پی آئی اے کی نجکاری ناگزیر


قومی ائرلائن پی آئی اے کے ایک بوئنگ 777 طیارے 200 ایل آر کا ملائیشیا کے کوالالمپور ائرپورٹ پر عین اس وقت ضبط ہوجانا جب وہ پاکستان روانگی کے لیے تیار تھا، اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ پی آئی اے کی نالائقی سے ملک کی جگ ہنسائی وتیرہ ہی بنتا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے مئی 2020 ء میں کراچی ائرپورٹ کے قریب قو می ایئرلائن کی پرواز 320 کا پائلٹ کی غفلت کی وجہ سے عمارت سے ٹکرا جانا جس میں دو مسافروں کے سوا جہاز میں سوار تمام 97 افراد جاں بحق ہو گئے تھے، بھی انوکھا لیکن افسوسناک سانحہ تھا اور قومی ائرلائن میں ڈسپلن کے فقدان کی واضح نشاندہی کرتا ہے لیکن وزیر ہوا بازی غلام سرور نے معاملے سے توجہ ہٹانے کے لیے نیا شوشہ چھوڑ دیا کہ پی آئی اے کے 262 پائلٹوں کی کثیر تعداد جعلی لائسنسوں کی حامل ہے۔

نتیجتاً یورپ اور امریکہ کے علاوہ دیگر کئی ملکوں کی ایئرلائنز نے بھی پاکستانی پائلٹوں پر پابندیاں لگا دیں۔ کووڈ 19 کی بنا پر ویسے بھی کئی روٹس بند ہیں اور بڑی بڑی ایئرلائنز کو اپنے آپریشنز میں کٹوتی کرنا پڑ رہی ہے اور سینکڑوں کی تعداد میں جہاز اڑانے کے بجائے سٹور کر دیے گئے ہیں۔ ایئر بس 380 جیسے دیو ہیکل جہاز جنہیں ایک دہائی قبل بڑے اہتمام کے ساتھ لانچ کیا گیا تھا، پارک کر دیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے اس پس منظر میں پی آئی اے کی مالی مشکلات قابل فہم ہیں لیکن جس طرح سے قومی ایئرلائن کی مینجمنٹ کی مس مینجمنٹ سے ہم دنیا میں تماشا بن رہے ہیں، اپنی مثال آپ ہے۔

پی آئی اے کا یہ طیارہ ملائیشین عدالت کے حکم پر ضبط کیا گیا کیونکہ یہ طیارہ ایئرلائن کی ملکیت نہیں بلکہ آئرلینڈ کی دنیا کی طیارے لیز کرنے والی سب سے بڑی لیزنگ کمپنی سے لیز پر حاصل کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدم ادائیگی کی بنا پر اس سے ملتا جلتا ایک اور طیارہ جو اسی کمپنی سے لیز پر لیا گیا تھا وہ کسی بین الاقوامی روٹ پر نہ ہونے کی بنا پر ضبط ہونے سے بچ گیا۔ پی آئی اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لیگل ٹیم ملائیشین عدالت میں اس معاملے کی پیروی کر رہی ہے، ایسے موقع پر جہاں دیگر فضائی کمپنیاں اپنے جہاز ریٹائر کر رہی ہیں وہاں مالی طور پر قلاش قومی ایئرلائن کو مزید جہاز لیز پر لینے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔

اس کے علاوہ سفارتی سطح پر بھی اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ ایک خالصتاً کاروباری معاملہ ہے جو تب تک حل نہیں ہوگا جب تک واجب الادا رقم ادا نہیں کر دی جاتی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی پروفیشنل چیف ایگزیکٹو کے علم میں ہونا چاہیے تھا کہ انٹرنیشنل ڈیفالٹر ہونے کے باعث ایسے طیارے کو بین الاقوامی فلائٹ پر بھیجنا چاہیے تھا؟ طیارہ ضبط ہو نے سے مسافروں کو جو تکلیف ہوئی اور پاکستان کی ساکھ پر سوال اٹھے وہ الگ معاملہ ہے۔

غالباً پاک فضائیہ سے ریٹائر ہونے والے ائر مارشل ارشد ملک کو جو پی آئی اے کے سی ای او ہیں کو ان باریکیوں کا علم ہی نہیں تھا۔ ملائیشیا والے اس واقعہ کے دوررس محرکات ہو سکتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کچھ نہ کچھ رقم ادا کر کے لیزنگ کمپنی سے مہلت مانگ لی جاتی لیکن ڈیفالٹ ہونے کے بعد یہ بھی خطرہ ہے کہ دیگر لیزنگ کمپنیوں نے بھی اپنی رقوم کی واپسی کا مطالبہ کر دیا تو پی آئی اے کو انتہائی گمبھیر صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے دراصل ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایسے عہدوں پر جہاں پروفیشنل افراد کو معاملات چلانے چاہئیں، اناڑی اور سفارشی براجمان ہیں۔

ہوابازی کی وزارت ہو یا اس کے انچارج وزیر غلام سرور خان، سول ایوی ایشن اتھارٹی جس کا کئی برس تک کوئی سربراہ ہی نہیں تھا اور خود پی آئی اے کی موجودہ مینجمنٹ اس اہل نہیں ہے کہ وہ بحران میں مبتلا قومی ائرلائن کے معاملات درست کر سکتے۔ ایک وہ دور تھا کہ قومی ائرلائن کا اعلیٰ معیار قوم کے لیے باعث فخر ہوتا تھا۔ دنیا کی سب سے جدید اور بڑی ائر لائن ایمرٹس کا آغاز بھی پی آئی اے کے ماہرین نے ہی کیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قومی ائرلائن پاکستان ریلویز بن گئی۔

ہر حکومت نے اس میں سیاسی بھرتیاں کیں اور ادارے میں اتنے ملازمین بھرتی ہو گئے کہ ہر طیارے یا سیٹ کے تناسب سے پی آئی اے کا شمار ان ائرلائنوں میں ہونے لگا جہاں ملازمین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ مختلف حکومتوں نے اس کی نج کاری کی بھی نیم دلانہ کوششیں کیں لیکن مضبوط یونین اور ایسوسی ایشنز جنہیں مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے ایسا نہ ہونے دیا۔ میاں نواز شریف کے دور میں جب ایسی کوششیں ہوئیں تو عمران خان پی آئی اے کے ہڑتالی مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے خود پی آئی اے کے ہیڈ کوارٹرز پہنچ گئے اس قسم کی تجاویز بھی دی گئیں کہ پی آئی اے کی جگہ ایک نئی ائر لائن کا ڈھانچہ بنایا جائے لیکن یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھ سکی۔

پی آئی اے کے پاس ایسے روٹس تھے جہاں اسے دوسری ایئرلائنز کے ساتھ مقابلہ یا مسابقت نہیں کرنا پڑتی تھی۔ جب سے اوپن سکائی پالیسی کا نفاذ ہوا ہے مختلف روٹس پر مسافروں کو اٹھانے کے لیے مقابلہ خاصا سخت ہے اور بدقسمتی سے پی آئی اے اپنے دگرگوں مالی حالات کی بنا پر سرخرو نہیں ہو پاتی لہذا جب تک اسے نجی شعبے میں نہیں دیا جاتا ایئرلائن کے حالات بہتر نہیں ہو پائیں گے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).