معاشرہ میں بڑھتے زیادتی کے واقعات اور ہمارا کردار


زینب قتل کیس نے پہلی مرتبہ اندر تک توڑ کے رکھ دیا۔ ایک خوف کی لہر میرے پورے وجود میں دوڑ گئی اپنی بچیوں کے چہرے میں مجھے زینب نظر آنے لگی۔ وہ درد کچھ کم ہوا تو یکے بعد دیگرے زینب جیسے واقعات نظروں سے گزرتے رہے۔ جن میں کبھی تو لڑکا یا لڑکی کی قید بھی نہیں تھی۔ صرف درندگی تھی۔

اپنے بچپن میں مجھے جب قاری صاحب پڑھانے کے لئے لگوائے گئے تو امی کا ایک ایسا لیکچر سننے کو ملا جو میری کم عمری کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آیا لیکن چونکہ امی کا انداز ایسا ڈرا دینے والا تھا کہ جو وہ سمجھانا چاہ رہیں تھیں وہ بات دماغ میں بیٹھ گئی۔

اس وقت بھی زیادہ ترمولوی اور قاری صاحبان شک کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اس کے بعد اڑوس پڑوس کے بابے اوباش لڑکے دکان دار سب ہی کے بارے میں ایک ایک بات کہ کے ان سے دور رہنے کی تلقین کردی جاتی تھی۔

سوشل میڈیا کادور دور تک وجود نا ہونے کی وجہ سے اس طرح کی درندگی کے واقعات منظر عام پہ نہیں آپاتے تھے لیکن آج کی نسبت ان کی تعداد کم تھی۔

آج اگر سوشل میڈیا اور الیکٹرانک کا دور ہے تو اس کا قطعی یہ مطلب نہی کہ بے راہ روی بڑھنے کی ساری ذمہ داری اس پر ڈال دی جائے۔

اصل تربیت گاہ ماں کی گود اور پھر اس کے بعد خاندان ہوتاہے۔ ہم ہر زیادتی کے کیس کو سننے کے بعد مجرم کو سخت سے سخت سزا دینے کا اسرار کرتے ہیں۔

اب تو ایسے قانون بھی بن چکے ہیں جس میں مجرم کو ایسی سزا دی جائے گی کہ وہ آئندہ اس گھناؤنے عمل کا مرتکب نہیں ہوگا۔

لیکن جناب ایسے قوانین یا سزائیں ان واقعات کو روک سکیں؟

نہیں۔ کیونکہ سزا کی نوبت آنے سے پہلے ہمیں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے کی ضرورت ہے۔ اور جب تک ہم بحیثت ماں باپ بہن بھائی اس ذمہ داری کو نہیں نبھائے گے یہ واقعات نہیں رکیں گے۔

کیا ماں باپ کو اپنے معصوم اور ناسمجھ بچو کو کسی اور کی ذمہ داری پہ چھوڑ کر کسی عبادت یا تہوار کے لئے جانا چاہیے؟

کیا ہمیں بچے بچیوں کو ان کے حساس اعضاء کے بارے میں سمجھانا نہیں چاہیے کیا ان کے اندر اتنا اعتماد پیدا کرنا ہمارا فرض نہیں کہ کوئی اسے ہاتھ لگائے تو وہ فوراً ہمیں آ کر بتائیں۔

محلے کی دکان سے گھر کا چھوڑا موٹا سامان منگوانا یا گلی میدانوں میں کھلا کھیلنے کے لئے چھوڑ دینے سے شکاریوں کو کھلے عام ہم خود دعوت دے رہیں ہیں۔ چچا ماموں یا کوئی بھی خاندانی رشتہ کتنا قریب کیوں نا ہو اپنے بچے کو رات اپنے گھر گزارنی کی عادت ڈالنا ہمارا ہی فرض ہے۔ اپنے بغیر کہیں بھی بچے کو چھوڑ دینا شیطان کودعوت دینے کے مترادف ہے۔

یہ می ٹو کے ٹرینڈ ہو یا کسی غریب کا واویلا یہ برائی ہر طبقے میں پائی جاتی ہے۔ امیر ماڑرن گھرانوں سے لے کر غریب طبقہ اس برائی سے متاثر ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کہیں کہیں تو اس برائی نے سگے رشتے پامال کردیے ہیں۔

جان لیجئیے اس برائی کا خاتمہ شاید ہی ہوپائے لیکن اس میں کمی لائی جا سکتی ہے اور وہ مجھے یا آپ کو ہی لے کر آنا ہے اپنے اپنے گھر وں سے۔

ہمیں اپنی تربیت کا حصہ بنانا پڑے گا کہ ہم اپنے بچے کو جنسی ہراساں ہونے کی نوبت ہی نا لانے دے اس میں اتنا اعتماد پیدا ہو کہ کسی کے بہلانے پھسلانے میں آ کر اس کے ساتھ نا چل پڑے۔ اس کے لئے اسے ایک محفوظ ماحول دیناہوگا اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کا احترام کرنا ہوگا تاکہ ایک ٹافی یا ایک چاکلیٹ کی لالچ میں وہ کسی کے ساتھ نا ہو لے۔

پوش گھرانوں میں اپنے بچے نوکروں کے حوالے کرنے سے حتی المکان بچنے کی کوشش کریں۔ ادب کرنا سکھائیں اپنی مصروفیات میں اپنے بچو سے بیزاری انہیں اکیلا کردیتی ہے اور بآسانی اس برائی کا شکار بن جاتے ہیں۔

سزا اپنی جگہ اہم ہے لیکن یہ اس برائی کو کبھی جڑ سے ختم نہی کر سکتی اگر ہم اپنے معاشرے سے اس برائی کوختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اجتماعی کوشش کرنا پڑے گی اور مجھے امید ہے کہ ہم اپنی کوششوں سے معصوم کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی روند جانے بچا سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).