برطانیہ نے سکول میں بچوں کے قتل عام کے مسئلے سے کیسے نمٹا


یہ مارچ 1996 کا واقعہ ہے۔ اسلحہ سے لیس تینتالیس سالہ ایک گورا اسکاٹ لینڈ کے ایک پرائمری سکول میں داخل ہوا اور چھوٹے بچوں کی ایک کلاس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اس نے چند منٹوں میں کلاس کے سولہ بچوں اور بچیوں کو ان کی ٹیچر سمیت قتل کر دیا۔ باقی ماندہ پندرہ بچے اور بچیاں زخمی ہوئے۔ آخری گولی اس نے اپنے سر میں ماری اور خودکشی کر لی۔ اس غیرمعمولی واقعہ نے برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ قتل و غارت کے ایسے واقعات وہاں روٹین نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں تو قتل و غارت کے ایسے واقعات روٹین ہی بن گئے ہیں اس لیے حکومت کے لیے ایسے واقعات اور ان میں قتل ہونے والے لوگ محض ’نمبر‘ ہی ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں جب یہ واقعہ ہو گیا تو انہوں نے ایسے اقدامات کیے تاکہ یہ واقعات برطانیہ میں روٹین نہ بن جائیں۔

یہ واقعہ ہونے کے ایک ہفتے کے بعد برطانوی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے اس واقعے کی پبلک انکوائری کرنے کے لیے کہا۔ اس کے نتیجے میں لارڈ کولن پر مشتمل ایک ٹریبونل بنایا گیا اور اسے انکوائری کا کام سونپا گیا۔

انکوائری ٹریبونل کی ذمہ داری یہ دیکھنا تھا کہ وہ کون سے حالات و واقعات تھے کہ جن کی وجہ سے ایسا بھیانک واقعہ پیش آیا ہے۔ اسی انکوائری کی بنیاد پر ٹریبونل نے حکومت کو سفارشات بھی پیش کرنا تھیں کہ کیا کیا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔ ٹریبونل کو قانون کے مطابق تمام اختیارات سونپے گئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹریبونل کے لیے رپورٹ پیش کرنے کی کوئی ڈیڈ لائن مقرر نہیں کی گئی تھی، کہا گیا کہ انہیں جتنا وقت چاہیے ہے وہ لیں اور رپورٹ پیش کریں۔

ٹریبونل نے چھ ماہ مسلسل انکوائری کی۔ اس دوران ٹریبونل نے حملہ آور شخص کی پوری زندگی کا جائزہ لیا۔ تعلیمی ادارے جہاں سے اس نے پڑھا تھا، کوئی کام یا کاروبار جو اس نے کیا تھا، کہاں فیل ہوا کہاں کامیاب ہوا، کوئی پولیس ریکارڈ تھا کہ نہیں۔ دوست، دشمن، پڑوسی اور جاننے والے اس کے بارے میں کیا جانتے ہیں اور کیا کہتے ہیں سب اکٹھا کیا گیا۔

دو سو سے زیادہ لوگ ٹریبونل کے سامنے بطور گواہ پیش ہوئے۔ بیسیوں دستاویزات کا مطالعہ کیا گیا۔ حملہ آور کے سکول ریکارڈ سے اس کے ہیڈ ماسٹر کی جانب سے ایک غیر معمولی لیٹر بھی سامنے آیا جس میں ہیڈماسٹر صاحب نے سکول کے دور میں ہی اسے ’خطرناک‘ قرار دے دیا تھا۔ اسلحہ تک اس کی رسائی کیسے ممکن ہوئی اس بات بہت تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ برطانیہ میں ذاتی اسلحہ رکھنے کے قوانین کا بہت تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ سکولوں کے حفاظتی انتظامات کے پروٹوکول اور طریقوں کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ ان تمام معلومات کا جائزہ متعلقہ ایکسپرٹ لے رہے تھے۔ اس میں نفسیات دان، قانون دان اور انتظامی امور کے ماہرین خاص طور پر شامل تھے۔

چھ مہینے کی مسلسل محنت کے بعد ٹریبونل نے اپنی رپورٹ پیش کی جو کہ پہلے دن سے ہی ایک پبلک ڈاکومنٹ تھی۔ اس میں دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کیا گیا۔ ذاتی اسلحہ رکھنے کے قوانین میں ترامیم کی گئیں۔ سکولوں کی سیکیورٹی بہتر کی گئی۔ متاثرہ فیملیز اور سکول کے لیے بھی بہت کچھ کیا گیا۔ مقصد یہ تھا غم سے نڈھال فیملیز، ان کی کمیونٹی اور کو کچھ سہارا ملے اور یہ کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ ہم بھلا اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔

مچھ میں ہزارہ لوگوں کے قتل عام کے واقعہ پر ہمیں بھی ایک غیر جانبدار اور پاور فل ٹریبونل بنانا چاہیے۔ ایک لمبی انکوائری کا آغاز کرنا چاہیے۔ یہ واقعہ ایک دن میں نہیں ہو گیا۔ اس کے لیے ہمیں اپنے پچھلے پچاس سالوں کا ٹھیک ٹھیک تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم بھی اگر ایک ایسا پاور فل ٹریبونل بنائیں دیں تو بہتری کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس ٹریبونل کو انکوائری کے دوران ہزاروں تجاوزات دیکھنا ہوں گی اور اس سے بھی کہیں زیادہ لوگوں کی گواہیاں سننا ہوں گی۔

اب ڈرنے کی کوئی بات نہیں کسی کے لیے بھی۔ سب کچھ ہی کھلا راز ہے۔ ہمارے چیف آف آرمی سٹاف بھی اس معاملے پر کہہ چکے ہیں کہ ہم وہ کاٹ رہے ہیں جو ہم نے سنہ اسی کی دہائی میں بویا تھا۔ ہمارے وزیراعظم صاحب بھی ان معاملات پر بہت کھل کر بات کر چکے ہیں کہ دہشت گردی کہاں سے آئی ہے اور فرقہ واریت کہاں سے آئی ہے۔ وزیراعظم صاحب تو اس مسئلے کو ہر پہلو سے جانتے ہیں۔ طالبان بھی ان پر اتنا اعتماد کرتے تھے کہ حکومت سے مذاکرات کے لیے بھی طالبان نے انہیں اپنا نمائندہ مقرر کرنا چاہا تھا اور اب وہ خود وزیراعظم یعنی گورنمنٹ کے ہیڈ ہیں۔

اسی طرح وزیراعظم صاحب کے اپنے کہنے کے مطابق فرقہ واریت پھیلانے والی بڑی تنظیموں نے بھی ان سے رابطہ کیا تھا کہ وہ مخالف فرقہ سے ان کی صلح کرا دیں۔ جس کا مطلب ہے کہ فرقہ واریت کے مسئلے کو بھی وہ خوب جانتے ہیں۔ اس طرح جوڈیشری کے سینئر لوگ بھی بہت دفعہ اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے ایک انکوائری ٹریبونل بنانا اور سچائی کو ریکارڈ کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ یہ ٹریبونل انکوائری کرے کہ وہ کون سے حالات و واقعات تھے جو ہمیں یہاں تک لے آئے کہ پاکستانی ہی پاکستانیوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ پہلے ہم یہ دیکھیں گے تو ہمیں پتا چل سکے گا کہ اب ہم کیا کریں کہ ایسے واقعات ہونا بند ہو جائیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik