بچوں کی زندگی میں پریشانیاں اور ان کا حل


ایک بڑے کی نظر سے بچوں کی زندگی شاید بہت خوشگوار اور کسی قسم کی پریشانی سے بالکل پاک نظر آتی ہے مگر شاید ایسا نہ ہو۔ یہ بات ہے کہ دس سال اور اس سے زیادہ عمر کے بچوں کی۔ میں خود ان میں سے ایک ہوں۔

یہ جو سال ہوتے ہیں ان میں بچہ جسمانی اور ذہنی طور پر بڑا ہو رہا ہوتا ہے۔ بچوں کے مسائل میں اول نمبر پر آتا ہے سکول میں یا کہیں اور باقی بچوں یا ان سے زیادہ عمر کے لوگوں کا ان کے ساتھ بدمعاشی کرنا جسے انگریزی میں بلنگ bullying کہتے ہیں۔

یہ زیادہ ان بچوں کے ساتھ ہوتا ہے جو زیادہ نہیں بولتے، اکیلے ہوتے ہیں یا ڈرے سہمے ہوتے ہیں۔ میں نے ایسے بچے بھی دیکھے ہیں جو ایسے مسائل اپنے ماں باپ کو بھی نہیں بتاتے اور پھر وہ لوگ ان بچوں کو مزید تنگ کرتے ہیں، ڈراتے ہیں، نیچا دکھاتے ہیں وغیرہ۔ مگر کیوں؟

سوال یہ ہے کہ بچوں کا اپنے ماں باپ کے ساتھ ایسا رشتہ کیوں نہیں کہ وہ ان بلا جھجک سے باتیں شیئر کریں۔ کیونکہ شاید وہ اپنے بچوں سے بات نہیں کرتے۔ ان سے نہیں پوچھتے کہ تم کیا واقعی خوش ہو؟ اپنے بچوں کو پسندیدہ چیزیں لے کر دینا یا ان کے لیے کمانا ہی ماں باپ کا فرض نہیں۔ ماں باپ کا پیار بھی اتنا ہی ضروری ہے۔

بچے کئی مرتبہ اس لیے ماں باپ سے مسئلہ شیئر نہیں کرتے کیونکہ وہ ان کے جواب سے ڈرتے ہیں۔ اپنی بات پر والدین کے ردعمل سے ڈرتے ہیں۔

ماں باپ کا آپس میں لڑنا جھگڑنا بھی اس کا سبب بن سکتا ہے۔ اپنے بچوں کے سامنے مت لڑیں۔ اپنے مسائل خود حل کریں۔ ان پر برا اثر مت ڈالیں۔ گھر میں اچھا ماحول نہ ہونے کے باعث ایک اور مسئلہ بھی جنم لے سکتا ہے اور وہ ہے بچوں کا نشے یا سگریٹ پر لگ جانا۔

یہ مسئلہ زیادہ تر پندرہ سے سترہ سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے۔ کچھ بچے ایسا دوستوں کے کہنے پر بھی کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی صحبت کا اچھا ہونا ضروری ہے۔ مگر کچھ بچے اپنی پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے بھی نشہ کرتے ہیں۔ پریشانیاں، ماں باپ کا لڑنا، دوست نہ ہونا اور ڈپریشن بھی اس کی وجہ ہو سکتے ہیں۔

ڈپریشن ایک جان لیوا چیز ہے۔ بچے، ماں باپ کو اکثر اپنے دل کی بات نہیں بتاتے کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ ان کے ماں باپ ان پر غصہ کریں گے، ہنسیں گے یا ان کی بات نہیں سنیں گے۔ اس لیے اپنے بچوں کو یقین دلوائیں کہ آپ ان کے جذبات کو بالکل نارمل سمجھتے ہیں اور ہر حال میں ان کے ساتھ ہیں اور ان کو اپنے جذبات چھپانے کی ضرورت نہیں۔ جذبات چھپانے سے مسئلہ اور بھی سنگین ہو سکتا ہے۔

سنہ 2017 کی ایک ریسرچ کے مطابق پندرہ سے چوبیس سال کے افراد میں خودکشی کے باعث 6200 اموات ہوئیں۔ ان میں سے نوے فیصد لوگ ڈپریشن کا شکار تھے۔

بچے اپنے ذہن میں بہت کچھ سنبھال رہے ہوتے ہیں۔ بہت کچھ دیکھتے ہیں۔ اس وقت ان کے ماں باپ کا ان کے ساتھ ایک مضبوط اور پیار بھرا رشتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ لہاذا بچوں کے جذبات کو سنجیدگی سے لیں اور ان کا اعتماد حاصل کریں۔

اس کے علاوہ پڑھائی کا دباؤ بھی بچوں کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ یہ بات ہے تیرہ سے انیس سال کے بچوں کی۔ اس عمر میں امتحان، پراجیکٹ اور ٹیسٹ وغیرہ کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی مشکل ہونا شروع ہو جاتی ہے اور بچے پریشانی کی شکار ہونے لگتے ہیں۔

ہمارے ہاں زیادہ تر یہ ہی کہا جاتا ہے کہ بچہ سکول اس لیے جا رہا ہے کہ وہ امتحان میں اچھے نمبر لے اور بچے پر محض ماں باپ کا نہیں بلکہ باقی خاندان اور معاشرے کا بھی دباؤ ہوتا ہے۔ اس لیے بچے پڑھائی سے بھاگتے ہیں۔ وہ خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اپنے بچوں کو یہ ہرگز مت کہیں کہ پڑھائی کا مقصد صرف امتحان دینا اور رٹا لگا کر امتحان میں اعلیٰ نمبر سے پاس ہونا ہے۔

بچہ امتحان ضرور دے، ڈگری بھی لے، پر مقصد صرف ڈگری کا حصول نہیں ہونا چاہیے۔ بچہ رٹا نہ لگائے بلکہ جو پڑھ رہا ہے اسے اچھے طریقے سے سمجھے اور دل سے یاد کرے۔ جب تک آپ کا بچہ جو پڑھ رہا ہے اس پر عمل نہیں کرے گا، اس کو نہیں سمجھے گا، تب تک میرے نزدیک ایسی پڑھائی کا کوئی فائدہ نہیں۔

ایک بات اور۔ ضروری نہیں کہ آپ کے بچپن میں آپ کے جو مسائل تھے وہ ہی مسائل آپ کے بچے کے بھی ہوں۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ بچے بدل گئے ہیں۔ ان کی سوچ ویسی نہیں جیسی بیس پچیس سال پہلے آپ کے بچپن میں آپ کی تھی۔ لہاذا ان تمام باتوں کو سمجھیں کیونکہ یہ بچے ہی آپ کا اور آپ کے ملک کا مستقبل ہیں۔

مشال ادریس
Latest posts by مشال ادریس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مشال ادریس

مشال ادریس کی عمر بارہ برس ہے اور وہ لاہور کے ایک انگلش میڈیم سکول کی طالبہ ہیں

mishal-idrees has 6 posts and counting.See all posts by mishal-idrees