ڈینگی کے خلاف مہم کی یادیں اور کورونا ویکسین سے ہماری محرومی


وزیراعظم عمران خان کے خصوصی معاون برائے صحت (جنہیں وزیر صحت بھی کہا اور سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کا درجہ یہی ہے ) ڈاکٹر فیصل سلطان نے دو روز پہلے انگریزی روزنامہ ”دی نیوز“ کو بتایا ہے کہ پاکستان نے کووڈ 19۔ ویکسین کی خریداری کے لیے نہ تو کسی کو کوئی آرڈر دیا ہے، نہ ہی کسی دوا ساز ادارے نے اس کی فراہمی کے لیے ہماری کوئی درخواست منظور کی ہے۔ ان کا فرمانا تھا کہ ہم اپنے فرنٹ لائن ورکرز اور دوسروں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے مذکورہ ویکسین کی پہلی کھیپ حاصل کرنے کی پرزور (سر توڑ) کوشش کر رہے ہیں، لیکن نہ تو کوئی حتمی آرڈر دیا جا سکا ہے، نہ ہی کسی نے اسے قبول کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس انکشاف سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر معاملات کس رفتار سے چل رہے ہیں، دنیا مریخ پر جانے کی تیاریوں میں مصروف ہے، ایک منٹ میں میلوں کی مسافت طے کی جا رہی ہے، اور ہمارے ایوانوں میں چیونٹی کو آئیڈیل بنا کر توقع کی جا رہی ہے کہ اسے ”برق رفتاری“ سمجھا جائے، اور تمغہ حسن کارکردگی بھی ان سب کی خدمت میں پیش کر دیا جائے، جو اس کار بے خیر میں مصروف ہیں۔

کورونا وائرس نے سال بھر سے دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے، دنیا بھر کی معیشتوں کو تہہ و بالا کر دیا ہے، انتہائی ترقی یافتہ ممالک بھی سر پیٹنے پر مجبور ہیں۔ اس سے بنی نوع انسان کو محفوظ بنانے کے لیے مختلف ممالک میں ویکسین کی تیاری پر کام شروع ہوا، تو برسوں کا کام مہینوں میں مکمل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کر لی گئی۔ اس وقت مختلف ممالک میں مختلف اداروں کی تیار کردہ ویکسین شہریوں کو فراہم کی جا رہی ہے۔ دنیا میں مختلف تجرباتی مراحل سے گزرنے والی ویکسین حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، دولت مند ممالک تو پیشگی بکنگ کرا ہی رہے تھے، نسبتاً کم وسیلہ ممالک بھی اپنی بساط سے آگے بڑھ کر اس کے حصول کی کوشش میں مصروف رہے تاکہ اپنے شہریوں کو تحفظ دے سکیں کہ جان ہے تو جہان ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور کئی یورپی ممالک میں تو برق رفتاری کے ساتھ ٹیکے لگائے جانا ہی تھے، اسرائیل کے وزیراعظم بھی دن کا چین اور رات کی نیند بھولے ہوئے تھے۔ انہوں نے چند روز کے اندر اندر عالمی شہرت یافتہ ویکسین ساز ادارے ”فائزر“ کے چیف ایگزیکٹو کو سترہ بار فون کیا، تاکہ اپنے ملک کے لیے فراہمی کو یقینی بنا سکیں۔ لندن کے ایک اخبار کے مطابق انہوں نے اس ویکسین کی ایک خوراک کی قیمت 45 پونڈ ادا کی ہے، جبکہ برطانیہ نے اسے 30 پونڈ میں حاصل کیا ہے۔ زیادہ قیمت دے کر وہ گاہکوں کی قطار کو توڑ کر آگے بڑھ گئے ہیں، اور اپنے ملک کے اٹھارہ لاکھ شہریوں کو ٹیکے لگوانے میں کامیاب ہو چکے ہیں، یہ سب کچھ تین ہفتے کے اندر ممکن بنایا گیا۔ اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نومبر کے وسط تک اسرائیل نے کوئی بکنگ نہیں کرائی تھی، لیکن جب فائزر کی ویکسین کی دھوم مچی تو اس کے وزیراعظم حرکت میں آئے اور اپنے ہاتھ رنگنے میں کامیاب ہو گئے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے گزشتہ سال کے آخری مہینے کی 13 تاریخ کو برطانوی دوا ساز ادارے آکسفورڈ کی تین کروڑ ویکسین کی خریداری کے لئے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ یہ ویکسین بھارت کے سیرم انسٹیٹیوٹ میں بھی تیار ہو رہی ہے۔ پچاس پچاس لاکھ کی چھ قسطوں میں اسے بنگلہ دیش کو فراہم کیا جانا تھا، اس معاہدے سے ایک ماہ پہلے، یعنی نومبر 2020 ء کے دوران میں آکسفورڈ (یا اسٹرا ز ینیکا) ویکسین کی فراہمی کے لیے بنگلہ دیش کی ایک دوا ساز کمپنی اپنی حکومت کے ساتھ مل کر مفاہمت کی ایک یاد داشت پر دستخط کر چکی تھی۔

اب آئیے بھارت کی طرف، آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ اسٹرا ز ینیکا ویکسین ایک معاہدے کے تحت سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا بھی تیار کر رہا ہے۔ بھارت اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہاں ایک ارب خوراکیں تیار کی جائیں گی۔ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد اسے برآمد کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے بائیوٹیک نامی ادارے نے اپنی ویکسین بھی تیار کر لی ہے، اس بارے میں بعض بھارتی حلقے بے اطمینانی کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ویکسین بھی محفوظ اور موثر پائی گئی ہے۔ بھارت نے اپنے تیس کروڑ شہریوں کو ویکسین فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جس پر تیز رفتاری سے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ دنیا کے کئی دیگر ترقی پذیر اور کم وسیلہ ملک بھی تیز رفتاری سے ویکسین حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ان کی طرف دیکھئے، اور اپنے احوال پر نظر کیجیے۔ ہمارے وزیراعظم دن رات کورونا وائرس کے مقابلے میں بھارتی حکومت کی بے تدبیری کی نشاندہی کر کے، اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ بنگلہ دیش کو تو کسی شمار قطار ہی میں نہیں سمجھا جاتا، لیکن ویکسین کی تیاری اور فراہمی میں ان دونوں ممالک کی کارکردگی ہمارے ارباب اختیار کا منہ چڑا رہی ہے۔

ویکسین کے حصول میں جس سست روی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اس کی کوئی نظیر ہماری تاریخ میں تلاش نہیں کی جا سکتی۔ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کئی آزمائشوں سے سرخرو ہو کر نکلا ہے، جنگ ہو، زلزلہ ہو، سیلاب ہو یا کسی بیماری کا حملہ، پاکستانیوں کے ہاتھ پاؤں پھولے ہیں، نہ ہماری حکومتوں نے بے چارگی اور بے بسی کا اظہار کیا ہے۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی دیوانہ وار جدوجہد کی گئی، اور ہواؤں کا رخ موڑا گیا ہے۔ چند ہی سال پہلے ڈینگی نے جس طرح پاکستان کے بڑے حصے، بالخصوص پنجاب پر حملہ کیا تھا، اس وقت اس کی تباہ کاریاں دیدنی تھیں۔ ہسپتال مریضوں سے بھر رہے تھے، اور ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس آفت کا مقابلہ کس طرح کریں، اس کے علاج کا کسی کو تجربہ تھا، نہ اس مرض کی نوعیت سمجھ میں آ رہی تھی۔ خاص قسم کے مچھروں سے پھیلنے والی یہ وبا سینکڑوں افراد کو نکل گئی تھی، لیکن پنجاب میں جس طرح اس کا مقابلہ کیا گیا اس نے دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کر دی۔ بیرون ملک سے ڈاکٹر منگوائے گئے، جنہوں نے ہمارے معالجین کی رہنمائی کی، ان کے ساتھ تبادلہ خیال کے ذریعے موثر حکمت عملی بنانے میں فیصلہ کن مدد ملی۔ مچھر کی افزائش کے لیے محفوظ سمجھے جانے والی جگہوں کو صاف کیا گیا، اور ہر وہ گوشہ تلاش کیا گیا، جہاں پر مچھر جنم لیتا، اور پرورش پاتا تھا۔ مسلسل 94 روز تک وزیراعلیٰ پنجاب صبح 6 بجے اٹھ کر انتظامی افسروں اور عوامی نمائندوں کے اجلاس کی صدارت کرتے تھے۔ عام طور پر 40 افسران اعلیٰ اور اتنے ہی قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان حاضر ہوتے تھے، اور صوبے میں کیے جانے والے اقدامات اور ان کے اثرات کی تفصیل زیر بحث آتی تھی۔ قائد حزب اختلاف کے طور پر ان کا استحقاق تھا کہ وہ این سی او سی کا حصہ بنتے، لیکن انہیں حوالہ زنداں کر کے خدا معلوم کس کے جذبہ انتقام کی تسکین کی گئی۔ کس کا ماتم کیجیے، اور کس کا منہ نوچیے کہ آج کے عالی دماغ ابھی تک کورونا ویکسین کے حصول کے معاملے پر غور کرنے کی کوشش کا آغاز کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں

دو ہچکیوں میں ہو گیا بیمار غم تمام
دل دیکھتے رہے وہ جگر دیکھتے رہے

اسے کم ہمتی کہیے، بے تدبیری، سستی، یا بدذوقی، یا فیصلہ سازی کا فقدان، اس محرومی کا خمیازہ پوری قوم بھگتے گی، اور بالآخر ان کو بھگتنا پڑے گا، جو کچھ دیکھنے کو تیار ہیں، نہ سننے، نہ کرنے کو، این سی او سی نے وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے چوکسی کا مظاہرہ کیا تھا، اور داد وصول کی تھی، خدا معلوم اسے کس کی نظر لگ گئی۔ اگر آج شہباز شریف کے پاس اختیار ہوتا تو وہ چین سے لاتے یا برطانیہ سے، ویکسین بہرحال لا چکے ہوتے، بلکہ لگا چکے ہوتے، یا لگانے کا آغاز کر چکے ہوتے۔

(بشکریہ روز نامہ پاکستان)

مجیب الرحمن شامی
Latest posts by مجیب الرحمن شامی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مجیب الرحمن شامی

یہ کالم روز نامہ پاکستان کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے

mujeeb-ur-rehman-shami has 129 posts and counting.See all posts by mujeeb-ur-rehman-shami