نامور ہدایت کار، مصنف اور فلمساز حسن عسکری


گزشتہ سے پیوستہ ہفتے ایور نیو فلم اسٹوڈیو لاہور میں مجھے فلمی دنیا کی ایک ایسی شخصیت سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جس سے فلم نگری کے تمام چھوٹے بڑے بہت پیار کرتے ہیں۔ یہ مسکراتے چہرے والے ہر دل عزیز فلم ڈائریکٹر حسن عسکری ہیں۔ میں عسکری بھائی سے جب بھی ملا ہمیشہ خوش دلی سے ملتے ہیں۔ عام طور پر کسی نامور فلمی شخصیت پر لکھنے کا ایک فارمولا ہوتا ہے۔ ان کی ابتدا، فلموں میں آنا، کچھ یادگار واقعات اور ان کی فلموں کی تفصیل۔ مگر اس ملاقات کے احوال کے لئے تو عسکری بھائی کی صرف گفتگو ہی کافی ہے۔ اس کے بعد کسی اور چیزکی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اس نشست کی خاص خاص باتیں پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش ہیں :

” فلم میں آپ خود گئے یا حالات لے گئے؟“ ۔

” میں ایسا انٹرویو پہلی مرتبہ دے رہا ہوں! ورنہ میں نے کبھی اپنی زندگی کے یہ ورق کبھی نہیں کھولے! میں 23 جنوری 1945 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوا۔ میرے والد اس وقت پولیس انسپیکٹر تھے۔ ابھی میں نے ’ماں‘ بھی کہنا نہیں شروع کیا تھا، بولنا تو بہت دور کی بات ہے کہ میرے والد نے بعض وجوہات کی بنا پر وہ نوکری چھوڑ دی۔ اور ہمارا خاندان دوبارہ لاہور آ گیا۔ ویسے ہم لوگ لاہور ہی کے رہنے والے تھے۔ میرا ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق ہے۔ تجارت یا زراعت کے بجائے تعلیم ہی ہمارے خاندان کا پیشہ رہی۔ میرے اجداد نے ہمدان، ایران سے ہندوستان ہجرت کی۔ اس کے بعد پٹنا اور اودھ میں آباد ہو گئے۔ میں نے سنا ہے کہ یہ بہت پڑھے لکھے اور لائق لوگ تھے لہٰذا انہیں دربار میں اچھے عہدے بھی مل گئے۔ اور ان کی زندگی بہت اچھی

گزری۔ ان سب لوگوں کا تخلیقی کاموں سے تعلق تھا۔ یہ بزرگ فارسی گو تھے۔ ہمارے گھروں میں نسلوں تک فارسی بولی جاتی رہی۔ میری والدہ کا تعلق پنجاب سے تھا لہٰذا ہمارے ہاں اس کا چلن نہ ہو سکا۔ میری تائی اماں اور میرے تمام چچا فارسی بولتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ فارسی ہمارے گھروں سے غائب ہوتی چلی گئی۔ چچا انتقال کر گئے پھر اس کے بعد گھر میں صرف اردو اور پنجابی زبانیں ہی رہ گئیں ”۔

” 1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے نوابین کے ساتھ جو سلوک کیا تو میرے بزرگ جو راجوں، مہاراجوں اور نوابین کے دربار سے متعلق تھے اپنی جان بچا کر نکلے اور کشمیر کے راستے لاہور میں بس گئے۔ ان میں میرے دادا بھی تھے جو اپنے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ آئے۔ 1926 میں میرے دادا سول سروس کا امتحان پاس کر کے کمشنر لاہور ہوئے۔ وہ

ڈ سٹرکٹ مجسٹریٹ اور سیشن جج بھی رہے۔ میرے والد اور 6 چچا سب ہی بڑے بڑے اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے ”۔

” میرے والد جب نوکر ی چھوڑ کر سیالکوٹ سے لاہور منتقل ہوئے تو میں نے اپنی زندگی ’غربت کی لکیر‘ سے نیچے گزاری۔ زندگی میں محرومیاں اور تلخیاں تھیں۔ میرے والد بڑے خود دار تھے۔ انہوں نے نے اپنے کسی بھائی یا رشتہ دار سے کوئی مدد نہیں مانگی اور ہم غربت کی چکی میں پستے رہے۔ اس طرح سے میرا بچپن گزرا۔ ان محرومیوں نے میرے احساس کو جلا بخشی۔ میرا رجحان تھوڑا بہت پڑھنے لکھنے کی جانب تھا۔ قدرتی طور پر مجھے ایک ایسا ماحول میسر آ گیا جس کا میں ذکر کرنا چاہوں گا۔ ہمارے معاشی حالات نے ہمیں خاندان سے کاٹ کر رکھ دیا۔ ہم ا ن کی شادی مرگ میں بھی شریک نہیں ہو سکتے تھے۔ ان سب نے مل جل کر میرے والد صاحب کو ٹی بی کا مریض بنا دیا۔ بھوک کی ڈائن میرے والد کے سینے پر بیٹھ گئی اور یوں وقت گزرتا رہا۔ وہ اپنی وقت ارادی سے زندہ رہے۔ وہ فورمین کرسچن کالج المعروف ’ایف سی کالج‘ لاہور کے گریجوئٹ تھے۔ میں نے انہیں خون کی الٹیاں بھی کرتے دیکھا اس طرح وہ بھوک کی ڈائن میرے سینے پر بھی بیٹھ گئی ”۔

” ہم جس چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے وہاں پڑوس میں انگریزی کے ایک پروفیسر یوسف جمال انصاری رہنے کے لئے آئے۔ اس زمانے میں پک اپ اور لوڈر نہیں تھے صرف ریڑھے ہوتے تھے۔ ان کے گھر کا جو ساز و سامان آیا اس میں اتنی زیادہ کتابیں آئیں کہ یوں لگا کہ ان کے گھر میں اور کوئی سامان ہی نہیں ہے! میں اس وقت ساتویں آٹھویں میں پڑھتا تھا۔ ان کے بچوں سے میری دوستی ہو گئی۔ انصاری صاحب خود بڑے اچھے شاعر تھے۔ ان کے بچوں سے دوستی کی وجہ سے ان کے ہاں آنا جانا شروع ہو گیا۔

ان کے ہاں اعزازی طور پر ’نقوش‘ ، ’ادبی دنیا‘ ، ’لیل و نہار‘ آتے تھے۔ مجھے ان کا مطالعہ کرنے کا موقع مل جاتا اور انصاری صاحب سے بھی گفتگو ہو جاتی۔ وہ اہل زبان تھے اور اردو بولنے کا لہجہ بہت اچھا تھا۔ ان کی بدولت میرا لہجہ بھی اچھا ہو گیا کیوں کہ وہ میری اصلاح فرما دیا کرتے تھے۔ بہت شفیق تھے اور مجھے اپنے بچوں کی طرح ہی سمجھتے۔ میں اپنے فارغ وقت میں وہاں سے کبھی ’لیل و نہار‘ لے آتا کبھی ’ادبی دنیا‘ تو کبھی ’نقوش‘ ۔ آٹھویں جماعت میں جب بچے ’تعلیم و تربیت۔‘ اور ’نونہال‘ پڑھتے تھے میں یہ ادبی رسائل پڑھتا۔ یہ ماحول مجھے خوش قسمتی سے میسر آیا“ ۔

” آج کل تو خیر کتاب پڑھنے کا رواج ہی نہیں رہا۔ ہمارے زمانے میں ’آنہ‘ لائیبریری ہوتی تھی۔ پان سگریٹ والے نے ساٹھ ستر کتابیں رکھی ہوتی تھیں۔ ان میں نسیم حجازی صاحب کی تاریخی کتابیں، دت بھارتی اور گلشن نندا کے رومانوی ناول، ابن صفی کی جاسوسی کہانیاں اور سعادت حسین منٹو کے افسانے بھی مل جاتے تھے۔ تو ان ادبی رسائل میں کرشن چندر، قاسمی صاحب، عصمت چغتائی اور دیگر بڑے بڑے لکھنے والوں کی کہانیاں پڑھ کر مجھے یوں لگتا جیسے یہ میری اپنی کہانیاں ہیں۔ یہ لکھنے والے ترقی پسند ادب کی تحریک کے ہی لوگ تھے۔ ان سب کو پڑھ کر لگتا کہ گویا یہ تمام کے تمام کردار میرے سامنے بکھرے ہوئے ہیں اور میری ہی بات کر رہے ہیں“ ۔

” پتا نہیں کیسے اور کیوں میرے دل میں ایک خیال سما گیا کہ میں ایسا لکھ سکتا ہوں! حالاں کہ وہ بہت عظیم اور قد آور لوگ تھے اور وہاں تک پہنچنا بہت ہی مشکل تھا۔ لیکن میرے دل میں یہ سودا سما گیا کہ میں یہ کر سکتا ہوں۔ میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ میں لکھتا رہا۔ شروع میں جو بھی لکھتا اس کا چھوٹے سے چھوٹا پرزہ بھی میری والدہ سنبھال کے رکھ لیتی تھیں۔ لیکن میں ’دریافت‘ نہ ہو سکا۔ میرے دوستوں کا ادب کی طرف اتنا رجحان نہیں تھا جتنا مجھے ادبی رسائل پڑھنے، اچھی اچھی غزلیات اور شعراء کا کلام، بڑے مصنفین کے افسانے اور ناول پڑھنے سے ہو گیا۔

میرے دوست کھیل کود اور پتنگ بازی میں دلچسپی لیتے اگر کوئی پڑھنے کا شوق تھا تو وہ بہت محدو د تھا۔ یوں میں اپنے دوستوں سے بہت آگے نکل گیا۔ میں نے اسی دوران میٹرک بھی کر لیا۔ میں ایف ایس سی کر رہا تھا جب کہ میرا رجحان کہانیوں، شاعری، افسانوں اور ادب کی طرف تھا۔ ریاضیات، کیمسٹری اور فزکس وغیرہ مجھے بہت مشکل لگے۔ بڑی مشکلوں سے ایف ایس سی کیا۔ جب کہ والد مجھے ڈاکٹر دیکھنا چاہتے تھے وہ بھی اس تنگ دستی کے عالم میں۔

میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ میں نے والد صاحب سے کہہ دیا کہ میں سائنس کے مضامین میں نہیں چل سکتا البتہ آرٹس میں بات بن سکتی ہے۔ زبردستی بی ایس سی کر نے کی کوشش میں آگے نہیں چل پاؤں گا۔ جب تک میں ایف ایس سی تک پہنچا تو میرے رشتہ دار لڑکے اچھے عہدوں پر کام کر رہے تھے کیوں کہ وہ مجھ سے عمر میں بڑے تھے۔ میر ے تایا زاد اور چچا زاد خود شادی شدہ زندگی میں داخل ہو چکے تھے۔ کوئی فوج میں چلا گیا تو کسی نے سی ایس ایس کر کے بڑے عہدے حاصل کر لئے۔ والد صاحب مان گئے۔ پھر میں نے آرٹس کے ساتھ گریجوئیشن کر لی۔ میرے مضامین معاشیات اور سیاسیات تھے۔ وہ میرے لئے آسان تھا۔ میرا ایک سال ایف ایس سی کی وجہ سے ضائع ہو گیا“ ۔

” میں ان بچوں میں سے ہوں جو اپنے حالات، عدم مساوات، معاشی ناہمواری، رشتے اور حقوق کی پامالی اور گرد و پیش دیکھ کر بالغ ہونے سے پہلے ’بالغ نظر‘ ہو جاتے ہیں۔ مجھے وہ جنوں اور کوہ قاف کی پریوں والی طلسماتی کہانیاں اچھی نہیں لگتی تھیں۔ میں ان خوابوں کی دنیا میں نہیں رہتا تھا۔ میرا سامنا تو حقیقت سے تھا اور حقیقت ہی میرے اندر رچ بس گئی۔ لکھ تو رہا ہی تھا لیکن ابھی تک بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کیسا لکھ رہا ہوں!“ ۔

” میٹرک کے بعد فلم دیکھنا بھی ایک مشغلہ بن گیا۔ فلم میری واحد تفریح تھی اور اس کا ادب سے بھی ایک تعلق تھا جو اب نہیں رہا۔ افسوس! کہ ہم تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن فلم اور تفریح سے ادب بالکل رخصت کر دیا گیا ہے۔ اس زمانے میں اپنے عہد کے جتنے پرفارمنگ آرٹس کے بڑے لوگ تھے ان سب نے اظہار کے لئے فلم سے رجوع کیا۔ ان میں شاعر، ادیب، افسانہ اور ناول نگار سب ہی شامل تھے۔ جیسے خواجہ احمد عباس، سیف الدین سیفؔ، فیض احمد فیضؔ، احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی، میاں شاہد لطیف، راجکپور، وجاہت چنگیزی وغیرہ! یہ سب بڑے لوگ تھے۔ سب ہی نے فلم کی طرف رجوع کیا اور فلم میں بڑا نام کمایا۔ اور فلم کو بھی بڑی اعلیٰ سطح کی فلم بنایا“ ۔

۔ ”جب ان کی فلمیں دیکھیں تو میں بھی بہت متاثر ہوا۔ جیسے فلم“ ہم لوگ ”( 1951 ) ۔ اس میں سب ترقی پسند لوگ تھے جیسے بلراج سہانی، ضیاء سرحدی وغیرہ۔ انہوں نے بھی سماج کے المیے کو جیسا دیکھا ویسا پیش کر دیا۔ غریب کس طرح پس رہا ہے۔ اس کو اس کا جائز حق تک نہیں ملتا۔ تو یہ ساری باتیں میرے ذہن میں پلتی رہیں اور میرے لکھنے کا شوق جاری رہا۔ پھر جیسا کہ میں نے بتایا کہ ہمارے معاشی حالات اچھے نہیں تھے لہٰذا میں نے ’ایف ایس سی‘ کے دوران ہی سوچا کہ فلم کی کہانی لکھی جائے تا کہ اس سے کچھ پیسے آئیں۔ وہ 17 یا 18 سال کی ناپختگی ہی تھی۔ تب میں نے فلم اسٹوڈیو میں جانا شروع کیا کہ معلوم کروں کہ فلم کی کہانی کیسے لکھی جاتی ہے۔ یہ 1962 کی بات ہے“ ۔

” فلم اسٹوڈیوز میں کبھی اسکرپٹ پڑھنے کا موقع بھی مل جاتا۔ دس بارہ دن گھر پرگزارتا اور پھر دوبارہ اسٹوڈیو آ جاتا۔ یوں گھر اور اسٹوڈیو کے درمیان میں نے 1966 میں گریجویشن کر لیا۔ میں باقاعدہ فلمی دنیا سے اپنا ناتا نہ جوڑ سکا۔ بعد میں جتنے بھی لوگ میرے ہم عصر بنے جن کے ساتھ میں نے بحیثیت ڈائریکٹر کام کیا میں نے ان کے قالین بھی اٹھائے۔ سیٹ پر صوفے بھی اٹھاتا رہا۔ سیکھنے کی غرض سے کہ فلم کیا ہے؟ کس طرح سے لکھی جاتی ہے۔

یہ میرا فلم کا ابتدائی دور تھا۔ اس میں میرے والد مجھ سے بہت نالاں تھے۔ اسٹوڈیو میں آنے جانے کے لئے میری والدہ بہانہ بنا دیتی تھیں کہ میں اپنے نانا کے ہاں گیا ہوں تو کبھی ماموں کی طرف۔ اس طرح میں اپنے شوق کو پورا کر لیتا تھا۔ میرے فلم اسٹوڈیو میں جانے سے والد یوں ناراض ہوتے تھے کہ میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ کہا کرتے کہ یہ نہیں پڑھے گا تو باقی بچے بھی نہیں پڑھیں گے۔ تعلیم ہی تو ہمارا سب کچھ ہے!“ ۔

” تو اس طرح سے وقت گزرتا رہا۔ بہت ہی ابتدائی معلومات ملنا شروع ہوئیں کہ فلم کی کہانی کس طرح سے لکھی جاتی ہے۔ یہ کہ مختلف منظر ایک کہانی کا ’جز‘ ہیں۔ اور کس طرح سین کی تقسیم ہوتی ہے۔ اور ان میں کن چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے“ ۔

” جب میں نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا تو وہاں ایک ادبی نشست ہوتی تھی۔ ہمارا ادبی مجلہ ’فاران‘ تھا۔ کالج میں مشاعرے بھی ہوتے تھے۔ میں با قاعدگی سے ان میں شرکت کرتا۔ پھر میرے دوستوں کو علم ہوا کہ تھوڑا بہت لکھتا بھی ہوں تو انہوں نے اساتذہ سے ذکر کیا۔ کہ یہ نیا طالب علم تیسرے سال میں داخل ہوا ہے اسے بھی اپنی ’ینگ رائٹرز اسو سی ایشن‘ کی بزم میں شامل کر لیں۔ اس میں ینگ رائٹرز کے ساتھ ساتھ سجاد باقر رضوی جیسے ناقد، ایرک سپرن، امین مغل، مبارک حیدر اور سراج صاحب ہوتے تھے۔ اس بزم میں گریجوایشن اور ماسٹرز کرنے والے شامل ہوتے تھے۔ کالج میں ایم اے انگریزی کی کلاسیں بھی ہوتی تھیں۔ یہ ایک بہت بڑی ادبی محفل اور مجلس تھی“ ۔

” میرا خود بھی دل چاہتا تھا کہ میں بھی اس بزم کا فعال رکن بنوں۔ اسی لئے میں بزم کے تمام معاملات میں پیش پیش رہتا۔ لیکن اپنی اس دبی ہوئی خواہش کا کسی سے اظہار نہیں کیا تھا۔ مجھے بھی کہا گیا کہ برخوردار آپ لکھتے ہیں تو آپ بھی کچھ پڑھیں! میں نے اپنا ایک آدھ افسانہ وہاں پڑھ ڈالا۔ مگر جناب! وہ افسانہ کیا پڑھنا تھا کہ وہاں کالج میں ایک شور مچ گیا کہ یہ کیا لڑکا دریافت ہوا ہے۔ یہ کیسا رائٹر ہے! میری بہت زیادہ پذیرائی ہوئی۔ اس سے بھی میرے شوق کو مہمیز لگی کہ میں فلم میں کہانی لکھ سکتا ہوں“ ۔

” اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کا فلم میں آنے کا اولین مقصد فلم کی کہانی لکھنا تھا نہ کہ ہدایتکاری کے شعبے میں آنا؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” جی ہاں! میرا بنیادی شوق فلم کی کہانی لکھنا ہی تھا۔ میں کالج کی اس نشست میں ’دریافت‘ ہوا۔ پھر اسی ادبی مجلے

’ فاران‘ کے اردو حصے کا ایڈیٹر بھی بن گیا اور اپنا تو ’طوطی‘ بولنے لگا۔ ہماری مجالس میں بڑے بڑے ناقد اور کالم نگار بھی آتے تھے۔ ہماری یہ نشست بھی پائے کی مانی جاتی۔ ’رائٹرز گلڈ‘ اور ’حلقۂ ارباب ذوق‘ کی طرح کی ہی تھی، ان سے کم نہیں تھی۔ یہ صرف ہمارے کالج تک محدود نہیں تھی بلکہ اس میں ’راوینز‘ اور یونیورسٹی کے طلباء بھی اس بزم میں پڑھنے آتے تھے ”۔

” مجھے آج بھی یاد ہے کہ اس زمانے میں روزنامہ مشرق میں مسرت جبیں ایک کالم لکھتی تھیں۔ اس میں انہوں نے ذکر کیا کہ یہ لڑکا جدید افسانے کا بانی ہے۔ میں نے جو افسانہ پڑھا تھا اس کا نام ’مشین‘ تھا۔ وہ سارا کالم میرے افسانے اور میرے بارے ہی میں تھا۔ اس پذیرائی کے بعد میں بڑے بڑے لوگوں کے پاس کہانیاں لے کر گیا۔ انہوں نے سوچا کہ اس عمر کے لڑکے کو سماج کے معاشرتی مسائل اور عالمی مسائل کا کیا پتا ہے۔ بے شک یہ بالکل صحیح سوچ تھی!

کیوں کہ عام طور پر تو اس عمر کے لڑکے تو اپنے ہی خیالوں میں رہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے کوئی اہمیت نہیں دی کیوں کہ انہوں نے میرا لکھا ہوا دیکھا ہی نہیں تھا۔ جب کہ میں خود کو خاصے پختہ ذہن کا مالک سمجھتا تھا۔ اس طرح مجھے لکھنے کا تو موقع نہیں ملا۔ ہاں! ایک جگہ موقع ملا تو وہ فلم ہی نہیں بنی۔ ہمارے مشہور صحافی طفیل اختر المعروف ’دادا‘ جو ’تیر و نشتر‘ میں بھی رہے ہیں۔ جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو یہ سمن آباد میں ڈرائی کلینر کی دکان پر ’ رفو گر‘ تھے۔ میں اپنی پتلونوں وغیرہ کو رفو کروانے ان کی دکان پر جاتا تھا۔ چوں کہ وہ میرے ہم عمر تھے لہٰذ ا یہ تعلقات دوستی میں بدل گئے۔ طفیل اختر کو بھی لکھنے کا شوق تھا جو ہماری دوستی کی بنیاد بنا۔ پھر طفیل اختر نے رفو والا کام چھوڑ کر ’تیر و نشتر‘ رسالے میں لکھنا اور کاپی پیسٹنگ کا کام شروع کر دیا۔ جس فلم ( 1965 ) میں مجھے رائٹر بننے کا موقع ملا تھا اس کا اخبارات و رسائل میں بھی اشتہار شائع ہوتا تھا، اس رسالے میں بھی چھپا جو آج بھی موجود ہے ”۔

” 1966 کے بعد میں نے فلمی دنیا میں باقاعدگی سے حصہ لینا شروع کر دیا۔ چوں کہ ’بی اے’ ہو چکا تھا لہٰذا والد کی طرف سے لعن طعن اور مخالفت کم ہو گئی۔ میں نے ساتھ ساتھ ایم اے انگریزی میں بھی داخلہ لے لیا یوں مجھ پر گھر کا دباؤ بھی قدرے کم ہو گیا۔ آج جو بڑے اچھے اچھے ڈائریکٹر ہیں اس زمانے میں ان کے اسو سی ایٹ کے طور پر فلموں میں نام آتے تھے۔ جیسے یہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے الطاف حسین صاحب ہیں، اقبال کاشمیری (م) وغیرہ۔

میں تو ان لوگوں کے سامنے صوفے اور قالینیں اٹھاتا رہا۔ کبھی ہدایتکار ایس ایم یوسف صاحب کے قالین اٹھا دیے کبھی کسی کے۔ بہت سے ایسے لوگ جو اب مجھے بہت پیار اور عزت سے بلاتے ہیں میں ان کے بھی صوفے اور قالین اتھاتا رہا ہوں۔ سیٹ کی تزئین اور آرائش کا کام اسٹنٹ کرتا تھا۔ یعنی ڈائریکٹر بننے کا خواب تو بعد کی بات ہے۔ میں سوچتا کہ وہ دن کب آئے گا جب میرا بڑا سا‘ معاون ہدایتکار اعلیٰ ’کا نام اسکرین پر نظر آئے گا۔

یہ بھی ایک اعزاز کی بات ہوتی تھی کہ یہ فلاں بڑے ڈائریکٹر کا دست راست ہے! جو آنے والے ڈائریکٹروں میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہو گا۔ تو میرے وہ تمام سینئر ڈائریکٹر جو آج بھی میرے لئے قابل احترام ہیں اور وہ تمام اسٹنٹ جو بعد میں ڈائریکٹر بھی بنے ان سب کے پاس اپنا اپنا اسٹنٹ ہوتا تھا۔ میری تو اس قطار میں باری ہی آتی نہیں دکھائی دیتی تھی کہ میں کس کا اسٹنٹ بن جاؤں۔“ ۔

” میں نے اپنی پہلی فلم“ سجن پیارا ”( 1968 ) کیفی صاحب (کفایت حسین بھٹی ) کے ساتھ اسسٹ کی۔ صرف اس غرض سے کہ میرا بھی ایک بہت بڑا نام آئے گا۔ لیکن افسوس کہ اسی فلم میں نہیں آیا! پھر اس کے بعد مجھے مواقع ملتے رہے۔ محنت تو ہم سب ہی کرتے ہیں کچھ قدرت بھی مجھ پر مہربان تھی۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ صلاحیت تو اس نے کچھ دی ہی ہو گی جو وہ سب کو دیتا ہے۔ یہ اس کی اپنی تقسیم ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں اپنے دوستوں کی نسبت مجھ پر کچھ زیادہ رہیں۔ حالاں کہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ لائق لوگ تھے۔ ان میں سے کچھ تو ڈائریکٹر بھی نہ بن سکے۔ معاون کی حیثیت سے میں نے آخری فلم جناب وحید ڈار صاحب کے ساتھ کی۔ پھر میں 1970 میں ڈائریکٹر بن گیا۔ آج اس بات کو پچاس سال ہو گئے“ ۔

”عسکری بھائی! کیا کبھی آپ نے آرٹ فلم بھی بنائی؟ یا اس کو بنانے کا سوچا“ ۔

” نہیں! میں نے ان پچاس برسوں میں جو بھی کام کیا اچھا یا برا وہ سب کے سامنے ہے۔ مجھے اس پر کوئی زیادہ فخر نہیں ہے۔ یہ سب کمرشل فلمیں ہیں۔ میں نے تو کوئی بھی آرٹ فلم نہیں بنائی۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ فلم تو بجائے خود ایک آرٹ ہے۔ فلم کتنی ہی کمرشل کیوں نہ ہو اپنی ثقافت کی کہیں نہ کہیں نمائندگی ضرور کرتی ہے۔ اگرچہ ہم حقیقت سے تھوڑا ہٹ بھی جاتے ہیں پھر بھی اتنی سچائی ضرور ہوتی ہے کہ اس میں رسوم، نشست و برخواست وغیرہ کی ایک واضح جھلک نظر آتی ہے“ ۔

” آپ نے فلمی صنعت کو کیا دیا اور فلمی صنعت سے آپ کو کیا ملا؟“ ۔ میں نے ایک چبھتا ہوا سوال کیا۔

” میں نے فلمی صنعت کو کیا دینا ہے۔ میرے زمانے میں جو لوگ کام کر رہے تھے ان کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے۔ رضا میر صاحب، خلیل قیصر، شریف نیر، مسعود پرویز اور بے شمار ایک سے بڑھ کر ایک لوگ کہ نام گنوانا شروع کروں تو مضمون کو جگہ کم پڑ جائے۔ تقریباً ڈھائی سو ڈائریکٹر تھے ایک زمانے میں! ان میں کچھ لوگ ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے کچھ نے یہیں سے نام کمائے۔ تو میں نے کیا دینا تھا۔ بلکہ میں نے ہی ان لوگوں سے کچھ لیا۔

ان لوگوں سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی۔ ان لوگوں نے اپنے سینے میں جو کچھ تھا ہم لوگوں کو منتقل کیا۔ میری طرح ان کے معاونین نے اپنی اپنی بساط، جذبے اور جنون کے مطابق ان لوگوں سے وصول کر لیا۔ مجھے اس فلم انڈسٹری سے بے پناہ عزت، شہرت اور پیسہ بھی ملا۔ میں تو اپنی فلم انڈسٹری کا بہت شکر گزار ہوں کیوں کہ آج اگر کوئی میری پہچان ہے تو وہ پاکستان اور پاکستانی فلم انڈسٹری ہی کی بدولت ہے!“ ۔

” الحمرا آرٹس کونسل میں آپ کا جانا کیسے ہوا؟“ ۔

” الحمرا سے پہلے بھی میں نے ایک دو جگہ کام کرنے کی کوشش کی۔ جب الیکٹرانک میڈیا اتنا نہیں پھیلا تھا۔ پی ٹی وی اور ایس ٹی این کے زمانے میں مجھے کام کی پیشکش ہوئی تھی۔ لیکن میں نے سلور اسکرین کے مقابلے میں اس پیشکش کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ میرا یہ فیصلہ اچھا تھا یا برا تھا اس کے بارے میں آپ رائے زنی کر سکتے ہیں۔ البتہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرا یہ اچھا ہی فیصلہ تھا۔ میں جس اکھاڑے میں اترا تھا وہاں میرے مد مقابل بڑے بڑے لوگ تھے اسی لئے میں اس چھوٹے سے میدان میں نہیں جانا چاہتا تھا۔

میں ٹیلی وژن کو اس لئے چھوٹا کہہ رہا ہوں کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں فنون سے وابستہ جتنے بڑے لوگ تھے انہوں نے فلم ہی کو اظہار کا سب سے طاقتور ذریعہ سمجھا۔ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر ٹیلی وژن کی زیادہ پذیرائی ہوئی کیوں کہ پاکستان ٹیلی وژن حکومت کا ادارہ تھا۔ اسی لئے ٹیلیوژن فنکاروں کو زیادہ شہرت و عزت ملی۔ کیوں کہ وہ ٹیلی و ژن اسکرین اور پرنٹ میڈیا پر بہ کثرت نظر آنے لگے۔ پھر حکونت نے بھی ان کو بہت سراہا۔

اور دوسری جانب جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے فلم کو نظر انداز کر دیا۔ حالاں کہ فنون لطیفہ کے سب ہی شعبوں میں کمال حاصل کرنے والوں نے فلم سے رجوع کیا۔ مثلاً رقص، موسیقی، شاعری، تحریر و تقریر وغیرہ۔ ادھر فلم میں ناکام ہونے والے لوگوں نے ٹیلی وژن کا رخ کیا۔ شاید کسی کو میری یہ بات اچھی نہ لگے۔ لیکن ہم اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں۔ فلم میں مقابلہ بہت سخت تھا لہٰذا یہاں کام کرنا اور کام حاصل کرنا آسان نہ تھا۔ اس لئے جن کی فلم میں دال نہیں گلی وہ ٹیلی وژن میں نظر آنے لگے“ ۔

” ہمیں تو فلم کے لئے سرمایہ بھی خود لانا پڑتا ہے۔ اور سرمایہ کار نامور لوگوں پر سرمایہ لگاتا ہے جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں نام کمائے ہوتے ہیں جیسے : کیمرہ، موسیقی، گیت نگاری، اداکاری، رقص، گلوکاری، کامیڈی وغیرہ۔ پھرجو لوگ اپنے آپ کو بہتر نہ کر سکے یا اپنی صلاحیتوں کو منوا نہ سکے انہوں نے ٹیلی وژن کا رخ کیا۔ وہ ایک سرکاری ادارہ تھا اور پینشن والی نوکریاں جہاں ہر سال تنخواہ میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا اور ساتھ ساتھ ترقی بھی ملتی رہے گی خواہ آپ کی کارکردگی کیسی ہی کیوں نہ ہو! یہ وجوہات تھیں جن کی بنا پر میں نے ٹیلی وژن کی جانب رخ نہیں کیا“ ۔

” گویا فلم کو وہ حکومتی سرپرستی نہ مل سکی جو پاکستان ٹیلی وژن کو ملی!“ ۔ میں نے لقمہ دیا۔

” بے شک! پی ٹی وی کے مقابلے میں فلم اور فلمی صنعت کے مسائل پر کسی بھی حکومت نے وہ توجہ نہیں دی جس کے دیے جانے کا حق تھا! یہی وجہ ہے کہ ہماری فلمی صنعت بتدریج زوال کا شکار ہوتی چلی گئی۔ اس سلسلے میں حکومتی توجہ نہ ہونے کے علاوہ بھی دیگر عوامل ہیں۔ اس کے ساتھ کچھ ہماری نا اہلیاں بھی ہیں۔ ہمارے اسٹوڈیو مالکان اور ہمارا میڈیا بھی ہے۔ میڈیا جہاں ہمیں آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوا وہاں اس کی ایسی بھی پالیسیاں رہیں کہ اپنے روزناموں اور پرچوں میں فلم کی منفی منظر کشی کی جائے۔

ان اخبارات کی وجہ سے ہمارا فلمی تشخص بگڑ گیا۔ رہے اسٹوڈیو مالکان تو انہوں نے وقت کے لحاظ سے ہمیں ضروری ساز وسامان مہیا نہیں کیا۔ انہوں نے اس لئے جدید ٹیکنالوجی کی جانب رخ نہیں کیا کہ ان کی لاکھوں کی مشینری ضائع ہو جائے گی۔ افسوس کہ بالآخر وہ ضائع ہو گئی! ان کی یہ ہی کوشش رہی کہ جب تک ہم اس سے پیسہ بنا سکتے ہیں، بناتے رہیں۔ کوئی جدید مشینری اور آلات کا ناگزیر اضافہ نہ ہوا“ ۔

” 1990 کے بعد ہماری فلمی صنعت میں اتار آیا۔ یہ وہ وقت تھا جب عالمی سطح پر آہستہ آہستہ فلم میں نئی تکنیک اور مشینری متعارف ہو رہی تھی لیکن پاکستان میں اس کو اہمیت نہیں دی گئی۔ شاید اس میں ہمارے ہاں کی کم علمی کا بھی عمل دخل ہو! جب کہ دنیا فلم میں ہم سے کہیں آگے بڑھ گئی۔ ہمارے ہاں نہ جدید کیمرے آئے نہ اور کوئی سہولیات میسر ہوئیں۔ ہم اپنے اسی پرانے انداز سے کام کرتے رہے لیکن آخر کار فلم کے ارتقاء کو پورا ہونا ہی تھا۔ اس ارتقائی عمل سے ہم لوگ 2000 کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ دو ہزار کی دہائی میں چار پانچ سال ہی اچھے گزرے ہوں گے۔ پھر آہستہ آہستہ ہماری فلمی صنعت انتہائی زوال کا شکار ہو گئی۔ اس کا کوئی ایک سبب بہیں بلکہ کئی اسباب ہیں“ ۔

۔ ”یہ ہی وجہ تھی کہ پھرمیں ’جیو‘ ٹی وی چینل سے سینیئر پروڈیوسر کی حیثیت سے منسلک ہو گیا۔ کیوں کہ اپنی گزر بسر کے لئے کچھ تو کرنا تھا۔ میں ا اس وقت 76 برس کا ہوں۔ وہ دس بارہ سال پہلے کی بات ہے، میں ساٹھ برس سے آگے نکل چکا تھا۔ اور پھر ’الحمرا‘ لاہور میں بھی اسی لئے ہی جانا پڑا۔ کیوں کہ فلم میں تو اب کام ہو ہی نہیں رہا۔ ہمارے جو سرمایہ کار تھے وہ بہت حوصلہ مند لوگ تھے وہ بھی ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے فلمی صنعت کو چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ با ہمت لوگ تھے جو ہماری فلموں میں کروڑوں روپے لگاتے تھے۔ انہیں اس کا بھی علم ہوتا تھا کہ نفع کے ساتھ اس میں نقصان ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ لیکن جب ہندوستانی فلم مافیا نے پاکستانی سنیماؤں میں ہندوستانی فلم کو اس حد تک غالب کر لیا کہ پاکستانی فلم کو خود پاکستان میں نمائش کا وقت نہیں ملتا تھا۔

تب ہماری فلموں پر سرمایہ لگانے والوں نے یہ دیکھ کر سرمایہ کاری چھوڑ دی کہ کروڑوں روپے لگانے کے بعد لوگ اس فلم کو پسند کریں گے یا مسترد یہ تو بڑی دور کی بات ہے۔ انہیں تو یہ بھی پتا نہیں یہ فلم سنیما گھروں تک بھی پہنچے گی یا نہیں؟ جب ان سرمایہ کاروں نے سنیماؤں میں اپنی فلموں کی نمائش کے مخدوش امکانات دیکھے تو سرمایہ کاری بندکر دی۔ اس سے یہ ہوا کہ فلم اسٹوڈیو ویران ہو گئے۔ اس کی وجہ سے میں اور دوسرے ڈائریکٹر وں کو بھی دوسرے اداروں میں کام کرنا پڑا ”۔

” ماضی میں فلم اور فلمی صنعت کی بہبود کے لئے ایک ادارہ ’نیف ڈیک‘ بڑے تزک و احتشام کے ساتھ بنایا گیا تھا۔ اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” جی ہاں! ’نیشنل فلم ڈیویلپ منٹ کارپوریشن‘ کا بنانا ایک اچھا اقدام تھا۔ ایک بہت ذہین اور تعلیم یافتہ صاحب فلم ڈائریکٹرتھے ڈبلیو زیڈ احمد ( وحید الدین ظہیر الدین احمد ) ۔ یہ غیر منقسم ہندوستان میں بھی اپنا لوہا منوا چکے تھے اور بعد میں ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ اپنے وقت کے بہترین اسکرین پلے رائٹر تھے۔ ان کے صاحبزادے فرید احمد بھی بڑے لائق آدمی تھے۔ یہ باہر سے تعلیم حاصل کر کے آئے تھے اور ہم سے پہلے ڈائریکٹر بن چکے تھے۔

یہ ’نیف ڈیک‘ ان ہی ڈبلیو زیڈ احمد صاحب کی کاوشوں کا نتیجہ تھی۔ اس کا بننا منفی تھا یا مثبت میں اس پر کوئی تنقید نہیں کروں گا۔ یونیورسل والوں کا پاکستان میں ہالی ووڈ کی فلموں کی تقسیم کا ادارہ تھا۔ ان کی فلموں نے پاکستان میں جو بزنس کیا تھا ا س کا خاصا سرمایہ جمع ہو چکا تھا جو باہر نہیں جا رہا تھا۔ احمد صاحب نے اس وقت کی حکومت کو مشورہ دیا کہ چونکہ یہ سرمایہ فلم سے حاصل ہوا ہے لہٰذا فلم کی بہبود کے لئے قومی سطح کا ایک ادارہ بنایا جائے جو یہ سرمایہ فلم کی بہبود پر خرچ کرے۔ یہ ادارہ وجود میں آ گیا جو بادی النظر میں مستحسن اقدام تھا۔ اس کے پہلے ڈائریکٹر بھی غالباً فرید احمد ہی تھے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس ادارے نے ہماری فلمی صنعت کو بہت نقصان پہنچایا۔ میں اس نقصان کی وجوہات بھی بتاتا ہوں صرف یہ کہہ کر اپنی جان نہیں چھڑا سکتا کہ نیف ڈیک سے فلمی صنعت کا نقصان ہوا“ ۔

” ہمارے ہاں پہلے انگریزی فلموں میں ہالی ووڈ کی“ ڈاکٹر زواگو ”،“ لارنس آف اریبیا ”،“ بین ہر ”اور دیگر کلاسیکی فلمیں سنیماؤں کی زینت بنتی تھیں۔ نیف ڈیک نے ہمارے فلمساز کو ایک نئی راہ دکھائی۔ اس نے عامیانہ اور تیسرے درجے کی ایکشن فلموں کو پاکستان میں روشناس کروایا۔ ان میں“ ون آرم باکسر ”اور“ فائٹنگ فسٹ ”جیسی مار دھاڑ سے لبریز فلمیں جن میں کوئی تخلیقی کام نہیں ہوتا نہ کوئی بہت بڑی کہانی۔ بس صرف ایک انتقام کا جذبہ ہی دکھایا جانے لگا۔ یہ ہی وہ نئی راہ تھی جو نیف ڈیک نے دکھائی“ ۔

” پہلے تو پاکستانی فلمساز کو کہانی میں بہت کام کرنا پڑتا تھا۔ پھر موسیقی اور گانے وغیرہ الگ۔ اور اب۔ اب ایک سیدھی سادی مار دھاڑ والی فلم بناؤ اور خوب پیسہ کماؤ! ایک نیا رجحان ہماری فلموں میں شروع ہوا۔ اس پر میں نے بھی عمل کیا، کرنا ہی پڑا۔ ایک میں ہی کیا اور بہت سے میرے ہم عصر اور میرے اساتذہ بھی اس سے متاثر ہوئے۔ ہم سب مجبور تھے کیوں کہ پیسہ لگانے والا چاہتا تھا کہ ایکشن فلم بنائی جائے۔ ان فلموں میں بھی کہانی اور رشتوں کی عکاسی ہوتی تھی لیکن بہت سطحی ا نداز میں۔

کہانیوں کا ایک ہی انداز شروع ہو گیا۔ اگر صرف دو چار ہی ایسی فلمیں بنتیں تو اچھا بھی لگتا لیکن صاحب! وہ تو پانچ سات سو فلمیں بنیں۔ معاشرے کی طبقاتی کشمکش، جاگیر دار کے کردار، مزدور اور محنت کش کسان کے حقوق کس طرح پامال ہوتے ہیں ان کی ہم نے اپنی فلموں میں بھر پور طریقے سے نشاندہی کی۔ یہ ایک مثبت زاویہ تھا۔ لیکن ہم نے اس موضوع پر بہت زیادہ فلمیں بنا لیں۔ ایک ہی کردار اور ایک ہی انداز۔ اب ان میں وہ فلم کامیاب ہو جاتی جو دوسروں سے کچھ بہتر وسائل سے بنائی گئی ہوتی۔ یا کسی کے گانے ہٹ ہو جاتے تھے یا کسی اور پہلو کو عوام پسند کرتی تھی۔ لیکن جو ہمارا فلمی معیار تھا اسے گنوا بیٹھے! اب ہم صرف اور صرف تشدد پر ہی رہ گئے“ ۔

” اسی پر بس نہیں! پھر نیف ڈیک نے خام فلم کی سپلائی بھی اپنے ہاتھ میں لے لی کہ اب فلمساز صرف ہم سے ہی فلم خریدے گا۔ پھر کچھ لائسنس بھی جاری کرنے شروع کیے۔ وہ بھی غلط لوگوں کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ تقسیم کا عمل تو ہمارے ہاں شروع ہی سے غلط چلتا آ رہا ہے“ ۔

” بہرحال بات ایکشن فلموں کی ہو رہی ہے۔ مار دھاڑ والی فلموں کو پوری دنیا کے فلمی حلقے کوئی زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اس کے ڈائریکٹر کو بہت ہی زیادہ کمرشل سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں فلم کے بڑے ڈائریکٹر ہمارے لئے بھی مشعل راہ ہیں ان میں ہالی ووڈ اور بر صغیر کے ڈائریکٹران بھی ہیں۔ ان کا کام ایکشن سے جدا ہے۔ ایکشن تو ایک ایسا عمل ہے جس کے بغیر فلم ہی ادھوری ہے۔ ایکشن کی بھی بہت ساری اشکال ہیں۔ کچھ قابل ذکر اور کچھ قابل مذمت۔

لیکن جیسا پر تشدد ایکشن نیف ڈیک کی ریلیز کردہ فلموں سے آیا وہ کسی طور ٹھیک نہیں تھا۔ وائے افسوس! ہم کو بھی وہ اپنانا پڑا۔ ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے دہشت گردی اور انتہا پسندی نے سر اٹھایا۔ مجموعی طور پر سماج کا رویہ بھی پر تشدد ہو گیا۔ فلمیں بھی معاشرے کا عکس ہوتی ہیں۔ لیکن ہم نے اس انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ٹھیک طریقے سے اسکرین پر پیش نہیں کیا۔ محض فلمیں اور پیسہ بناتے رہے۔ ہمارے ہاں غربت کی لکیر سے نیچے کا طبقاتی کشمکش کا شکارطبقہ جب ایسی فلمیں دیکھتا تو اس کو اس نظام کے خلاف، معاشی ناہمواری اور عدم مساوات پر دل کی بھڑاس نکالنے کو موقع مل جاتا۔ اس طبقے کو وہ فلم اچھی لگتی تھی“ ۔

” فلم انڈسٹری نے مجھے بہت کچھ دیا۔ مجھے علم بخشا اور میں نے اپنی استبداد کے مطابق اسے حاصل کیا حالاں کہ وہ تو بہت بلند پایہ لوگ تھے۔ کچھ ان سے اور کچھ کتابوں سے سیکھا۔ کتابیں میرا جنون تھا۔ برٹش کونسل لائبریری سے میں نے بہت فیض اٹھایا۔ فوٹوگرافی میرا شوق رہا۔ فلم ایڈیٹنگ سے بھی بہت شغف رہا۔ یہ سب چیزیں لازم و ملزوم ہیں اور ادب سے تو میرا تعلق تھا ہی۔ کہانی لکھنے میں تو میرا اپنا خاص انداز تھا۔ میں نے اس کو اپنی فلموں میں اپنایا“ ۔

” فلمی صنعت نے سرکاری سطح پر مجھے دو تین مرتبہ نیشنل فلم ایوارڈ دلوائے۔ ایوارڈ دینے والی ایسی کوئی سماجی اور ثقافتی تنظیم نہیں ہے جس سے مجھے ایوارڈ نہ ملے ہوں! جیسے نگار ایوارڈ، گریجوئٹ ایوارڈ، بولان ایوارڈ“ ۔

” نگار ایوارڈ کا میں ذکر ضرور کروں گا کیوں کہ ایک زمانہ تھا جب میں اسسٹنٹ تھا اور ریاض شاہد صاحب اور خلیل قیصر صاحب کی تصویریں دیکھتا اور سوچتاتھا کہ کیا کبھی کوئی ا یسا بھی وقت آ ٓئے گا کہ میں بھی اس کو حاصل کر سکوں! الیاس رشیدی صاحب کا نگار ایوارڈ پاکستان کا نہایت ہی معتبر فلمی ایوارڈ تھا۔ اس طرح سے کوئی اور ادارہ فلمی فنکاروں اور ہنر مندوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا تھا۔ الیاس رشیدی صاحب نگار کے ایڈیٹر تھے۔

انہوں نے نہایت شفاف طریقے سے اس ایوارڈ کو جاری کیا۔ ایوارڈ پانے والے اس ایوارڈ کو حاصل کرنے کے بعد فخر کرتے تھے۔ میرے بھی گھر میں نگار کی کافی مورتیاں ہیں۔ مجھے بھی ان کے ملنے کا بے حد فخر ہے۔ پہلی مرتبہ جب مجھے یہ نگار ایوارڈ ملا تو میرے لئے بھی یہ اعزاز کی بات ہو گئی کہ اب میں بھی ڈائرکٹروں کی صف میں معتبر حیثیت رکھتا ہوں۔ دو ڈھائی سو ڈائریکٹروں میں ایسا ایوارڈ حاصل کرنا بھی بڑے فخر کی بات ہوتی تھی“ ۔

” میں نے تو فلم انڈسٹری کو کچھ نہیں دیا۔ لیکن میں نے تھوڑی سی کوشش کی کہ ذرا ہٹ کر فلم بناؤں! مثلاً محمد علی اور بابرہ شریف کی“ سلاخیں ”( 1977 ) ، شبنم اور محمد علی کی“ دوریاں ”( 1984 ) میری اور بھی بہت سی فلمیں ہیں۔ پھر پنجابی فلمیں جیسے انجمن اور سلطان راہی کی“ میلہ ”( 1986 ) ، سلطان راہی اور آسیہ کی“ طوفان ”( 1976 ) میں بھی میں نے نگار ایوارڈ لیا۔ فلم“ طوفان ”اور“ آگ ”کا فلمساز بھی میں تھا۔

اس کے پروڈیوسر کا ایوارڈ میں نے لیا۔ اس فلم میں اور بھی لوگوں کو نگار ایوارڈ ملے۔ جب تک نگار ایوارڈ رہا مجھے بھی ملتا رہا۔ میرے لئے یہ بھی بڑے فخر کی بات ہے کہ میں نامزدگی میں آتا تھا۔ یعنی اگر نگار ایوارڈ کے لئے تین چار فلمیں نامزد ہوں اور ان میں ایک فلم میری ہو تو یہ میرے لئے فخر کی بات تھی۔ میری آخری فلم ایور نیو پکچرز کی“ تیرے پیار میں ”( 2000 ) تھی۔ مجھے اس میں نیشنل فلم ایوارڈ ملا۔ لیکن اگر الیاس رشیدی صاحب زندہ ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ اس فلم پر مجھے نگار ایوارڈ بھی ملتا۔ لیکن اس وقت نگار ایوارڈ بند ہو چکا تھا“ ۔

” میں نے احمد ندیم قاسمی صاحب کے افسانے۔ ’گنڈاسہ‘ اور جارج ایلیٹ کے ناول پر فلمیں بنائیں۔ پھر سیف الدین سیف ؔ صاحب نے میرے لئے لکھا۔ اپنے عہد کے پرفارمنگ آرٹس کے جتنے بڑے لوگ ہیں میں نے ان سب کے ساتھ بطور ڈائریکٹر کام کیا۔ مجھے اس بات پر بہت زیادہ فخر ہے“ ۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا: ”ڈائریکٹر کے پاس ایک اختیار ہوتا ہے کہ وہ مصرع بھی تبدیل کر سکتا ہے۔ اپنے وقت کے بڑے بڑے لکھنے والوں سے کہہ سکتا ہے کہ مجھے اس کی جگہ کچھ اور لکھ کر دیجئے! اس فہرست میں بڑے بڑے نام ہیں : جیسے تنویرؔ نقوی، سیف الدین سیفؔ، قتیلؔ شفائی، احمد ؔراہی، حبیب جالبؔ، مسرورؔ انور، تسلیم ؔ فاضلی، احمد فرازؔ، استاد دامنؔ، حزیں ؔ قادری، وارث ؔ لدھیانوی، خواجہ پرویز، ریاض الرحمن ساغرؔ اور کئی نام ہیں کہ ان جیسے اب ایک ساتھ ہزاروں سال میں بھی پیدا نہ ہو سکیں گے۔

ان میں سے کوئی ایک آ جائے گا۔ شاید کوئی احمدؔ راہی پیدا ہو جائے۔ سیف الدین سیفؔ پیدا ہو جائے۔ وہ بھی کم ہو گا۔ ان بڑے ناموں میں کیمرہ مین نبی احمد، کامران مرزا، مسعود الرحمن، اعظم برکی، ریاض بخاری اور بہت سے نامور کیمرہ مین بھی ہیں۔ موسیقاروں میں روبن گھوش، ماسٹر عبدا اللہ، صفدر صاحب، نذیر علی وغیرہ کے ساتھ کام کیا۔ میری پہلی فلم کے موسیقار تو باباجی اے چشتی صاحب خود تھے۔ یہ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں خواجہ خورشید انور کہتے تھے کہ جب میں کوئی دھن بنانے لگتا ہوں تو میرے سامنے چشتی کھڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ سب ہی عہد ساز ا ور قد آور شخصیات تھیں جو اپنی فنی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ یہ سب کہنے کا مطلب ہے کہ ان لوگوں نے ہی مجھے کچھ دیا ہو گا، میں نے فلمی صنعت کو کیا دینا تھا“ ۔

” میری فلموں میں سے ایک احمد ندیم قاسمی صاحب کے افسانے۔ ’گنڈاسہ‘ پر بننے والی پنجابی فلم“ وحشی جٹ ”( 1975 ) تھی۔ اس فلم کا مرکزی کردار ’مولا جٹ‘ تھا جو سلطان راہی نے ادا کیا۔ اس کردار ’مولا‘ کا وجود ایک ’برانڈ‘ بن گیا۔ آپ دیکھ لیں آج پینتیس سال سے مسلسل وہ ہی فلم بن رہی ہے۔ اس کردار کو سلطان راہی نے آخر وقت تک کیا۔ پھر ان کے بعد آنے والے لوگ بھی اسی کی تقلید کرتے رہے۔ میں نے ’ایملی برونٹے‘ کے مشہور زمانہ ’ودرنگ ہائٹس‘ جیسے ناول پر بھی فلم بنائی۔ میں بہت خوش قسمت آدمی ہوں۔ مجھے بڑے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے ان کی باتیں سنیں۔ یوں لگتا تھا جیسے میں ایک عجیب سی داستان سن رہا ہوں۔ افسوس کہ ؒؒمیرے پاس اس وقت کوئی ٹیپ ریکارڈر نہیں تھا کہ میں یہ سب ریکارڈ کر کے کتابی شکل دیتا“ ۔

” پنجابی فلموں میں نادرہ اور سلطان راہی کی“ مفرور ”( 1988 ) ، فردوس اور سدھیر کی“ خون پسینہ ”( 1972 ) ، صائمہ اور شان کی“ بسنتی ”( 2008 ) اور اردو یادگار فلموں میں محمد علی اور بابرہ شریف کی“ آگ ”( 1979 ) ، بابرہ شریف اور فیصل کی“ بیقرار ”( 1986 ) ، ثناء اور سعود کی“ جنت کی تلاش ”( 1999 ) ، محمد علی اور بابرہ شریف کی“ سلاخیں ”( 1977 ) ، شبنم اور فیصل کی“ دوریاں ”( 1984 ) ، صائمہ، ثناء اور سعود کی“ دل کسی کا دوست نہیں ”( 1997 ) ، شان اور زارا شیخ کی“ تیرے پیار میں ”( 2000 )“ ۔

” اس طرح سے میری زندگی کا سفر رواں دواں ہے۔ آج کل میں“ چاند چہرہ ”کے نام سے ایک فلم بنا رہا ہوں۔ اس کی کہانی ایک انگریزی ناول سے لی گئی ہے۔ یہ جدید دور کی کہانی ہے کہ محنت کش طبقے کی ایک لڑکی کو کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس فلم میں نئے اور پرانے فنکاروں کا امتزاج ہے۔ جس میں بابر علی، شاہد حمید ( المعروف شاہد ) ، سہیل سمیر مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس فلم کے اداکاروں میں ایک نیا لڑکا اور لڑکی بھی شامل ہیں۔ اس کے موسیقار طافو صاحب ہیں۔ گیت لکھنے والے خاقان حیدر غازی جو ’پیلاک‘ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہونے کے ساتھ پائے کے شاعر بھی ہیں۔ یہ فلم ستر فی صد مکمل ہو چکی ہے اب کرونا کی وجہ سے کام سست ہے“ ۔

” اس فلم کا اسکرین پلے کون لکھ رہا ہے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” میں نے لکھا ہے۔“ کنارہ ”( 1982 ) اور“ آگ ”( 1979 ) کی کہانیاں بھی میں نے لکھیں۔ اس طرح میرا لکھنے کا شوق بھی پورا ہوتا رہا۔ ویسے جب میں فلم بناتا ہوں تو بنیادی خیال میرا ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے عام فلموں سے میری فلم تھوڑی مختلف اور منفرد ہوتی ہے“ ۔

” سیٹ پر کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی فنکار نے کہا کہ مکالمہ تبدیل کر دیں!“ ۔ میں نے پوچھا۔

” نہیں میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ اس میں کوئی دروغ نہیں ہے کہ میں نے پچاس سال میں پاکستان کے جتنے بھی نامور لوگ ہیں جیسے یوسف خان، محمد علی، سلطان راہی، غلام محی الدین، لالہ سدھیر وغیرہ اور خواتین فنکاروں میں فردوس، رانی، بابرہ شریف، مدیحہ، صائمہ، ریما وغیرہ۔ کوئی ایسا آرٹسٹ ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ میں نے بطور ڈائریکٹر کام نہ کیا ہو۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے کبھی کسی فنکار نے یہ نہیں کہا کہ ہم مکالمہ ادا نہیں کر سکتے“ ۔

” میں مکالموں اور منظر نامے پر پہلے ہی محنت کر کے فلور پر آتا ہوں۔ فلموں کے مکالمے روزمرہ کی زبان میں ہو نا چاہئیں۔ مکالموں میں گہرائی ضرور ہو جس سے دیکھنے والے مزہ لیتے ہیں۔ لیکن فلسفیانہ انداز نہیں ہونا چاہیے۔ مکالمے میں روانی ہو تو وہ بجائے خود ’ردہم‘ میں آ جاتا ہے اور مصنوعی نہیں لگتا۔ پھر اس کو ادا کرتے ہوئے خود بخود دوسری سطر منہ پر آ جاتی ہے“ ۔

۔ ”بہت سے لوگ میرے ہاتھ سے بھی نکلے ہیں خواہ وہ اس بات کو تسلیم کریں یا نہیں کیوں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا! افضال احمد بھی میری ہی دریافت ہیں۔ میری فلم“ سر دھڑ دی بازی ”( 1972 ) میں انہوں نے پہلی مرتبہ کام کیا تھا۔ عابد علی کی بھی پہلی فلم“ سونے کی تلاش ”( 1987 ) تھی۔ پھر اسماعیل شاہ بھی سب سے پہلے میری فلم میں آئے۔ البتہ نمائش کے لئے پہلے ڈائریکٹر ممتاز علی خان کی فلم“ باغی قیدی ”( 1992 ) پیش ہو گئی۔ جب کہ کیمرے کے سامنے سب سے پہلے وہ میری فلم میں آئے تھے“ ۔

” کہا جاتا ہے کہ آپ کی فلموں میں پس منظر موسیقی بہت کم ہوتی ہے!“ ۔ میں نے پوچھا۔

” نہیں ایسا نہیں ہے! وہ کم نہیں ہوتی۔ بلکہ میں تو اسے بہت زیادہ اہمیت دیتا ہوں کیوں کہ یہ فلم کے تاثر کو بہت زیادہ ابھارتی ہے۔ آپ اگر اداس سا منظر دکھانا چاہتے ہیں تو آپ کیمرے کی درست ’فریمنگ‘ سے اداسی کو اسکرین پر دکھا تو سکتے ہیں لیکن موسیقی کے ساتھ جب اس منظر پر اداسی کا ایک ’سر‘ لگتا ہے تو وہ آپ کو کہیں اور بہا کر لے جاتا ہے۔ اس اداسی کا احساس بہت بے ساختہ ہو کر سامنے آ تا ہے۔ اس کا ثبوت میری فلمیں ہیں۔

پس منظر موسیقی کی اہمیت میرے نزدیک زیادہ ہے۔ سین کا جو تاثر ہے اس کے مزاج کے مطابق ہی بیک گراؤنڈ میوزک ہو گا تو اس کے تاثر میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس منظر میں گویا بیک گراؤنڈ میوزک روح ڈال دیتا ہے۔ پس منظر موسیقی اداکاری کو بھی موثر کر دیتی ہے۔ اگر اداسی کی عکاسی ہے تو چہرے کے کرب کو زیادہ نمایاں کردیتا ہے“ ۔

۔ ”میری پہلی فلم“ وحشی جٹ ”( 1975 ) تھی جہاں سے میں نے ’فلمی سفر کی اڑان‘ بھری۔ ویسے پہلی فلم تو میری“ خون پسینہ ”( 1972 ) تھی۔ بہرحال میں اچھے ڈائریکٹروں کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ لیکن صف اول کے ڈائریکٹر بننے میں بہت وقت درکار ہوتا ہے جہاں آپ کا مقابلہ بڑے بڑے ہم عصروں اور اساتذہ سے ہوتا ہے۔ لیکن اللہ کی مہربانی سے میں نے وہ مقام جلد حاصل کر لیا۔ میں 1970 میں ڈائریکٹر بنا۔ میری پہلی ہی فلم کے بارے میں اردو اخبارات کے ناقدین کے ساتھ ساتھ ا نگریزی اخبارات نے بھی میری فلم سراہتے ہوئے حوصلہ افزا تبصر ے کیے۔

اس زمانے میں ’سول اینڈ میلٹری گزٹ‘ میں صفدر بیگ صاحب ’زینو‘ کے قلمی نام سے لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ روزنامہ ’پاکستان ٹائمز‘ ، ’ہفت روزہ نگار‘ ، ’مصور‘ ، ’ممتاز‘ اور دیگر اردو روزناموں میں بھی ہفتہ وار فلمی صفحہ ہوتا تھا۔ بہرحال اخبارات کے ناقدین نے میرے بارے میں لکھا کہ اس کے آنے سے پاکستانی فلمی صنعت میں ایک اچھے ڈائریکٹر کا اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً سب ہی اخبارات نے کم و بیش ایسا ہی لکھا۔ ایسی رائے بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ اللہ کی مہربانی کہ یہ مجھے پہلی ہی فلم سے نصیب ہوئی“ ۔

” اب میں اس دن کا انتظار کر رہا تھا جب میرا نام بھی بڑے ڈائریکٹروں کی فہرست میں آئے گا۔ یہ دن مجھے پانچ سال کے بعد احمد ندیم قاسمی کے افسانے سے اخذ کردہ پنجابی فلم“ وحشی جٹ ”سے نصیب ہو گیا۔ مولا جٹ کا کردار سلطان راہی نے کیا اور ایسا کیا کہ پھر فلمسازوں اور فلم بینوں نے اس کو اور کچھ کرنے ہی نہ دیا“ ۔

” تو گویا آپ فلموں میں گنڈاسہ کے خالق ہیں جس نے فلمی صنعت کو بہت نقصان پہنچایا؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” نہیں میں نے ایسا نہیں کیا۔ میں نے تو وہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی جو قاسمی صاحب نے لکھا تھا۔ کہ یہ ہمارے اندر کی نفرتیں ہیں۔ لوہے کا ’پترا‘ ہے، اسے گول کر کے رائفل کی نال بنا لیں، اسے تیز دھار کی صورت کسی گنڈاسہ میں بدل دیجئے۔ اگر

ا ندرکی نفرتیں ختم نہیں ہوں گی تو انسانیت کا خون ایسے ہی بہتا رہے گا۔ یہ دشمنیاں نسل در نسل ایسے ہی چلتی رہیں گی۔ میری فلم کا پیغام اس منفی رویے کی طرف اشارہ تھا کہ ہمیں اپنی دشمنیاں ختم کر کے یہ نفرت کی علامت ’گنڈاسہ‘ چھوڑ دینا چاہیے ”۔

” پنجاب کے سرگودھا، میاں والی کے علاقے میں اس قسم کی دشمنیاں چلتی رہی ہیں۔ اس میں کچھ جہالت بھی شامل ہے۔ میری یہ فلم اسی کی طرف اشارہ تھا۔ میں نے تو اسی مقصد کے لئے وہ فلم بنائی تھی۔ اس فلم کا اظہار اتنا بھر پور تھا۔ میں تو اتنا آہستہ بولنے والا شخص ہوں کہ میری آواز چار فٹ تک نہیں پہنچتی اور میں نے ہی بلند آواز سے بولنے کی بنیاد رکھی۔ اس لئے کہ ایسا کرنا اس کردار کے لئے از حد ضروری تھا۔ میں نے ایک رائٹر کی حیثیت سے اس کردار کی چال ڈھال اور بات کرنے کا خود تصور کیا کہ کہانی کے مطاق جب دو فریق آمنے سامنے آتے ہیں تو کس طرح بولتے ہیں۔ آواز میں کیسی گھن گھرج ہوتی ہے اور آنکھوں میں کیسی نفرتیں۔ اس سب کے اظہار کے لئے ہی یہ سب کچھ کیا گیا۔ اب اتفاق سے یہ وہ مخصوص لہجہ بن گیا جو اس سے پہلے فلم میں نہیں پیش ہوا تھا“ ۔

اس سلسلے میں عسکری بھائی نے ایک دلچسپ انکشاف کیا:

” کہانی نگار ناصر ادیب بھی میری دریافت ہیں۔ بیشک وہ بہت با صلاحیت مصنف ہیں۔ وہ ایک ہیرا تھا میں نے جھاڑ پونچھ کر لوگوں کو بتایا۔ یہ پینتالیس سال پہلے ’پینفلٹ‘ کی شکل میں فلسطین پر چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ مجھے ان کا انداز تحریر بہت پسند تھا۔ یہ خود بھی سرگودھا سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس زمین کی“ وحشی جٹ ”کی کہانی تھی ناصر ادیب بھی اسی زمین سے تھا۔ تو جب میں نے اس افسانے کا انتخاب کیا تو سوچا کہ یہ اس شخص کو لکھنا چاہیے جس کا تعلق اسی خظے سے ہو۔

جس کو یہاں کے لہجے اور ان کی سوچ کا علم ہو۔ تو جناب! ناصر صاحب نے اتنے عمدہ طریقے سے لکھا کہ پھر تو سب لوگ اسی طرف ہی شروع ہو گئے۔ مولا جٹ ہی مولا جٹ ہوتی رہی۔ جب کہ ناصر بے چارہ اتنا با صلاحیت آدمی ہے لیکن فلمسازوں نے اس سے ایک ہی فلم لکھوانی شروع کر دی۔ اور یہ ناصر ادیب کا کتنا کمال ہے کہ پانچ سو فلمیں لکھیں۔ وہی مولا لکھ دیا اور ساری کامیاب فلمیں ہیں!“ ۔

” فلموں کی اسٹوڈیو یا بیرونی عکس بندی کے دوراں ناقابل فراموش کوئی واقعہ۔ ؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” کچھ یادگار باتیں ہوتی ہیں۔ فلموں کی شوٹنگ کے دوران ایسا کوئی ناقابل فراموش واقعہ یا حادثہ نہیں ہے جو بیان کروں کہ ہم مرتے مرتے بچ گئے یا ایسی ہی کوئی سنسنی پیدا کروں۔ لیکن بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جہاں سے آپ کچھ سیکھتے ہیں! میں اس سلسلے میں آپ سے دو باتیں کروں گا۔ ایک علی صاحب (اداکار محمد علی ) کی پرفارمنس کی بات ہے۔ میں اپنے آپ کو بڑا مضبوط اور شاطر ڈائریکٹر سمجھتا ہوں اور لوگوں کو پتا ہے کہ میں بہت کم مطمئن ہوتا ہوں۔

میں جب کام کرتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ اس فنکار میں اتنی صلاحیت ہے کہ یہ 100 فی صد مطلوبہ تاثرات میری مرضی کے مطابق دے سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اس کے 70 فی صد نتائج بھی مجھے قبول نہیں، جو کہ ایک ڈائریکٹر کے لئے قابل قبول ہوتا ہے۔ جب کہ میری کوشش اس سے 100 فی صد کی ہوتی ہے۔ علی صاحب، بابرہ شریف، سلطان راہی، ندیم وغیرہ یہ وہ بڑے لوگ ہیں جو آپ کو ’سو‘ فی صد سے بھی زیادہ دیتے ہیں۔ ان کا اپنا بھی مشاہدہ اور تجربہ ہوتا ہے“ ۔

” ان میں سے ایک واقعے میں فن سے لگاؤ، جنون اور عشق نظر آئے گا۔ یہ سلطان راہی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے : میں پنجابی فلم“ طوفان ”بنا رہا تھا۔ میں ہی اس فلم کا فلمساز بھی تھا۔ منظر یہ تھا کہ فلم کا ولن، اداکار افضال احمد ایک مال گاڑی پر سوار ہو کر فرار ہو جاتا ہے اور سلطان راہی اس سے انتقام لینا چاپتا ہے۔ لیکن مال گاڑی تیز رفتار ہے جس کو سلطان راہی نہیں پہنچ سکتا۔ مال گاڑی پہاڑی راستوں سے پیچ و خم کھاتی گزر رہی ہے۔ سلطان راہی نے کہا کہ حقیقت میں کوئی دوڑ کر ٹرین نہیں پکڑ سکتا ہاں البتہ اگر میں نیچے کہیں لیٹ جاؤں تو انجن گزرنے کے بعد مال گاڑی کی راڈ پکڑ کر کھسکتے ہوئے افضال احمد تک پہنچ سکتا ہوں۔ جو میرے

آنے سے بے خبر ہے۔ یہ سلطان راہی نے خود ہی طے کر لیا۔ آپ یقین کیجئے کہ میں نے کئی ایک ایکشن فلمیں بنائیں لیکن میں عام زندگی میں ایک قطرہ انسانی خون بھی نہیں دیکھ سکتا۔ میرے سامنے کسی کو چوٹ لگ جائے تو مجھے چکر سا آ جاتا ہے اور میں بیٹھ جاتا ہوں کہ کہیں گر نہ جاؤں۔ اتنا حساس واقع ہوا ہوں۔ لہٰذا میں تو اس شاٹ کو لینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ سلطان راہی کو سمجھا بجھا اور ان کے کپڑے پہنا کر ایک ’ڈمی‘ پٹری پر لٹا دی۔

اب میں نے کہا کہ جب ریل گاڑی حرکت میں ہو گی تو نیچے سے چھلانگ لگا کر ڈبے پر کیسے چڑھو گے؟ اپنے کام سے جنون کی حد تک عشق دیکھئے۔ سلطان راہی ایسے ہی نہیں بن جاتا۔ یہ خوبی تھی سلطان راہی میں۔ اس نے پیار سے کہا کہ یہی کرنا ہے اور میں کر کے دوں گا۔ میں نے کہا کہ ہم مال گاڑی کی رفتار جتنی بھی کم کر لیں، تم پٹری پر چلتی گاڑی سے نکلے اور تھوڑا سا بھی ادھر ادھر ہوئے، پاؤں یا ہاتھ پھسلا تو تمہارے تو دو ٹکڑے ہو جائیں گے۔

وہ نہیں مانے اور کیمرہ مین کو بلایا کہ دونوں طرف کے وہیل کے درمیان کے اینگل آئرن پر اپنے کیمرہ لے کر بیٹھ جاؤ۔ کیمرہ مین کا اسسٹنٹ عبدا اللہ پٹکے سے اپنے آپ کو باندھ کر بیٹھ گیا۔ اب ان دونوں میں طے ہوا کہ سلطان راہی آہستہ آہستہ چلتی مال گاڑی میں پٹری کے درمیان کیمرے کی جانب کہنیوں کے بل بڑھے گا۔ میں نے عبدا اللہ سے کہا کہ سلطان راہی کو چھوڑو خود تمہارے بھی تو دو ٹکڑے ہو سکتے ہیں! تو اس نے بے ساختہ کہا کہ اگر سلطان راہی مر گیا تو میرے بھی دو ٹکڑے ہو جائیں کوئی بات نہیں! ا س زمانے میں کام سے جنون کا سب طرف یہی عالم تھا۔ ہماری فلمی صنعت جو عروج پر پہنچی ایسے ہی نہیں پہنچی! ایک لگن اور ایک شوق تھا۔ اپنے کام سے ایک دیانت داری تھی ”۔

” مال گاڑی چل رہی ہے۔ کیمرہ مین اپنے آپ کو باندھے فلم بندی کر رہا ہے۔ سلطان راہی رینگ رینگ کے پٹری پر چل رہا ہے اور میں گاڑی کے ساتھ ساتھ روتا ہوا دوڑ رہا ہوں اور چلا رہا ہوں کہ میں نے یہ شاٹ نہیں لینا۔ گاڑی روکو! سلطان راہی ریل کے پہییوں کے درمیان نظر آ رہا ہے اور میں کہہ رہا ہوں کہ یا اللہ یہ کیا ہونے والا ہے! سلطان راہی نے چھلانگ لگائی اور راڈ کو پکڑ کر کیمرہ کی جانب بڑھنا شروع کیا پھر گاڑی رک گئی اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس کے بعد میں نے باقاعدہ اس سے لڑنا شروع کر دیا کہ تم کیسے آدمی ہو۔ وہ میری بہت مانتا اور پیار کرتا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو ہیں اور اس سے لڑائی کر رہا ہوں کہ تو نے تو بچ جانا تھا لیکن میرا ہاٹ فیل ہو جاتا۔ میں پتا نہیں کیسے بچ گیا ہوں“ ۔

” کیا وہ شاٹ فلم میں لگا؟“ ۔ میں نے پوچھا۔
” جی ہاں! اور اسے دیکھنے والوں نے بہت سراہا۔ اس فلم کی کامیابی میں اس شاٹ کا بھی بڑا حصہ تھا“ ۔

” دوسرا واقعہ فلم“ سلاخیں ”بنانے کے دوران پیش آیا: محمد علی اور بابرہ شریف کا ایک سین تھا۔ بابرہ ایک لٹی پٹی سی عورت ہے جو کئی ادوار سے گزرتی ہے اور بیمار ہو چکی ہے۔ علی صاحب کا اس سے ایک معمولی سا تعلق ہو جاتا ہے اور وہ اسے سمجھانے کے لئے اس کے گھر جاتے ہیں۔ منظر یہ ہے کہ محمد علی اس سے کہہ رہے ہیں کہ تم شراب پینا چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟ بابرہ کا شاٹ تھا کہ وہ کہتی ہے کہ تم نصیحت تو ایسے کر رہے ہو جیسے میرے باپ تم ہی ہو۔

حالاں کہ فلم میں وہ اس کا اصل باپ ہے۔ اسی سین کے بعد وہ گانا ہے ’تیرے میرے پیار کا ایسا ناتا ہے۔‘ کہانی کے اس موڑ پر دونوں ملتے ہیں اور دونوں کو ہی اپنے اس رشتے کا علم نہیں۔ بابرہ کے جملے کے بعد بابرہ نے ’کیو‘ دیا اور علی صاحب کا شاٹ شروع ہوا۔ علی صاحب کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی اور اس کے بعد انہوں نے کہا کہ تم نے اپنی دانست میں تو گالی دی ہے لیکن یہ گالی میں سینے سے لگاتا ہوں۔ پھر وہ اپنی بات کہتے ہیں کہ ان کی ایک چھوٹی بیٹی تھی جسے و ہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

ڈرامائی صورت حال تھی اور دونوں فنکار اپنے کرداروں میں ڈوب کر اداکاری کر رہے تھے۔ مجھے علی صاحب کی وہ مسکراہٹ اچھی نہیں لگی۔ میں اس کو سمجھ نہ پایا۔ میں نے وہ چلتا شاٹ ’کٹ‘ اس لئے نہیں کیا کہ آگے تو انہوں نے صحیح ادائیگی کی تھی۔ میں نے سوچا کہ ایڈیٹنگ میں اس مسکراہٹ کو نکال دوں گا۔ وہ طنز کر رہی ہے او ر علی صاحب مسکرا رہے ہیں! اب میں اپنی غلطی کا اعتراف کر رہا ہوں۔ لیکن جب وہ شاٹ پرنٹ ہو کر آیا اور میں نے اس کو جوڑ کے دیکھا تو وہ جان نکال دینے والا شاٹ تھا۔

وہ جسے کہتے ہیں زہر خند۔ زہر میں بجھی ہوئی مسکراہٹ۔ پھر اس تاثر کو نرم کرتے ہوئے انہوں نے مکالمہ ادا کیا تب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ ا س ایک شاٹ سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ وہ میری پہلی اردو فلم تھی۔ میں اپنی دانست میں بہت ڈوب کر کام کر اور کروا رہا تھا جب کہ علی صاحب تومجھ سے کہیں زیادہ ڈوب کر کام کر گئے۔ اس سے مجھے ایک سبق ملا کہ محض مکالموں سے ہی کام نہیں چلتا بلکہ لطیف جذبات کی عکاسی کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے!“ ۔

” دیکھنے والوں کو فلم میں یہ سین کیسا لگا؟“ ۔

” اس جذباتی سین کو فلم بینوں نے بہت پسند کیا۔“ سلاخیں ”( 1977 ) تو علی صاحب اور بابرہ دونوں کی ایک یادگار فلم ہے۔ فلمیں تو بنتی رہتی ہیں مجھ سے پہلے بھی بڑے لوگوں اور میرے اساتذہ نے بڑی بڑی فلمیں بنائی ہیں۔ جب پچاس سال کے بعد بھی لوگ“ سلاخیں ”کے بارے کہتے ہیں کہ یہ تو بہت بڑی فلم تھی تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے“ ۔

” اس فلم کی کہانی کس نے لکھی تھی؟“ ۔ میں نے سوال پوچھا۔
” یہ ریاض ارشد صاحب کی کہانی تھی جنہوں نے فلم“ آنسو ”( 1971 ) بھی لکھی تھی“ ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ”انسان کے سیکھنے کا عمل تو ہمیشہ ہی جاری رہتا ہے۔ میں نے بھی مذکورہ شاٹ کی مثال دی ہے۔ اگر میں علی صاحب کی وہ مسکراہٹ کاٹ دیتا تو میں ایک بہت بڑا جرم کرتا۔ ایک فن پارہ نکال دیتا“ ۔

” عسکری بھائی! آپ نے جو کام کیا یا لوگوں سے لیا، کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟“ ۔

” یہ سوال آپ کسی بھی آرٹسٹ سے کریں کوئی بھی اپنے کام سے مطمئن نظر نہیں آئے گا۔ ہمیشہ ایک خلش رہتی ہے کہ اگر میں ایسا کرتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔ آپ نے بہت اچھا سوال کیا۔ ایک زمانہ تھا جب میں نے اپنی ’پرواز‘ کی اور“ وحشی جٹ ”اور“ سلاخیں ”کے بعد ڈائریکٹروں کی بڑی صف میں شامل ہو گیا۔ میں نے یونیورسٹی سے انگریزی میں ’ایم اے‘ کیا تو سوچا کہ اردو ادب کو منتقل کروں گا۔ عام فلم نہیں بناؤں گا اور اپنا راستہ جدا کر لوں گا۔

اس صف میں آنے کے بعد میں نے گاڑی لے لی اور حالات بھی اچھے ہو گئے۔ والد صاحب جو خود بھی ’ایف سی‘ کالج کے گریجوئٹ تھے، انہوں نے شروع کی تلخیاں اور غربت کی لکیر کے نیچے گزاری گئی زندگی بھلا دی اور آہستہ آہستہ بڑے مقام تک پہنچ گئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ بیٹے نے اب گاڑی لے لی اور پاکستان فلم اندسٹری میں ایک بڑا ڈائریکٹر بھی بن گیا۔ پھر میرا نام ریڈیو، ٹیلی وژن پر آتا اور تو اور دیواروں اور اخباروں میں بھی لکھا نظر آ تاتو وہ جو کبھی مجھ پر ناراض ہوتے تھے اب بہت خوش ہوتے اور اپنے دوستوں کو بتایا کرتے۔ اور جس دن انہیں یہ احساس ہو ا کہ میں معاشی طور پر گھر کا بوجھ اٹھا لوں گا، اسی دن میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا“ ۔

” اس کے بعد میرے سامنے پھر وہی مسائل تھے۔ پانچ بہنیں، چار بھائی اور بیوہ ماں تھیں۔ بہنوں کو بیاہنا، بھائیوں کو پڑھانا تھا اور ان کے مستقبل کا بھی خیال تھا۔ یہ سب کر کے میں نے ان پر کوئی احسان نہیں کیا! مجھے ایک زندگی اور بھی مل جائے تب بھی میں اپنے والد کی محبت کا قرض نہیں چکا سکتا“ ۔

” آپ کوسب سے زیادہ خوشی کس موقع پر ہوتی تھی؟“ ۔

میں تو سمجھا تھا کہ عسکری بھائی فلم مکمل ہونے، کوئی جوبلی کرنے کے بارے میں کہیں گے لیکن انہوں نے تو عجیب ہی جواب دیا: ”وہ میری زندگی کا حسین ترین دن ہوتا جب میری ماں مجھ سے کہتیں کہ اتنے پیسے چاہئیں بیٹی کی شادی کرنا ہے یا اپنی کوئی اور ضرورت بتاتیں تو مجھے بہت اچھا لگتا۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھے بہت نوازتا بھی تھا۔ بلکہ جس دن سے میری ماں نے مانگنا ختم کیا۔ ماں بھی تو رب کا روپ ہوتی ہے۔ اس نے مجھے دینا بند کر دیا“ ۔

” عسکری بھائی! آپ تو فلم کے آدمی ہیں۔ کیاآپ کی شادی پر ’فلمی‘ ہونے کا اعتراض نہیں ہوا؟“ ۔ میں نے پوچھا۔

” اس زمانے میں فلم کے لوگوں کو رشتہ نہیں ملتا تھا۔ مجھے بھی جو رشتہ ملا وہ میرے خاندانی پس منظر کی وجہ سے ملا۔ اس میں میری اپنی کوئی قابلیت نہیں تھی۔ اس دور میں فلم والوں کو لڑکی دینا تو بہت دور کی بات ہے، لوگ گھر نہیں دیتے تھے۔ ہمارے معاشرے کے بنیاد پرست لوگ اب بھی فلمی لوگوں کو مکان دینا پسند نہیں کرتے۔ بہرحال مجھے رشتہ دینے والوں نے میرا خاندانی پس منظر دیکھا۔ اسٹوڈیوز میں میری مزید پوچھ گچھ کرنے کے بعد یہ رشتہ منظور کر لیا گیا۔ میری انکوائری کرنے والے بعد میں میرے ہم زلف بنے۔ وہ میری بیگم کی بڑی بہن کے میاں اور فوج میں کرنل بھی تھے۔ مجھے این او سی مل گیا اور میری شادی ہو گئی“ ۔

” آپ کے بچوں میں فنون کا شوق کہاں تک ہے؟“ ۔

” میرے دو بچے ہیں۔ بیٹی نے ’جی سی یونیورسٹی‘ سے نفسیات میں ایم ایس سی اور ایم اے اردو بھی کیا ہے۔ وہ ماشاء اللہ اس وقت دو بچوں کی ماں ہے۔ اس کا بیٹا دس اور بیٹی چار سال کی ہے۔ میرے بیٹے کا نام عادل عسکری ہے۔ وہ پاکستان کا ایک معتبر ڈائریکٹر آف فوٹوگرافی المعروف ’ڈی او پی‘ ہے۔ ابھی حال ہی میں اس کی ایک فلم نمائش کے لئے پیش ہوئی تھی۔ یہ خلیل الرحمن قمر کی“ کاف کنگنا ”( 2019 ) ہے جس کا وہ ’ڈی او پی‘ تھا۔ اس سے پہلے شہزاد رفیق صاحب کی فلم

” سلیوٹ“ ( 2016 ) ریلیز ہوئی تھی۔ اس کی عکاسی بھی عادل عسکری نے کی۔ اس کے علاوہ اس کے کوئی تیس پینتیس ٹی وی سیرئیل ہیں۔ اس کا نام اچھے کیمرہ مینوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ میرا بیٹا فیصل بخاری کا اسسٹنٹ رہا ہے۔ آج کل وہ سید نور صاحب کی فلم ”باجرے دی راکھی“ کر رہا ہے ”۔

” آپ کے بچوں کے بارے میں جان کر بہت خوشی ہوئی عسکری بھائی!“ ۔

” یہ ہی میری کل جاگیر ہے۔ اب میرے پاس نہ گاڑی ہے نہ کوٹھی۔ میری کمائی صرف یہ ہے کہ والد صاحب کے انتقال کے بعد میں نے اپنی بہنوں اور بھائیوں کا خیال رکھا۔ اب میں اپنی بہنوں اور بھائیوں کے بچے دیکھتا ہوں۔ کوئی منیجر ہے، کوئی ’ایم کام‘ کر گیا، کوئی فوج میں ہے تو کوئی پولیس میں۔ میرا سب سے چھوٹا بھائی والد کے انتقال کے وقت ایف اے میں پڑھ رہا تھا آج ماشاء اللہ اس کی بیٹی ’یو ای ٹی‘ سے ’گولڈ میڈلسٹ‘ ہے۔

ایک بیٹا ڈاکٹری کر رہا ہے۔ ایک بیٹا کمیشنڈ افسر ہو گیا۔ یہ ہی میری کمائی ہے! وہ سب مجھے تایا ابو کے بجائے ’دادا‘ کہتے ہیں۔ میری بہنیں اور بھائی مجھے اپنا باپ سمجھتے ہیں۔ وہ بچے جو آج پڑھ لکھ گئے ہیں اگر میں ان پر توجہ نہ دیتا تو وہ بہنیں سیٹ ہوتیں نہ ان کو اچھے رشتے ملتے اور نہ ان بھائیوں کو اچھی جگہیں ملتیں!“ ۔

” جب آپ کے اچھے دن آنے شروع ہوئے تو آپ کے والد کا کیا رد عمل ہوا؟“ ۔

” وہ بہت ہی خوش ہوتے تھے۔ اخبارات میں میری فلموں پر تعریفی تبصرے آتے، ٹیلی وژن پر بھی میرا نام آتا، دیواروں پر بھی میری فلموں کی وال چاکنگ نظر آتی، ریڈیو پر اس زمانے میں فلموں کی کافی پبلسٹی ہوتی تھی اور نوجوان فلم ڈائریکٹر حسن عسکری نام لیا جاتا۔ الغرض ہر جانب بار بار میرا نام گونجتا۔ وہ کہیں باہر نکلتے تو میرا نام لکھا ہوتا تھا۔ اخبار اٹھاتے تو اس میں بھی میرا ذکر۔ یہ سب سن اور دیکھ کر والد صاحب کی خوشی قابل دید ہوتی“ ۔

” وہ انگریزی ناول پڑھتے اور انگریزی فلم دیکھتے تھے۔ جب میں ڈائریکٹر بنا تو پہلی فلم سے ہی انہیں سنیما ہال میں اپنی فلم دکھانے لے کر جاتا۔ انہوں نے شروع کی میری تمام فلمیں دیکھیں۔ جیسے :“ وحشی جٹ ”،“ خون پسینہ ”،“ سلاخیں ”،

” آگ“ وغیرہ۔ فلم ”آگ“ کی ریلیز تک وہ زندہ رہے ”۔
” ان فلموں کو دیکھ کر کیا کہتے تھے؟“ ۔

” جیب میں ہاتھ ڈال کر انگریزی میں کہتے ’ویل ڈن‘ ، ’ویری گڈ‘ اور ’ایکسی لنٹ‘ ۔ یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے سے خوشی چھلکتی۔ جس فلم کو دیکھنے وہ ہال میں قدم فرما دیتے وہ فلمیں عوام میں قبول عام حاصل کرتیں۔ وہ میرے والد کی دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھی خیر و برکت نازل کر دیتا اور میری کوتاہیوں پر پردہ پڑ جاتا۔ میں نے کیا کرنا تھا نہ میں کسی قابل ہی تھا۔ یہ تو میری ماں کی دعائیں تھیں۔ انہوں نے لمبی عمر پائی اور چوراسی برس تک حیات رہیں جب کہ والد باون ترپن سال کی عمر میں انتقال کر گئے جب کہ میں تیس برس کا بھی نہیں ہوا تھا۔ پھر سب ذمہ داریاں مجھ پر پڑ گئیں۔ میں نے اپنی مقدور بھر کوشش کی احسن طریقے سے نبھا سکوں“ ۔

” عسکری بھائی! ہدایت کاری کے میدان میں نئے آنے والوں کے لئے کیا کہنا پسند فرمائیں گے؟“ ۔

” میں یہ ہی کہوں گا، ابھی میں نے جس واقعہ کا ذکر بھی کیا ہے کہ شوق، لگن، محنت، کام سے دیانت داری کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو صلاحیتیں بخشی ہیں ان کا بھر پور اظہار کیجئے۔ اس میں اپنی نجی زندگی کے جو دوسرے مشاغل ہیں ان کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ نئے آنے والوں سے یہی درخواست ہے کہ آپ کی صلاحیت ایک امانت ہے جس کا آگے منتقل ہونا ایک فرض ہے۔ اور یہ زمین جو مادر وطن پاکستان ہے اس کی مٹی سے پیار اور وفا کریں۔ اسی کی محبت میں سب کچھ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).