بندر بانٹ


نیب کی ہانڈی ایک بار پھر چوراہے پہ پھوٹتی ہے اور اس بار یہ چوراہا بین الاقوامی ہے۔ نہ یہ کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی کسی میں اب اتنی سکت باقی ہے کہ اس خبر پہ ہنسے یا روئے۔

کہانی سب کو معلوم ہے، کہانی نئی نہیں ہے۔ کرپشن کس نے نہیں کی ؟ کرپشن کا نام سیاسی انتقام کے لیے کس نے استعمال نہیں کیا؟ کرپشن ہے کیا؟ یہ اصطلاح کثرت استعمال سے ‘کلیشے’ بن کے اپنا اثر کھو چکی ہے۔ لیکن کیا اس کا مطلب ہے کہ کوئی سچائی، سچائی نہیں رہتی؟

براڈ شیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے سب کی پول کھولی اور عین چوک پہ کھولی۔ کرپشن ہوئی، پیسہ باہر گیا، وہ پیسہ پکڑا بھی جاتا لیکن نیب نے عین وقت پہ کام روکنے کا کہہ دیا اور ایک بار پھر بلی ہی کو چھیچھڑوں کی نگہبانی پہ بٹھا دیا۔

کرپشن کے ان معاملات میں جن دو سو لوگوں کے نام تھے وہ تو تھے ہی لیکن موسوی صاحب نے آج کے دور میں جن لوگوں کا نام لیا اور انھیں کمیشن مانگنے کا ملزم ٹھہرایا وہ بھی یہیں بیٹھے ہیں اور سب کچھ جاننے، واشگاف الفاظ میں سن لینے کے باوجود بھی دم سادھے بیٹھے ہیں۔

ایسے مواقع پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں بار بار آئے اور ہر بار ان کا حل ایک سا نکالا گیا۔ خاموشی، ایک بے حس خاموشی، مصلحتوں کے مکروہ غلافوں سے ڈھکا سناٹا جس کی آڑ میں غریب عوام کا لہو، ان کے وقار کو گروی رکھ کے مانگی گئی بیرونی امداد کی رقوم اور جانے کن کن ذرائع سے کمائے گئے مشکوک سرمائے کے سراغ دبا دیے جاتے ہیں ۔

اس حمام میں چونکہ سب ہی ننگے ہیں اس لیے کون دوسرے کی بے لباسی پہ انگلی اٹھائے؟ وزیر اعظم صاحب کو کچھ بھی کہنا یا مورد الزام ٹھہرانا بے کار اور الفاظ کا زیاں ہے۔

یہ ملک کیسے چل رہا ہے اور کون چلا رہا ہے یہ بات اب پرائمری جماعتوں کے بچوں سے لے کر دیہاڑی دار مزدور تک کو معلوم ہے۔

عوام مضمحل ہیں، ملول اور اداس۔ اتنا تو سب کو پہلے بھی معلوم تھا کہ سب چور ہیں لیکن تحریک انصاف نوجوانوں کو امید دلانے کی بھی خطا وار ہے۔

ہماری نسل کو نہ سیاستدانوں سے کچھ خاص امید تھی اور نہ ہی ‘پپٹ ماسٹرز’ سے لیکن یہ نئی نسل بہت جوش و خروش سے اٹھی تھی مگر دو ڈھائی سال کے اندر ایک ایک کر کے سب بت گر گئے۔

مراد سعید صاحب نے جو دو سو ارب بیرونی دنیا کے منہ پہ مارنے تھے وہ کوئی جھوٹ نہ تھا، وہ خواب تھا۔

ویسا ہی خواب جیسا ہر نوجوان نسل کو اس کے لیڈر دکھاتے ہیں لیکن خواب اور اس کی تعبیر میں ڈنڈی کون مار گیا؟

کاوے موسوی نے وضاحت سے بتایا ہے کہ وہ کون تھا۔ مگر ہم سن کے بھی بہرے بن جائیں گے کیونکہ شہر کی فصیلوں پہ دیو کا جو سایہ ہے، وہ سایہ ہنوز موجود ہے۔ یہ شہر جادو کے اثر میں ہے۔

ارباب حل و عقد کے لیے شاید یہ ملک نوٹ کمانے کا ایک ذریعہ ہے مگر ایک پوری نسل ابھی ایسی ہے جسے اس خطے سے محبت ہے۔

جو پاکستانی جھنڈے کو دکھاوے کے لیے نہیں سجاتی، جس کے لیے یہ پرچم ایک پوری داستان ہے۔

چور کون ہے؟ وہ لمبی زبانیں جو اژدھوں کو مات کرتی تھیں آج اپنے ادھان میں گڑمڑی مارے سرمائی نیند کے مزے لوٹ رہی ہیں۔

عوام منہ کھولے خبریں سن رہے ہیں، لیڈر سمجھ رہے ہیں کہ کچھ روز میں گرد پڑ جائے گی اور معاملہ دب جائے گا۔ کچھ غلط بھی نہیں سوچ رہے۔ دنیا کا یہ ہی اصول ہے۔

چور سپاہی کا یہ کھیل اب کچھ ایسی شکل اختیار کر گیا ہے کہ کبھی چور سپاہی بن جاتا ہے اور کبھی سپاہی چور، لیکن جب سپاہی چور بنتا ہے تو یقین جانیے آج بھی بہت دکھ ہوتا ہے۔

ایک حکایت یاد آ گئی۔ دو بلیاں ایک روٹی کی تقسیم پہ لڑ پڑیں اور ایک بندر کو ثالث مقرر کیا۔ بندر کے ساتھ بھی پیٹ لگا ہوا تھا۔ اسے اپنے پیٹ پہ ہاتھ پھیرنا تھا۔ روٹی کے ٹکڑے برابر کیے اور دیکھا کہ ایک ٹکڑا ذرا بڑا ہے۔

انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ دونوں ٹکڑے برابر ہوتے۔ چنانچہ روٹی کے بڑے ٹکڑے میں سے زائد حصہ توڑ کے کھا گیا۔

جس ٹکڑے میں سے بندر نے لقمہ توڑا تھا اب وہ چھوٹا ہو گیا اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مجبوراً بندر کو اس میں سے بھی لقمہ توڑنا پڑا۔

یہ سلسلہ روٹی کی ختم ہونے تک چلتا رہا۔ بندر بانٹ تمام ہوا، بندر نے اپنی راہ لی اور بھوکی بلیاں منہ تاکتی رہ گئیں۔

نوالے توڑے جانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ بلیاں اگر سیانی ہوتیں تو بندر کو ثالث نہ کرتیں مگر بلیاں تو بلیاں ہیں، ہم انسانوں کو نہ سمجھا پائے تو بلیوں اور وہ بھی افسانوی بلیوں کو کوئی کیسے سمجھا سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).