پی ٹی ایم کی رہنما ثنا اعجاز کو بلوچستان بدر کر دیا گیا


’میں ایک خاتون تھی لیکن مجھے سیکورٹی اہلکاروں کے ایک اتنے بڑے قافلے میں بلوچستان بدر کردیا گیا جیسے کہ میں ایک دہشت گرد ہوں۔‘

یہ کہنا ہے پشتون تحفظ موومنٹ کی خاتون رہنما ثنا اعجاز کا جنھیں بلوچستان کے سرحدی شہر ژوب سے تحویل میں لینے کے بعد واپس خیبر پختونخوا کی حدود میں رہا کر دیا گیا۔ تاہم سرکاری حکام کا کہنا تھا کہ ثنا اعجاز کے بلوچستان میں داخلے پر پابندی تھی جس کے باعث ان کو ضلع بدر کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

قبائلی نوجوان کی ہلاکت سے جنم لینے والی پشتون تحفظ موومنٹ کیا اپنی مقبولیت کھو رہی ہے؟

’اگر کوئی ملک کا قانون توڑے گا تو گرفتار کیا جائے گا‘

محسن داوڑ چند گھنٹے کی حراست کے بعد رات گئے رہا

منظور پشتین کون ہیں؟

ثنا اعجاز نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے آئین کے آرٹیکل 15 کے خلاف قرار دیا ہے۔

ثنا اعجاز ژوب کیوں آئی تھیں؟

ثنا اعجاز بلوچستان کے سرحدی شہر ژوب میں ایک لائبریری کا افتتاح کرنے اور اس مناسبت سے ایک تقریب میں شرکت لیے آئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس تقریب میں شرکت کے لیے سینچر کو بذریعہ بس خیبر پختونخوا سے ژوب شہر آئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لائبریری طالبات کے لیے خواتین کی ایک تنظیم واک (اختیار) موؤمنٹ نے قائم کی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ واک موؤمنٹ کے زیر اہتمام لائبریریاں پشاور، مردان، کوئٹہ اور قلعہ سیف اللہ کے علاوہ بعض دیگر شہروں میں بھی قائم کی گئی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اتوار کی صبح ساڑھے دس بجے جب وہ لائبریری کے افتتاح کے لیے پہنچی تو وہاں اسسٹنٹ کمشنر ژوب اور ایس ایچ او ژوب پولیس لیویز اور پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ موجود تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ لائبریری کے افتتاح کے بعد اس مناسبت سے خواتین کی ایک تقریب سے خطاب کرنا تھا تھی لیکن وہ بمشکل لائبریری کے افتتاح کا فیتہ کاٹ سکیں لیکن تقریب میں ان کو شرکت نہیں کرنے دیا گیا بلکہ ان کو تحویل میں لیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ہم اس موقع پر پُرامن مزاحمت بھی نہیں کرسکے کیونکہ خواتین کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔

ثنا اعجاز نے بتایا کہ ان کے استفسار پر اسسٹنٹ کمشنر نے انھیں بتایا کہ ان کے علاوہ پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین اور بعض دیگر رہنماؤں کے بلوچستان میں داخلے پر پابندی ہے جس کے باعث ان کو بلوچستان بدر کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے داخلے پر پہلے پابندی تھی لیکن یہ ایم پی او کے تحت تین ماہ کے لیے ہوتی ہے جس کی مدت پہلے ختم ہوگئی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ تحویل میں لینے کے بعد سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری کے ہمراہ ان کو خیبر پختونخوا کی حدود میں چھوڑ دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے سیکیورٹی اہلکاروں کو کہا کہ ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں ہے اس لیے انھیں کسی مناسب مقام پر چھوڑ دیا جائے لیکن اس پر انھوں نے کہا کہ انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔

ثنا اعجاز نے کہا کہ وہ اس ملک کے شہری ہیں اور پُرامن سیاسی جدوجہد کر رہی ہیں لیکن انھیں بلوچستان بدر کر کے ان کے آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔

سرکاری حکام کا موقف کیا ہے؟

بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ حافظ عبد الباسط سے حکومت کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت بلوچستان کی جانب سے ان کے داخلے پر پابندی تھی۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے پشتون تحفظ موؤمنٹ کے بعض رہنماؤں کے داخلے پر پابندی عائد کی ہے اس لیے ضلعی انتظامیہ نے اس پابندی پر عملدرآمد کرتے ہوئے ان کو بلوچستان بدر کردیا۔

پی ٹی ایم کے کسی خاتون رہنما کی پہلی بلوچستان بدری

پشتون تحفظ موؤمنٹ کے مرد رہنماؤں کو بلوچستان بدر کیا جاتا رہا ہے لیکن ثنا اعجاز کی بلوچستان سے پشتون تحفظ موؤمنٹ کی کسی خاتون رہنما کی حیثیت سے پہلی بلوچستان بدری تھی۔

اس سے قبل پشتون تحفظ موؤمنٹ کے سربراہ منظور پشتین، علی وزیر، اور محسن داوڑ کے علاوہ دیگر رہنماؤں کو بلوچستان بدر کیا جاتا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp