آپ نے گھبرانا نہیں ہے


کرپشن کے خاتمے اور میرٹ کے نام پر ووٹ لے کر حکومت میں آنے والی جماعت تحریک انصاف کی نا اہلی دن بدن ظاہر ہو رہی ہے، حکومت کے آغاز پر اپوزیشن نے نا اہل کہنا شروع کیا تو غصہ آتا تھا کہ ابھی تو حکومت نے کام کا آغاز کیا ہے اور اپوزیشن نے نااہل کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا ہے مگر جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اپوزیشن کا دیا ہوا ”نااہل“ کا خطاب سچا ثابت ہو رہا ہے۔

تحریک انصاف نے چو ر چور کا اتنا شور مچایا کہ عوام نے ان کی باتوں پر یقین کر کے ”سب چوروں“ کو مسترد کر دیا اور تحریک انصاف کے ڈبے ووٹوں سے بھر دیے جس سے ہمارے کپتان کا وزیراعظم بننے کا 22 سالہ خواب حقیقت بن گیا، اس خواب کی اتنی بھیانک تعبیر ہو گی، یہ سوچا بھی نہ تھا۔

دن بدن مہنگائی اتنی بڑھ رہی ہے کہ ماضی میں اس کی مثال ہی نہیں ملتی، اتنی مہنگائی تو آمریت کے ادوار میں بھی نہیں ہوئی تھی، کہتے کہ آمریت بہت ظالم ہوتی ہے مگر ہمارے آمر اتنے ظالم نہیں تھے جتنے موجودہ حکمران ہیں جن کو عوام کے دکھ و کرب کا رتی بھر بھی احساس نہیں، غربت کی لکیر کے نیچے افراد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے، متوسط طبقہ بھی اب غربت کی لکیر کے نیچے آ گیا ہے، روزمرہ کی اشیاء کی خریداری ان کے بس میں نہیں رہی۔

حکومت کے آتے ہی سب سے پہلے ڈالر کو پر لگنا شروع ہوئے اور اس نے اتنی اونچی اڑان بھری کہ وہ ساتویں آسمان سے بھی اوپر چلا گیا، اس دوران حکومت صرف زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہ کر سکی، عوام کو بھاشن دیا جانے لگا کہ ”آپ نے گھبرانا نہیں“، جن کی دو وقت کی روٹی پوری نہ ہو رہی ہو ان سے کہا جائے کہ گھبرانا نہیں، اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے۔

ڈالر کو جواز بنا کر ہمارے منافع خوروں نے اپنے خزانے تو بھر لیے مگر عوام کی جیبیں خالی کر دیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر سکی، اب حالت یہ ہے کہ کوئی کاروبار بچا ہے اور نہ ہی ملازمتیں، عوام جائیں تو کہاں جائیں، گڈ گورننس کی حالت یہ ہے کہ گزشتہ دو ماہ سے ڈالر تقریباً 9 روپے سستا ہو گیا ہے مگر اشیائے خورونوش کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، ایک روز قبل گھی اور کوکنگ آئل 40 روپے فی کلو تک مہنگا کر دیا گیا، چینی کی قیمت پھر بڑھنے لگ گئی ہے، آٹے کی حالت ایسی ہے کہ جسے ادویہ کے اوپر لکھا جاتا ہے کہ بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں، اسی طرح آٹے کے بارے میں شاید حکومت کی پالیسی یہ ہے اسے عوام کی پہنچ سے دور رکھا جائے۔

تحریک انصاف کی حکومت کو اڑھائی سال ہو گئے ہیں، کسی بھی حکومت کے لئے اتنا عرصہ بہت ہوتا ہے، عوامی حکومتیں ایک ڈیڑھ سال بعد ڈلیور کرنا شروع کر دیتی ہے مگر ہمارے مہان کپتان آئے روز کسی نجی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے سکول ماسٹر کی طرح عوام کو سمجھانے بیٹھ جاتے ہیں اور ایسی ایسی دلیلیں دیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، شاید ان کے پاس عوام کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔

چند روز قبل کپتان نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا جس میں کمال بات کہہ دی، فرماتے ہیں کہ ’’میں پاکستان کا واحد سیاستدان ہوں جو جی ایچ کیو کی نرسری میں نہیں پلا‘‘، حضور شاید جی ایچ کیو کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ نرسریوں میں پودے لگانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ بعد میں جب وہ تناور درخت بن جاتے ہیں تو وہ اپنی جڑیں انہی نرسریوں کی طرف بڑھانے لگتے ہیں۔

2018ء کے الیکشن میں شاید کسی نے سوچا ہو کہ نرسریوں کے پودے وہ نتائج نہیں دیتے جن کے مطابق ان کی پرورش کی جاتی ہے، اس لیے نرسری والوں نے اس بار پلا ہوا درخت ہی اکھاڑ کر اپنے باغ میں لگانے کا فیصلہ کیا، جدید دور میں جدید مشینری آ چکی ہے اور ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر چلتی رہتی ہیں کہ تناور درخت کو اٹھا کر باآسانی دوسری جگہ منتقل کر دیا جاتا ہے۔

اسی فارمولے کے تحت حالیہ الیکشن میں یہ ’درخت‘ اٹھا کر پلانٹ کر دیا گیا ۔ اب یہ عوام کی قسمت کہ درخت ہی کیکر کا نکلا، کیکر پر کانٹے ہی کانٹے ہوتے ہیں، اس کی گھنی چھاؤں ہوتی ہے نہ ہی کوئی پھل لگتا ہے، اس لیے عوام بس یہ سبق یاد رکھے ”آپ نے گھبرانا نہیں ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).