کشمیر پر عالمی خاموشی ٹوٹ رہی


ہفتہ رفتہ میں برطانوی پارلیمنٹ میں کشمیر پر ہونے والی بحث نے دل خوش کر دیا۔ گزشتہ برس کورونا کی مہلک وبا کے پھوٹنے کے بعد کشمیر عالمی منظر نامہ سے لگ بھگ غائب ہی ہو گیا تھا۔ دنیا کو اپنی جان کے لالے ایسے پڑے کہ جلسے جلوس اور ملاقاتوں کا سلسلہ ہی رک گیا، بالخصوص مغربی ممالک میں پارلیمنٹ کے اجلاس یا پھر عوامی مظاہرہ کا تصور ہی باقی نہ رہا۔ عالمی اداروں اور حکومتوں کے نزدیک انسانی حقوق کے تحفظ سے زیادہ انسانی جانیں بچانا ضروری تھا۔

کشمیر کی بازگشت عالمی ایوانوں میں گونجنا بند ہوئی تو مقبوضہ کشمیر کے اندر حالات ابتر سے ابتر ہوتے چلے گئے۔ دوسری طرف کشمیر کے اندر کرونا کی یلغار نے شہریوں کی زندگی مزید اجیرن کردی۔ کورونا اور لاک ڈاؤن سے جو بچا اسے فکر معاش نے کہیں کا نہ چھوڑا۔ معاشی سرگرمیاں معطل ہیں۔ پینتیس سے چالیس لاکھ کشمیری سیب کی پیداوار اور فروخت کے بیوپار سے وابستہ ہیں۔ یہ کاروبار بری طرح متاثر ہوا۔ سیاحت کا حال نہ پوچھیں۔

معاشی ماہرین کا اندازہ ہے کہ 17,818,18 بھارتی کروڑ کا مالی نقصان کشمیریوں کو اس ڈیڑھ سال میں برداشت کرنا پڑا۔ بھولنا نہیں کہ بھارتی روپے کی قدر پاکستانی روپے سے دوگنا ہے۔ کورونا، لاک ڈاؤن اور سست رفتار انٹرنیٹ کی بدولت طلبہ کا نہ صرف تعلیمی نقصان ہوا بلکہ وہ دنیا کے دیگر طلبہ کے برعکس انٹرنیٹ سے بھی استفادہ نہ کرسکے۔ صحافیوں کے لیے بھی گزشتہ ڈیڑھ برس اذیت ناک رہا۔ آزادانہ رپورٹنگ اور تجزیہ کاری کے لیے حالات سازگار نہیں رہے۔

کوئی صحافی سرکار کی مرضی کے برعکس خبر شائع کرتا ہے تو اسے پولیس اسٹیشن حاضری دینا ہوتی ہے۔ انورادھا بھسین کے انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کو زبردستی بند کر دیا گیا۔ دہلی کے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دفتر کو تالہ لگادیا گیا۔ حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والوں کو بھی حراست میں لیا جاتا ہے۔ بی جے پی حکومت کی کشمیر پالیسی کا مرکزی نکتہ طاقت، جبر اور شہریوں کو خوف زدہ کرنے کے سوا کچھ اور نہیں۔ چنانچہ سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا گیا۔

ہرطرف سیکورٹی فورسز کی چوکیاں بنائی گئی۔ شوپیاں اور سری نگر میں ماورا حراست قتل کے واقعات رونما ہوئے۔ پولیس کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ شوپیاں میں ہونے والے مقابلے میں ہلاک ہونے والے تین نوجوان بے گناہ تھے۔ انہیں محض انعام کی خاطر سیکورٹی فورسز نے شہید کیا۔ سری نگر میں چند ہفتے قبل ہونے والے جعلی مقابلے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ سیاسی سرگرمیوں اور اظہار رائے کی آزادی نہ ہونے کی بدولت نوجوان کی قابل ذکر تعداد زیرزمین سرگرمیوں کا حصہ بن گئی۔

بھارتی دفاعی ذرائع نے تسلیم کیا کہ اسی فی صد عسکریت پسند مقامی ہیں۔ بھارتی حکمرانوں کے اندازوں کے برعکس عسکری کارروائیوں میں کمی آئی اور نہ حالات میں بہتری۔ لائن آف کنٹرول پر بھی اس عرصے میں غیر معمولی فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ دفاعی ذرائع کا دعوی ہے کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں میں لائن آف کنٹرول پر اتنی فائرنگ نہیں ہوئی جتنی محض گزشتہ ایک برس کے دوران ہوئی۔ چند ہفتے قبل ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسل کے الیکشن کرائے گئے۔

امید تھی کہ کشمیری الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے اور بی جے پی تمام ضلعوں میں اپنے نمائندے منتخب کرالے گی۔ بھارت نواز کشمیری جماعتوں نے باہمی مشاورت سے متفقہ امیدوار میدان میں اتارے۔ چنانچہ مسلم اکثریتی علاقوں میں بی جے پی محض تین نشستیں حاصل کر سکی۔ سیاسی سطح پر پائے جانے والے خلا کو پر کرنے کا یہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ اس پس منظر میں برطانوی پارلیمنٹ میں کشمیر پر ہونے والی بحث نے یہ ثابت کیا کہ مسئلہ کشمیر کو زیادہ دیر تک سرد خانے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔

برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے انسانی حقوق کے حوالے سے بی جے پی حکومت پر کھل نکتہ چینی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی پہلو سے کشمیر کے حالات ایسے نہیں جن پر خاموشی اختیار کی جاسکے۔ چند ایک ارکان پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، یورپی یونین کے انسانی حقوق کمیشن اور دہلی میں تعینات برطانوی ہائی کمیشن کے ارکان کو لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف رسائی فراہم کی جائے تاکہ وہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے بارے میں آزادی کے ساتھ معلومات جمع کرسکیں۔

امریکہ میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں کشمیر کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح یورپی یونین سمیت کئی ایک ادارے اب دوبارہ کشمیر کی طرف متوجہ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ برطانوی سیاستدانوں کے لیے مسئلہ کشمیر آج بھی خطے کے امن اور استحکام کی کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ان کی تاریخی ذمہ داری بھی ہے۔ ان کی حکومت کی عدم توجہی کی بدولت یہ مسئلہ سات دہائیاں قبل پیدا ہوا اور ابھی تک اس خطے کے لیے ایک رستا ہوا ناسور بنا ہوا ہے۔

علاوہ ازیں کشمیری تارکین وطن کی ایک بہت بڑی تعداد برطانیہ میں آباد ہے جو بہت سرگرم ہیں اور اپنے وطن کے حالات کے بارے میں فکر مند بھی۔ وہ ان ارکان پارلیمنٹ کو کشمیر کے حالات سے مسلسل باخبر رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ کشمیر پر امریکہ میں جو بائیڈن کی لیڈرشپ میں ایک بار پھر انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا مسئلہ اجاگر کیا جائے گا۔ بائیڈن نے اپنی صدارتی مہم کے دوران کشمیر کے تنازعہ کے حل کا وعدہ بھی کیا تھا۔

علاوہ ازیں بھارت نژاد امریکیوں نے جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بعد ازاں امریکی میڈیا نے دکھا یا کہ کیپیٹل ہل کے سامنے ہونے والے مظاہروں میں بھارتی شہری بھی شریک تھے اور وہاں بھارت کا جھنڈا بھی لہرا رہا تھا۔ بی جے پی کے حامیوں نے امریکہ کے الیکشن میں کھل کر ٹرمپ کی حمایت اور مدد کی۔ غالب امکان ہے کہ ری پبلکن پارٹی کو اس کا احساس ہوگا اور وہ کشمیر کے حوالے سے نسبتاً بہتر طرزعمل کا مظاہرہ کرے گی۔

یہ پیش نظر رہے کہ ری پبلکن روایتی طور پر انسانی حقوق کے معاملات پر زیادہ سرگرم اور جانبدار کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی پالیسی میں ہونے والی تبدیلیاں بعد میں آتی ہیں اس کے آثار لندن کے ایوانوں میں پہلے نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ کورونا کی ویکسین کی آمد سے حالات میں اگر سدھار آتا ہے تو پھر عالمی سطح پر کشمیر پر لابنگ کا دروازہ کھل جائے گا لیکن جب تک اس مسئلہ کو سرد خانے میں جانے سے بچانا ہے۔ عالمی برادری کے ذہن میں اس کی اہمیت اور حساسیت کو تازہ رہنا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ 92۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood