو ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ بچپن کی کچھ یادیں ہیں۔

پھر والد صاحب نے یہ سوچا کہ چونکہ میں گھر میں اکیلا ہوں۔ میری ایک ہی بہن ہیں جو کہ پانچ سال کے بعد پیدا ہوئیں۔ چار برس کی عمر میں والد صاحب مجھے کانونٹ سکول لے گئے۔ وہ واقعہ بھی میرے ذہن میں ایک دلچسپ یاد کی طرح محفوظ ہے۔ کانونٹ سکول ہے، میں پہلی دفعہ Nuns کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ کالے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور گوری عورتیں ہیں۔ جو میری کنڈر گارٹن کی ٹیچر تھیں وہ سسٹر برناڈین SISTER BERNADINE تھیں۔ یہ مجھے یاد ہے۔

میں نے تب پہلی بار اپنے والد صاحب کو انگریزی بولتے دیکھا اور مجھے بڑی حیرانی ہوئی کیوں کہ گھر میں تو ہم پنجابی بولتے تھے۔ وہ پرنسپل سے انگریزی بول رہے تھے۔ میری والدہ نے برقع پہنا ہوا تھا۔ جب سسٹر برناڈین مجھے کلاس میں لے کر گئیں تو والدہ کچھ اداس سی ہو گئیں کیوں کہ میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا اور ان سے پہلی بار جدا ہو رہا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ سسٹر برناڈین نے میری والدہ سے کہا کہ آپ بے فکر رہیں اب یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ میری والدہ چلی گئیں اور سسٹر برناڈین مجھے کلاس میں لے گئیں وہاں ایک بچی تھی مجھے اس کے ساتھ بٹھا دیا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے ایک دو ٹافیاں بھی دے دیں، جنہیں میں نے جیب میں ڈال لیا۔ سکول میں میرا پہلا دن کافی مثبت اور خوشگوار گزرا اور وہ ایک اچھا تجربہ اور احساس تھا۔ پہلے دن ہی مجھے سکول سے محبت ہو گئی۔ اس کے بعد مجھے سکول جانا اور بچوں سے کھیلنا اچھا لگتا تھا۔ اس طرح بچپن کی یادیں بہت خوشگوار ہیں۔ یہ میرے بچپن کے جذبات ہیں۔

سہیل تاج

سہیل تاج: آپ نے یہ کب جانا کہ مذہب ہمارے سماج میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور مذہب کے آپ کی زندگی پر کیا اثرات تھے؟

ڈاکٹر خالد سہیل: ہم کہانی کو فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ میرے والد صاحب کا جو آپ نے ذکر کیا کہ ان کا نروس بریک ڈاؤن ہوا اس وقت میری عمر دس برس تھی۔ وہ ذہنی طور پر بیمار ہو گئے۔ ان کے تجربات بڑے عجیب و غریب تھے۔ مثال کے طور پر وہ ایک کمرے میں گھنٹوں ساکت کھڑے رہتے تھے۔ اس کیفیت کو ہم نفسیات کی زبان میں کیٹٹانک سٹیٹ CATATONIC STATE کہتے ہیں۔ کئی دفعہ وہ واش روم گئے اور دو گھنٹے گزر گئے اور کوئی آواز نہیں آئی۔

والدہ اندر گئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ وہ اسی طرح کھڑے ہیں۔ یا پھر وہ چھت پر جا کر ستاروں سے باتیں کرتے تھے۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ کچھ عجیب و غریب تجربات ہیں بلکہ گھر والے مجھے کہتے تھے کہ ان کے کمرے میں نہ جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں خطرہ تھا کہ اگر والد صاحب کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے تو مجھے کوئی نقصان نہ پہنچائیں لیکن میں پھر بھی چھپ کر چلا جاتا تھا اور وہ بڑی شفقت اور بڑی محبت سے مجھے گلے لگاتے تھے۔ مجھ سے بڑا پیار کرتے تھے۔ میں کبھی ان سے خوفزدہ نہیں ہوا اور گھبرایا نہیں۔

ایک سال کے بعد جب وہ ٹھیک ہوئے تو وہ ایک صوفی منش انسان بن گئے۔ انہوں نے داڑھی رکھ لی۔ بیماری سے پہلے وہ سوٹ پہنتے تھے۔ کلین شیوڈ تھے۔ کالج میں پڑھاتے تھے۔ تو پھر انہوں نے کالج سے استعفیٰ دے دیا۔ شلوار قمیض پہننی شروع کی۔ مذہب اور تصوف کا مطالعہ شروع کیا۔ ان دنوں میری عمر دس، گیارہ سال تھی۔ میں ان کے ساتھ نماز پڑھنے مسجد جاتا تھا اور ان کے ساتھ روزے بھی رکھا کرتا تھا۔

جب والد صاحب صحت یاب ہو گئے تو ہم کوہاٹ سے لاہور گئے اور لاہور سے پھر پشاور چلے گئے۔ اور وہاں میرے والد صاحب ایک ہائی سکول میں ریاضی پڑھانے لگے۔ ہم چارسدہ روڈ پر، عید گاہ کے پاس پشاور میں رہتے تھے۔ عید گاہ میں سال میں دو بار عید کی نمازیں ہوتی تھیں، جن میں، میں بھی شامل ہوتا تھا۔ اس کے اندر ایک باغ سا تھا۔ جہاں ہم سارا سال فٹ بال کھیلتے تھے۔

ایک دن میں نے کیا دیکھا کہ چار پانچ سو لوگ جمع ہیں اور وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ یہ میرے لیے حیرانی کی بات تھی کہ یہ عید تو نہیں ہے پھر یہ لوگ کون سی نماز پڑھ رہے ہیں؟ وہاں ایک بابا جی تھے۔ بزرگ آدمی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ کیوں نماز پڑھ رہے ہیں؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail