صدر ٹرمپ اور عرب ممالک کی دنیا سے بے رغبتی


ایک سال قبل 9 جنوری 2020 کو ”ہم سب“ پر خاکسار کا ایک کالم ”ایران امریکہ تصادم : امریکہ کے ہاتھ میں فرقہ واریت کا پتہ“ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اس میں خاکسار نے عرض کی تھی کہ صدر ٹرمپ کی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ کسی طرح سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کو ایران سے اتنا ڈرایا کیا جائے کہ وہ اس خوف کی نفسیات سے مجبور ہو کر امریکہ اور اسرائیل سے قریب سے قریب تر ہوتے جائیں۔

وزیر خارجہ پومپیو اور امریکی سیاستدان عرب ممالک کو ہر وقت یہی ڈراوے دیتے رہتے ہیں کہ ایران شیعہ دنیا کو تمہارے خلاف جمع کر رہا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں اور امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک سے اربوں ڈالر سے خریدتے رہیں۔

جیسا کہ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ گزشتہ سال کے دوران متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ یہ سب کچھ اس سال کے دوران ہوا جب فلسطینیوں کے حقوق پر سب سے زیادہ فراخدلی سے دست درازی کی جا رہی تھی۔ اگر یہ کہانی کا ڈراپ سین ہوتا تو یہی کہا جا سکتا تھا کہ ہر ملک کا حق ہے کہ وہ جس ملک کو چاہے تسلیم کرے اور جس کو چاہے تسلیم نہ کرے۔

لیکن جیسا کہ میں نے مذکورہ کالم میں عرض کی تھی، اس پالیسی کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ عرب ممالک اپنی جمع پونجی بڑی طاقتوں کے قدموں پر نچھاور کر کے ارب ہا ارب ڈالر کا اسلحہ خریدیں گے۔ اور یہ اسلحہ کسی جہاد میں استعمال نہیں ہو گا بلکہ مختلف مسلمان ممالک پر ہی اس اسلحہ کی مشق کی جائے گی۔ ان ممالک کی کمائی امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی تجوریوں میں جمع ہو جائے گی اور مسلمان ممالک کے حصے میں صرف لاشیں آئیں گی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ خریدو فروخت خوش اسلوبی سے جاری تھی کہ ان ممالک کو صدر ٹرمپ کی ناگہانی شکست کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔

اس وقت امریکہ میں صدر ٹرمپ کا کیمپ افراتفری کا شکار ہے۔ کووڈ کی وبا کی تباہی اپنے عروج میں ہے۔ ویکسینیشن کا کام شروع ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی اشتعال انگیزی کے بعد ان کے حامیوں نے امریکی کانگرس کے اجلاس پر حملہ کر دیا۔ اس سے جو بحران پیدا ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور اب کانگرس میں صدر ٹرمپ کے مواخذے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس پر ہونے والی بحث سے علیحدہ بحران پیدا ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم ان کے دفاع کی تیاری کر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کو اتنی بھی فرصت نہیں کہ وہ اقتدار منتقل کرنے کے سلسلہ میں جو بائیڈن سے ملاقات کر لیں۔ ان کے اور ان کی اپنی پارٹی کے کئی نمایاں لیڈروں کے درمیان اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔

لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ صدر ٹرمپ اپنے فرائض سے بالکل غافل ہوں۔ وہ اب بھی اپنے اہم فرائض ادا کر رہے ہیں۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ ان حالات وہ صدر ٹرمپ جو اہم فرائض ادا کر رہے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دور صدارت کے آخری دنوں میں زیادہ سے زیادہ اسلحہ سعودی عرب اور دوسرے عرب اتحادیوں کو فروخت کر دیں تاکہ ان کے بعد انہیں یتیمی کی سختیاں برداشت نہ کرنی پڑیں۔

چنانچہ گزشتہ چند دنوں میں صرف سعودی عرب کو 290 ملین ڈالر کے بم فروخت کیے گئے ہیں۔ یہ بم GBU 39 ساخت کے ہیں۔ اور ان کی خوبی یہ ہے کہ چھوٹے سائز کے ہونے کی وجہ سے ان کی زیادہ تعداد کو ایک بمبار جہاز پر لے جا کر دشمن [یعنی یمن کے لوگوں ] پر گرایا جا سکتا ہے۔ لیزر ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ نشانے پر جا کر لگتے ہیں۔ اسی طرح انہی دنوں میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے چار ارب ڈالر کے اپاچی ہیلی کاپٹر کویت کو فروخت کیے ہیں۔ ان ہیلی کاپٹروں کو افغانستان اور عراق کی جنگوں میں بھی استعمال کیا گیا تھا اور امریکہ نے یہی ہیلی کاپٹر بھارت کو بھی فروخت کیے تھے۔ اسی طرح مصر اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کو بھی اسلحہ کی فروخت کی منظوری دی گئی ہے۔

اس کے ساتھ نو منتخب صدر جو بائیڈن کی ٹیم کی طرف سے یہ شکوہ سامنے آ رہا ہے کہ پینٹاگون کئی اہم امور سے انہیں غافل رکھ رہا ہے۔ امریکہ وہ واحد ملک نہیں جو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ برطانیہ اپنی اسلحہ کی برآمدات کا 60 فیصد مشرق وسطیٰ ٰ کے ممالک کو فروخت کر رہا ہے۔ 2018 میں میں یہ شرح 80 فیصد تھی۔ اس سے مسلمان ممالک اور برطانیہ کے درمیان گرمجوشی کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

[گارڈین 30 دسمبر 2020 ]

ان آخری دنوں میں یہ افراتفری کی فروخت اتنی زیادہ بڑھی کہ ایک ممبر کانگرس گریگری میک نے پندرہ جنوری کو کانگرس کی خارجہ کمیٹی میں اس کے خلاف قرارداد پیش کی ہے۔ لیکن یہ گریگری میک کی کوتاہ بینی ہے۔ اس سودے بازی سے ایک تو یہ فائدہ ہو گا کہ ان عرب ممالک کے خزانے خالی ہو کر ان کی جمع پونجی حفاظت سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تجوریوں میں پہنچ کر دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گی۔ ورنہ یہ خدشہ تھا کہ یہ عرب ممالک کہیں دنیا داری کی طرف مائل نہ ہو جائیں۔

یہ جدید بم اور یہ تباہ کن ہتھیار کس کے خلاف استعمال ہوں گے؟ یہ سب اسلحہ یمن کی جنگ میں وہاں کے لوگوں کو مقام شہادت پر فائز کرنے کے کام آئے گا۔ اس سے ایران کے امداد یافتہ حوثی گروہ کو کچلا جائے گا۔ یہ خدشہ بھی نہیں رہے گا کہ یمن کے لوگ دنیا کی طرف مائل ہو جائیں اور یہ دھڑکا بھی نہیں رہے گا کہ کہیں عرب ممالک کے بم ختم نہ ہو جائیں جس کے نتیجے میں یہ جنگ دم توڑ دے۔

یہ یاد کرانا ضروری ہے گزشتہ پانچ سالوں میں ایک لاکھ سے زائد افراد اس جنگ کا شکار ہو کر موت کے منہ میں پہنچ چکے ہیں۔ چالیس لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ لاکھوں افراد فاقے کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ رائگاں نہیں۔ اس سے اسلحہ کی صنعت کو بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ اور مغربی ممالک میں بہت سے لوگوں کو روزگار مل رہا ہے۔

جب یمن اچھی طرح تباہ ہو جائے گا تو پھر خواہ ایران اور اس کے اتحادی ہوں یا سعودی عرب یا اس کے اتحادی ہوں، دونوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی پاداش میں اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اس وقت تک یہ ملک اتنے مفلوک الحال ہو چکے ہوں گے کہ سر جھکا کر سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔ اور پھر سب سیانے سر جوڑ کر سوچیں گے کہ ہم نے یہ جنگ شروع کیوں کی تھی؟

ایران امریکہ تصادم : امریکہ کے ہاتھ میں فرقہ واریت کا پتہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).