ٹرمپ کا مستقبل سینیٹ کے رحم وکرم پر


امریکہ کے ایوان زیریں ایوان نمائندگان نے صدر ٹرمپ کا ”بغاوت پر اکسانے“ کے الزام کے تحت مواخذہ کر دیا ہے۔ اب یہ معاملہ وہاں کے ایوان بالا سینیٹ میں بھیجا جائے گا۔

ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں جن کا ایوان نمائندگان نے دو بار مواخذہ کیا ہے۔ فروری 2020 میں تاہم سینیٹ نے پہلے مواخذے میں ان کو بری کر دیا تھا۔ ابھی واضح نہیں کہ کیا اس بار بھی وہ سینیٹ میں بری ہو جائیں گے یا عوام کو بغاوت اور تشدد پر اکسانے کے مجرم ٹھہرائے اور عہدے سے ہٹادیے جائیں گے۔

ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے ابھی تک سینیٹ کو مواخذہ کی قرارداد نہیں بھیجی۔ وہ شاید چند روز بعد یہ بھیجیں گی۔ اس دوران ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے سینیٹ میں مواخذے پر بات کرنے کے لیے مقرر نو ارکان مزید ایسا مواد جمع کر رہے ہیں جس سے ٹرمپ کے بچنے کا امکان ختم ہو جائے۔

امریکی آئین کی دفعہ دو کے تحت کیا جانے والا مواخذہ آئین کی کڑی سزاؤں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک مضبوط ہتھیار ہے جو کانگریس کو حکومتی عہدیداروں، بشمول صدر امریکہ، کی بداطواری (misconduct) اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر جوابدہی کے لئے دیا گیا ہے۔ اب تک ٹرمپ کے علاوہ صرف دو صدور کا ہی مواخذہ کیا گیا ہے یعنی 1868 میں اینڈریو جانسن اور 1998 میں بل کلنٹن کا لیکن ان دونوں کو بھی بالآخر بری کر دیا گیا اور انہوں نے اپنے عہدوں کی میعادیں پوری کر لی تھیں۔

ایوان نمائندگان یہ دیکھتا ہے کہ کیا واقعی صدر نے ”غداری، رشوت ستانی، یا دیگر بڑے جرائم اور بداعمالیوں“ کا ارتکاب کیا ہے یا نہیں اور اس پر غور ہوتا ہے کہ کیا صدر کا مواخذہ کیا جائے یا نہیں۔ گویا اس کا فیصلہ کسی فوجداری مقدمے میں فرد جرم کے مترادف ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سینیٹ میں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ صدر کو عہدے سے ہٹایا جائے یا نہیں۔ اس کے لیے سینیٹ کے ارکان عدالت یا منصفین کمیٹی (jury) کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ وہاں باقاعدہ مقدمہ چلتا ہے، مقدمہ پیش کرنے والے ارکان کو شہادتیں اور ثبوت دینے ہوتے ہیں اور صدر کو خود یا وکیل کے ذریعے صفائی کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔

ایوان نمائندگان میں صدر کے مواخذہ کے لیے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے جبکہ سینیٹ میں صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کو ایوان نمائندگان میں اکثریت حاصل ہے جبکہ پانچ جنوری کو جارجیا میں اس کے دو سینیٹروں کے انتخاب کے بعد اب اسے سینیٹ میں بھی ایک ووٹ کی اکثریت مل گئی ہے۔ سینیٹ میں مواخذے کی کامیابی کے لیے اسے سترہ ریپبلکن ارکان کی حمایت درکار ہے تاہم تاحال صرف جان میکین، مٹ رومنی، مورکووسکی، بین سسی، پیٹرک جے ٹومی اور سوسن کولن نے ہی ٹرمپ کے خلاف ووٹ دینے کا اشارہ دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کیا ٹرمپ کے خلاف مطلوبہ تعداد میسر آ جائے گی یا وہ اس الزام سے بری ہوجائیں گے۔ اس سے پہلے ایوان نمائندگان میں دس ریپبلکن ارکان نے ٹرمپ کے مواخذے کی حمایت کی تھی۔ واضح رہے سینیٹر رومنی پچھلے سال سینیٹ میں ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ ڈالنے والے واحد ریپبلیکن تھے۔

اگر سینیٹ دوتہائی اکثریت سے ٹرمپ کو قصوروار مان لیتی اور انہیں صدر کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ دیتی ہے تو یہ ایک رسمی اقدام ہوگا کیوں کہ تب تک وہ عہدہ پہلے ہی چھوڑ چکے ہوں گے۔ البتہ سینیٹ انہیں دوبارہ منصب سنبھالنے کے لیے نا اہل قرار دے سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ صدر ٹرمپ، جو ابھی سے 2024 کے صدارتی انتخاب لڑنے اور واپسی کا عزم ظاہر کر رہے ہیں، کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ تاہم سینیٹ نے ابھی تک کسی بھی امریکی صدر کو مستقبل کے لیے عہدے سے نا اہل نہیں کیا ہے۔ اگر سینیٹ اس بار ایسا کرتی ہے تو یہ معاملہ بالآخر سپریم کورٹ میں مقدمے پر منتج ہونے کا امکان ہے۔

یاد رہے سینیٹ کی جانب سے سزا کے طور پر ہٹائے جانے کے بعد بھی ٹرمپ خود بخود آئندہ عوامی عہدے کے لیے نا اہل نہیں ہو جائے گا لیکن آئین اس کے بعد سینیٹ کو یہ اختیار بھی دیتا ہے کہ وہ اسے ”ریاستہائے متحدہ کے تحت کسی بھی اعزاز، اعتماد یا منافع کے عہدے پر فائز ہونے“ کے لیے نا اہل قرار دے۔ اس مقصد کے لئے سینیٹرز کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف ڈیموکریٹس خوش ہو جائیں گے بلکہ یہ ان ریپبلکن رہنماؤں کے لئے بھی خوشگوار نتیجہ ہوگا جو یا خود مستقبل میں صدارت کے متمنی ہیں یا سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کو پارٹی سے نکال باہر کرنے کے لیے یہ ایک اچا موقع ہے۔ ریپبلکن رہنما سینیٹر مچ میک کونل بھی مبینہ طور پر موخر الذکر خیال کے حامی ہیں۔

کئی عشروں سے نافذ قواعد کے تحت قواعد کے مطابق جب ایوان نمائندگان سینیٹ کو مواخذہ کا فیصلہ بھیج دے تو سینیٹ اسے فوری طور پر اٹھانے کا پابند ہے کیونکہ مواخذہ سب سے اہم معاملہ ہے۔ پھر سینیٹ دیگر قانون سازی پر غور نہیں کر سکتا۔

ڈیموکریٹس چاہتے تھے کہ سینیٹ بیس جنوری سے پہلے ٹرمپ کو ہٹانے کا فیصلہ کرے مگر سینیٹ کے ری پبلکن اکثریتی رہنما مچ میکونل نہ مانے۔ اب مسٹر بائیڈن نے مسٹر میک کونل سے پوچھا ہے کہ کیا اس قاعدے کو تبدیل کر کے سینیٹ کو بیک وقت باری باری جو بائیڈن کی کابینہ اور مسٹر ٹرمپ کے مواخذہ کی اجازت مل سکتی ہے۔ میک کونل نے ابھی جواب نہیں دیا لیکن امکان یہ ہے کہ جنوری کے آخر میں نومنتخب صدر جو بائیڈن کی کابینہ اور 1.9 کھرب ڈالر کی مالیاتی بحالی پیکج اور صدر ٹرمپ کی برخواستگی دونوں پر ایک ساتھ وقفے وقفے سے بحث کی جائے گی۔

لیکن اگر قواعد کی وجہ سے ایسا بیک وقت ممکن نہ ہوا تو پھر ہاؤس ڈیموکریٹس مواخذہ کا آرٹیکل سینیٹ کو تب بھیجیں گے جب پہلے سینیٹ بائیڈن کابینہ کی تصدیق مکمل کرے گی۔

بہرحال صدر ٹرمپ پر سینیٹ میں مقدمہ بیس جنوری کے بعد ہی چل سکے گا۔ تب تک وہ وائٹ ہاؤس سے رخصت ہوچکے ہوں گے۔ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کیوں کہ اب تک کسی بھی امریکی صدر کا مواخذہ عہدے کی میعاد ختم ہونے کے بعد نہیں ہوا۔ البتہ دوسرے سرکاری عہدے داروں پر ان کی میعاد عہدہ کے بعد بھی مقدمہ چلایا گیا ہے۔

ٹرمپ کے کٹر حامیوں کے سوا اکثر امریکی سمجھتے ہیں ٹرمپ کا کانگریس کے خلاف قوم کو بغاوت پر اکسانا اور صدر کی حیثیت سے اپنے اختیارات کے غلط استعمال کی کوششیں اس قدر سنگین جرائم ہیں کہ ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ٹرمپ کو سزا نہ ملی تو آئندہ دوسرے صدور بھی ایسا کرنے پر جری ہو جائیں گے۔ ٹرمپ کے خلاف اقدام تھوڑا لیٹ ہو گیا ہے لیکن دیر آید درست آید۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).