زائر حرمین(6)


ایک نکتہ جو ہم نے باہمی اتفاق رائے سے طے کیا،  وہ یہ تھا کہ ضروری نہیں تمام افراد ایک ساتھ ہوٹل سے نکلیں اور حرم میں ایک ساتھ چلیں پھریں اور عبادت کریں اور اکٹھے واپس لوٹیں۔ جب جب آسانی ہو، ایک ساتھ کر لیں گے۔ جب جب مصروفیت کی نوعیت مختلف ہو۔ جیسے کوئی فرد عمرہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور دوسرے کا ارادہ اس سے مختلف ہو تو اپنے اپنے پلان پر عمل پیرا ہوا کریں گے اور فارغ ہو جانے پر پہلے سے طے شدہ کسی مقام پر پہنچ کر اکٹھے ہو جایا کریں گے۔

شروع کے دو ایک دن یہ مقام باب نمبر بہتر رہا۔ بعد میں باب نمبر ایک سو بائیس ہو گیا کیونکہ باب نمبر ایک سو بائیس کو حال ہی میں زائرین کے لئے کھولا گیا تھا اور اس سے آگے مزید توسیعی کام جاری تھا۔ یہاں مسجد کے اندر بآسانی جگہ مل جاتی تھی اور مسجد کے باہر ایک دوسرے کو ڈھونڈنا بھی زیادہ سہل تھا۔

نماز مغرب کی امامت کرنے والے امام کی تلاوت بڑی پرکیف ہوتی۔ تلاوت سے گویا سماں باندھ دیتے تھے۔ مجھے اس سارے سفر میں سب سے زیادہ لطف خانہ کعبہ میں ادا کی جانے والی مغرب کی نمازوں میں آیا۔ امام صاحب تلاوت شروع کرتے تو دل چاہتا یہ تلاوت چلتی ہی جائے، چلتی ہی جائے۔ کبھی ختم نہ ہو اور ہم یوں ہی حالت نماز میں کھڑے سنتے رہیں، سنتے رہیں۔

مختلف اوقات میں ہم نے مسجد الحرام کی مختلف فلورز پر نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ بیسمنٹ، گراؤنڈ فلور، فرسٹ فلور، سیکنڈ فلور، چھت۔ حتیٰ کہ حرم سے باہر بھی۔

حرم سے باہر نماز پڑھنے کے دو عملی فائدے تھے۔ ایک تو تاخیر سے پہنچنے کے باوجود جماعت میں شامل ہو سکتے تھے۔ اس کے برعکس حرمین کے اندورنی دروازے جماعت کھڑی ہونے سے قریباً آدھا گھنٹہ قبل بند کر دیے جاتے تھے کیونکہ اندر گنجائش پوری ہو چکی ہوتی تھی۔ دوم یہ کہ فروری میں گرمی اپنے عروج پر نہیں ہوتی اور سینٹرل کولنگ سسٹم کی وجہ سے اندر کا درجہ حرارت بچوں اور بزرگوں کے لیے زیادہ کم ہوتا ہے جس کے سبب انہیں فلو اور بخار کی شکایت ہونے لگتی ہے۔

جبکہ حرم کے باہر درجہ حرارت معتدل ہوتا ہے اور نمازیوں کی صفوں کے پیچھے بے فکری سے بھاگتے دوڑتے، خوشی سے تمتماتے چہروں والے بچوں کی رونق اضافی خوبی۔ باوصف اس کے کہ ہمارے ساتھ اپنے بچے بھی تھے، جب جب موقع ملتا وہاں موجود بچوں سے مسکراہٹوں اور اشاروں کی زبان میں علیک سلیک ضرور کرتے۔ کبھی کبھی گفتگو ٹافیوں کی زبان میں بھی ہو جاتی۔

زبان سے یاد آیا۔ میرا خیال تھا کہ انگریزی زبان آتی ہو تو دنیا کے کسی بھی ملک جا کر اپنا مدعا باآسانی کہا اور سمجھایا جا سکتا ہے اور مقابل کا نکتہ سمجھا جا سکتا ہے لیکن یہ کیا۔ یہاں موجود افراد کی اکثریت انگریزی زبان سے نابلد تھی۔ اب آیا اصل امتحان! انگریزی کی شد بد سب سے زیادہ مصر سے تعلق رکھنے والے افراد کو تھی۔ دیگر ممالک سے آنے والے افراد کو کم کم ہی انگریزی زبان آتی تھی۔ بولنے اور سمجھنے دونوں معاملات میں۔

مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسے حل نہ کیا جا سکے ، سو اس مسئلے کا حل بھی موجود تھا۔ جہاں جہاں انگریزی سے نابلد مقابل کو اپنی بات سمجھانے کی ضرورت پیش آئی، وہاں وہاں ان عربی الفاظ کو جڑ دیا جو ہمیں معلوم ہوتے تھے، اور جہاں عربی الفاظ معلوم نہ ہوتے تھے، وہاں اردو کے الفاظ فٹ کرنے کی کوشش کر کے دیکھتے ، چونکہ اردو ایک لشکری زبان ہے جس میں الفاظ کی ایک کثیر تعداد دوسری زبانوں سے مستعار لی گئی ہے، اس لیے کبھی کبھی یہ نسخہ بھی چل جاتا۔

اس سلسلے میں سب سے محظوظ کن واقعہ یہ ہوا کہ بچوں اور امی کو کھانسی ہوئی تو ادویات بھی فوری افاقہ دینے میں ناکام نظر آئیں۔ ہم نے سوچا ٹوٹکا کر کے دیکھا جائے۔ شہد اور دارچینی والا۔ شہد تو ڈپارٹمنٹل سٹور سے باآسانی مل گیا۔ شہد کی انگریزی اور عربی دونوں آتی تھی اور دکاندار کو بھی دونوں زبانیں آتیں تھیں۔ دارچینی کی باری آئی تو اس کی بس انگریزی ہی آتی تھی لیکن وہ دکاندار کو سمجھ نہیں آتی تھی۔ دارچینی کے کھانوں میں استعمال کی مدد سے بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ ہماری مطلوبہ شے کون سی ہے لیکن بے سود۔ بالآخر بھابھی نے دکان میں پاکستانی مسالوں کا ایک ڈبہ تلاش کر اس پر بنے دارچینی کے عکس کو بطور نمونہ پیش کرتے ہوئے اس کی دستیابی کی بابت دریافت کیا تو معلوم ہوا یہ جنس وہاں موجود نہیں۔ سٹور سے نکل کر اور ہوٹل پہنچ کر کتنی ہی دیر ہم دونوں اس بات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).