احمد فراز: غزل گوئی سے جملہ بازی تک


کورونا کی دوسری لہر، شدید دھند اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے پس منظر میں کئی واقعات ایسے ہیں جو اپنی تہذیبی اہمیت کے باوجود ہماری اجتماعی گفتگو کا موضوع نہیں بن سکے۔ جیسے فیس بُک پر ایک دوست کی تازہ یاد دہانی کہ صاحبِ طرز غزل گو احمد فراز کی ولادت کو گذشتہ ہفتے نوے سال ہو گئے۔ تو کیا فراز مرحوم کو پچھلی نیم صدی کے ایک رجحان ساز اردو شاعر کا درجہ دیا جا سکتا ہے یا اُن کا کلام روایت سے معمولی انحراف کرتے ہوئے محض روحِ عصر کو تغزل میں ڈھال لینے کی کوشش تھی؟ ادبی ناقدین کے لئے اِس سوال میں بلند پایہ تخلیق کاری کا معیار وضع کرنے اور کسی فنکار کو اسی روشنی میں پرکھنے کی کئی طرح کی گنجائشیں موجود ہیں۔ پھر بھی ایک بات پہ سبھی متفق ہیں کہ ہمارے دَور کے جن چند شعرا کی غزل پہ اُن کی انفرادیت کی مہر نمایاں دکھائی دی اُس فہرست میں احمد فراز کا نام بہت اوپر ہے۔

ڈاکٹر توصیف تبسم کی خود نوشت ’بند گلی میں شام‘ قیامِ پاکستان کے بعد پشاور میں دیگر شخصیات کے علاوہ، شعر کی ترنگ میں ڈوبے ہوئے ایڈورڈز کالج کے ایک ایسے طالب علم سے شناسائی کا موقع فراہم کرتی ہے جس کا پیدائشی نام احمد شاہ اور آبائی وطن کو ہاٹ تھا۔ اُنیس سو تیس کی دہائی میں اِس بچے پر سب سے گہرا اثر تو اپنے والد آغا برق کے تخلیقی میلانات کا پڑا ہو گا، جو پشتو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ سید ضمیر جعفری نے شاعرانہ ترنگ میں کہہ دیا تھا ’الغرض کوہاٹ میں کوہاٹ ہی کوہاٹ ہے‘ وگرنہ اسی مردم خیز خطے ہی سے آبائی تعلق تو انگریزی میں بین السطور بات کرنے والے مصنف اور مقبول و معروف مقرر جسٹس ایم آر کیانی کا بھی ہے جو ایک زمانے میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے اجتماعی ضمیر کی آواز بن گئے تھے۔

تعلیم و تربیت اور پیشہ ورانہ زندگی کے باہمی تضاد کے باوجود رستم کیانی نے پہلے مارشل لاء کے دوران جو کام اپنی تخلیقی نثر کے زور پہ کیا، جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسی کے لئے فراز نے میر تقی میر کے بقول ’کیا تھا شعر کو پردہ سخن کا‘۔ اردو تقاریر کے مجموعے ’افکارِ پریشاں‘ کے ابتدائی صفحات میں ایم آر کیانی نے اپنے راتوں رات ادیب بنا دئے جانے پر روزنامہ ”نوائے وقت“ کے بانی حمید نظامی مر حوم کو خراج تحسین پیش کیا تھا، جنہوں نے ایک ابتدائی تقریر کی نوک پلک درست کر کے اسے تفصیل سے اخبار میں شائع کیا، جو جناب کیانی کے بقول اُن کی مقبولیت کا پیش خیمہ بن گئی۔ اسی طرح احمد فراز کے بارے میں بھی یہ فقرے بازی ہوتی رہی کہ مہدی حسن نے یکے بعد دیگرے دو غزلیں گا کر انہیں شہرت دوام بخشی۔ سچ تو یہ ہے کہ عوامی سطح پر گلو کاری کے توسط سے متعارف ہونے سے بہت پہلے ادبی حلقوں میں سبھی جانتے تھے کہ ایک منفرد غزل گو میدان میں آ چکا ہے۔

جن لوگوں نے احمد فراز کو قریب سے دیکھا انہیں علم ہے کہ موصوف کی شخصی انفرادیت محض شعری خیال یا اسلوب تک محدود نہیں تھی۔ اُن میں حس مزاح، حاضر جوابی اور جملے بازی کی صلاحیت بھی بے پناہ تھی، اور ساتھ ایسی انانیت جسے مطلق العنانیت کہنا چاہئے۔ 1980ء کے عشرے میں جب متنازعہ نعت کے قصہ کے بعد احمد فراز لندن کے ٹرنک بازار راولپنڈی، یعنی ساؤتھ ہال نامی ’پنجابستان‘ میں ’جلا وطنی‘ کاٹ رہے تھے تو گپ لڑانے کے لئے موصوف کا رخ دن کے اوقات میں افتخار عارف کے اردو مرکز اور شام کو بش ہاؤس میں ہمارے بی بی سی کلب یا پاکستانیوں کے کسی نہ کسی ادبی یا سیاسی اجتماع کی طرف ہوتا۔ چنانچہ اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریقن اسٹڈیز میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے ایک شائستہ اطوار مصنف نے کہا ”سمجھ میں نہیں آتا کہ میری کہانیوں کا مجموعہ سمجھیں یا انشائے لطیف کا نمونہ، اسے تاریخ کے خانے میں رکھیں یا تنقید کے خانے میں“۔ اِس پر جلا وطن شاعر کی آواز گونجی ’’اِسے تہہ خانے میں رکھیں“۔

بابا بلھے شاہ کا کہنا ہے ”منہ آئی بات نہ رہندی اے“۔ بظاہر خوش گفتار، خوش پوش اور خوش باش احمد فراز اِس معاملے میں دیدہ دلیری نہیں، ’دہن دلیری‘ کی شہرت رکھتے تھے۔ مرحوم دانشور الطاف گوہر، جن کی علمیت کا احترام چند تحفظات کے باوجود تھرڈ ورلڈ کوارٹرلی اور ساؤتھ میگزین کی ادارت سنبھالنے سے پہلے بھی تھا، لندن یونیورسٹی ہی میں ایک شام تقریر کر رہے تھے: ”مَیں زندگی میں تین شخصیات سے متاثر ہوا ہوں۔ وہ ہیں مذہبی علم میں سید ابوالاعلی مودودی، قانون میں شیخ منظور قادر اور ادب میں فیض احمد فیض“۔ ”آپ نے تینوں کے ساتھ فراڈ کیا ہے“۔ بی بی سی میں میرے سینئر ساتھی سید اطہر علی نے ہمیشہ کہا کہ یہ گولہ احمد فراز کی توپ نے داغا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اطہر صاحب کو سچ بولنے کی عادت تھی یا صرف وہ بات کہنے کی جسے وہ سچ سمجھتے ہوں۔ بہر حال مَیں موقعے کا گواہ نہیں۔

موقعے کا گواہ تو مَیں اب سے کوئی تیس سال پہلے کینیڈا کی میکگل یونیورسٹی میں بنا جہاں غالب کی یاد میں ایک بڑے سیمینار، محفل موسیقی اور مشاعرہ کی تقریبات ہو رہی تھیں۔ بس ایک ذرا سی بے احتیاطی ہو گئی اور احمد فراز کو پتا چل گیا کہ عبید صدیقی اور شاہد ملک کو جس متمول پاکستانی کنبے کے ساتھ رکھا گیا ہے اُن کے یہاں بعض ’داخلہ پالیسی اختلافات‘ کے باعث دو روز سے باقاعدہ کھانا نہیں کھایا گیا۔ اوقات نامہ اور قیام گاہ کا محل وقوع ایسا تھا کہ ہماری غذائی ضرورت کو پورا کرنے کی نوبت تیسرے دن آئی جب کانفرنس ہال سے تمام شرکاء کو براہِ راست لنچ پہ لے جایا گیا۔ یہ موبائل فون عام ہونے سے پہلے کا زمانہ تھا، اِس لئے ریستوراں میں داخل ہوتے ہی خیال آیا کہ ٹیلی فون پر برطانیہ میں بال بچوں کو اپنی خیریت کی اطلاع دے دوں۔ یہ دیکھ کر احمد فراز نے میرے میزبان سمیت سب کے سامنے زور سے کہا ’’لندن فون کر رہے ہو، بیوی کو؟‘‘ ”جی ہاں‘‘۔ بولے ”کھانا منگوانے کے لئے؟“

مَیں مکتوب الیہ کا نام نہیں لے سکتا، لیکن یہ الفاظ سن کر اُن پہ کیا گزری ہو گی، آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ اہلِ محفل نے مذکورہ مکالمہ سُن کر جو مزا لیا اُس سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ احمد فراز کا کلام اور بد کلامی دونوں ہی پر لطف ہیں۔ وجہ بہت سیدھی سی ہے، اور وہ یہ کہ اِس تخلیقی آدمی نے خود کو خانوں میں بانٹنے سے ہمیشہ گریز کیا اور جس خلوص سے شعر کہے اُسی خلوص سے لوگوں پہ فقرے بھی کسے۔ یہ بات سمجھنے کے لئے بس اتنی سی شرط ہے کہ آپ ہمارے تخلیق کار کے شعری مزاج کو اُن کے سبھی موسموں کے حوالے سے جانتے ہوں۔ فراز نے دِل و دماغ کی بے انت کیفیتوں کا یہ اشارہ کچھ سوچ کر ہی دیا تھا کہ:

کبھی فراز، نئے موسموں میں رو دینا

کبھی تلاش پرانی رفاقتیں کرنی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).