تضادات بھرے تجزیات


سیاسی تسلسل اور ہموار طرز عمل دو صورتوں میں ہوتا ہے، اولاً اگر کسی ملک میں آئینی نظم و ضبط ہو یا آئینی مثالیت پسندی کی روایت کے فکریرجحانات سماج میں گہرائی تک سرایت شدہ ہوں۔

دوم، سیاسی جماعتیں معروف معنوں میں نظریاتی اٹھان رکھتی ہوں۔ محض کھوکھلے نعروں کی بجائے ریاست کے مالی، سیاسی اور سماجی امور کی نوعیت و سمت کے متعلق واضح دو ٹوک نظری بیانیہ رکھتی ہوں جو دیگر جماعتوں سے کلی طور نہیں تو جزوی طور پر سہی مختلف تو نظر آتا ہو۔ موقف، بیانیہ اور لائحہ عمل کی تفہیم و اظہار کا پیرایہ ایک جماعت کو دوسری جماعتوں سے الگ یا ممتاز کرتا ہو۔ ان کی شناحت افراد کے برعکس تنظیمی نظم و نسق اور سیاسی منشور سے معروف ہو۔

میں افراد کی اہمیت سے انکار نہیں کر رہا، میرا اصرار یہ ہے کہ افراد اپنے فکر و عمل سے پارٹی کے نظریات کی عملی تصویر و توضیح کرتے ہوں، ان کی اپنی شناحت بھی پارٹی کے پروگرام کا عکس ہو نہ کہ افراد کا عکس پارٹی کی شناحت و خدوخال کا ترجمان دکھائی دے۔

مذکورہ بالا صورتحال عملاً موجود ہو تو کسی بھی شخص کے لئے جو سیاسی شد بد کا مالک ہو یہ قیاس کرنا سہل ہوتا ہے کہ کل کلاں ملک میں آئینی طور پر کیا ہونا ممکن ہے اور کسی جماعت کا درپیش مسئلہ پر کیا موقف ہو گا؟

پاکستان روز اول سے ہی آئین اور غیر مبہم دو ٹوک نقطہ ہائے نظر رکھنے والی سیاسی قیادت وجماعتوں سے محروم رہا ہے۔ آئین کی متفقہ تشکیل ملک کو دو لخت کرنے کی قیمت چکانے کے بعد ممکن ہوئی بھی تو محض ساڑھے چار سال کے مختصر سے عرصہ کے لیے۔

5 جولائی 1977ء کی سیاہ شب نے آمریت کے روپ میں ملک پر ایسی تاریکی مسلط کی کہ اب تک صبح پرنور کا جلال و جمال پوری آب و تاب سے طلوع ہونے سے قاصر نظر آتا ہے۔ بظاہر آئین اور جمہوریت بحال ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ آئین سے ماوراء فیصلہ سازی کا مرکز کہاں ہے؟ جمہوریت کی بنیاد آزادانہ عوامی حق رائے شمار کی ہوتی ہے۔ جہاں عوام کی اس مقدس امانت کو چرایا جاتا ہو وہاں جمہوریت کے علاوہ وہ سب کچھ رائج ہوتا ہے جسے عوام کی حاکمیت اعلیٰ کے منافی سمجھا جاتا ہے۔

آئین میں سینیٹ کے انتخابات کا ٹائم فریم اور طریقہ کار واضح طور پر درج ہے لیکن حکومت جمہوری رائے کے تقدس کو طشت ازبام کرنے کے درپے ہے اور سپریم کورٹ میں چلی گئی ہے کہ سینیٹ کے آمدہ انتخابات کے لئے خفیہ رائے شماری کے آئینی طریقے کو بدل کر اسے اوپن اظہار کے ساتھ منسلک کر دیا جائے۔

یہ ابہام آئین کی کسی شق کا عطاء کردہ تو نہیں، نہ ہی آئین کی مختلف دفعات کے تضاد کا شاخسانہ ہے جس کے لئے آئین پاکستان میں سپریم کورٹ کو تصریح و توضیح یا تشریح کا اختیار دیا گیا ہے۔ مذکورہ صدارتی ریفرنس حکومت کے ذہنی خلجان یا داخلی انحراف و عدم اعتماد کا مظہر ہے ۔ اب بھی صدر مملکت نے ریفرنس عدلیہ کو بجھواتے ہوئے اپنا ذہن استعمال نہیں کیا، قبل ازیں جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھی سپریم جوڈیشنل کونسل کو بجھوائے گئے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ کرتے ہوئے ایوان صدر نے اپنے فرائض منصبی سے روگردانی کی تھی، جس کا اظہار سپریم کورٹ کے لارجر بینج کے فیصلے میں واشگاف الفاظ میں ہوا تھا۔

مبہم اور غیر واضح مقاصد کی مسلسل موجودگی کا عکس موجودہ بحرانی عمل میں ذرائع ابلاغ پر اہل دانش کے تجزیات میں بھی صاف جھلکتا نظر آتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں جبکہ قومی جمہوری تحریک (پی ڈی ایم ) احتجاجی تحریک منظم کر رہی ہے۔ متضاد خیالی اور غیر مستقل پسندی بلکہ نظریاتی بصیرت کی تنہائی جیسی بے ربطگی و اضمحلال اور ذہنی خلجان سامنے آ رہا ہے۔ مختلف آرا کے اظہار کی آزادی کے علی الرغم یہ اصول بھی منسلک ہے کہ ظاہر کی گئی کسی بھی رائے سے اختلاف کرنے اور اختلافی رائے بیان کرنے کی ناقابل تنسیخ اجازت ہو گی، اس نوعیت کے اختلافی اظہار رائے کو مباحثہ سمجھا جائے گا،  کسی کی تضحیک نہیں۔

20 ستمبر کو ہوئی اے پی سی کے بطن سے نمودار ہونے والی پی ڈی ایم نےاپنا ایجنڈا، پالیسی اور حکمت عملی جاری کی ۔ حکومت کے خلاف اس کی لائی ہوئی معاشی سیاسی تباہ حالی، پارلیمان، جمہوریت، سیاست اور وفاقیت کو لاحق خطرات کے تدارک اور معاشی سماجی انحطاط پذیری کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ حکومت کے فی الفور خاتمے اور ازسر نو منصفانہ شفاف مداخلت سے پاک عام انتخابات کے مطالبات پیش کیے تو ذرائع ابلاغ میں پی ڈی ایم کی پالیسی کے اہداف و دلائل کو یکسر نظر کرتے ہوئے اس کی احتجاجی حکمت عملی پر اعراضات وارد ہونا شروع ہو گئے۔

سب سے بنیادی مگر غیر جمہوری و آئینی اعتراض جو نمایاں ہوا، وہ یہ تھا کہ پی ڈی ایم حکومت کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے اسے آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دے۔ سب معزز تجزیہ کاروں نے ملکی آئین کی کسی شق کا حوالہ دیے بغیر اپنے مندرجہ بالا استدلال کی حقانیت پر اصرار کیا۔ آئین میں منتخب اسمبلی کی زیادہ سے زیادہ مدت بیان ہوتی ہے لیکن وہ بھی لازمی طور پر محفوظ و طے شدہ نہیں رکھی گئی۔

وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو جبکہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحاریک پیش نہ ہوئی ہوں، اسمبلیاں تحلیل کرنے کا استحقاق تفویض کیا گیا ہے۔ یہ پہلو پارلیمانی اداروں کی معینہ مدت کی ناگزیریت کی مکمل نفی کرتا ہے۔ ثانوی طور پر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ معینہ مدت پارلیمانی ادارے کی طے ہے، حکومت کی نہیں۔ حکومت کے تسلسل و بقا کا انحصار ہاؤس میں اس کی عددی اکثریت پر ہے، اراکین اسمبلی کی اکثریت عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے کسی بھی وقت حکومت کو رخصت کرنے کا آئینی حق رکھتی ہے، یہ نکتہ بھی حکومت کے لیے پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے استدلال کے منافی ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم احتجاجی جلسوں کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہ رہی تھی؟

سینیٹ میں چیئرمین جناب صادق سنجرانی کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کیسے اور کن ذرائع سے ناکام بنائی گئی تھی، یہ سب جانتے ہیں، نادیدہ کردار سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے کے لیے اچانک نمودار نہیں ہوا تھا۔ 2018ء کے عام انتخابات اور قبل از انتخابات جو کچھ ہوا تھا وہ ملکی تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔ کردار و طریقہ کار کی جزئیات کے ساتھ۔

چنانچہ حزب اختلاف کا یہ خیال ٹھوس حقائق کی نشاندہی کرتا ہے کہ جب تک متذکرہ صدر نادیدہ قوت (احتراماً یہ لفظ لکھا ہے وگرنہ اب کچھ بھی مخفی ہے نہ ہی نادیدہ) خود کوسیاست سے علیحدہ کر کے اپنے آپ کو آئینی منصب داری کے فرائض تک محدود نہیں کرتی، یرغمال شدہ پارلیمان میں آئینی ذرائع بروئے کار لا کر ان ہاؤس تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ سادہ الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ مسلط شدہ حکومت پر جب تک ہائی برڈ حکومت لانے والی چھتری کا سایہ موجود ہے، آئینی ذرائع استعمال کرتے ہوئے اس نا اہل حکومت سے نجات ممکن ہے نہ ہی عوام کی زندگیوں کو لاحق بے روزگاری، مہنگائی اور معاشی افراتفری کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔

پی ڈی ایم نے پرامن سیاسی جہد کے ذریعے پارلیمانی آزادی عمل کی بازیابی کی پالیسی اپنائی، احتجاجی جلسوں نے بہت نمایاں طور پر اقتدار کے ایوان و حلقہ اختیار میں سراسیمگی نما ہلچل پیدا کی،کچھ واضح اشارے اس متوقع فاصلے کی نشاندہی کرنے لگے جن سے یرغمال پارلیمان کی آزادی کا امکان روشن ہوا، پی ڈی ایم نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ حکومت بیس دسمبر تک گھر چلی جائے گی ۔ لانگ مارچ اور استعفوں کی بات بھی کی گئی، یہ سب کچھ ان حالات پر منحصر تھا جسے سطور بالا میں فاصلے کی نشاندہی کرنے والے اقدامات سے تعبیر کیا گیا ہے۔

بد قسمتی سے فاصلوں کے متعلق قیاس و امکان خوش گمانی و سراب نکلا اس پر مستزاد یہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات سر پر آ گئے، یہ واضح دکھائی دینے لگا کہ تبدیلی کا وقت مارچ کے بعد نمودار ہو سکتا ہے لہٰذا سیاسی بصیرت کا تقاضا تھا کہ آئین کی ساخت و خدوخال کو لاحق خدشات کا مؤثر سدباب کیا جائے، سینیٹ کی موجودہ عددی صورت سر دست حکمرانوں کے لیے آئین میں من پسند تبدیلیوں کی راہ میں دیوار بنی ہوئی ہے اور اگر بہ عجلت پی ڈی ایم صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائے تو کیا یقین کیا جاسکتا ہے کہ وسیع طور پر سامنے آنے والے آئینی و پارلیمانی بحران کی حساسیت کو قبول کرتے ہوئے حکومت (اور اس کے سرپرست) ضمنی انتخابات سے گریز کریں گے؟

یہ وہ تاریخی مرحلہ تھا جب پی ڈی ایم کو اپنی علانیہ حکمت علمی میں ترامیم پر مجبور ہونا پڑا۔ اس سیاسی عملیت پسند بصیرت کو میڈیا تجزیات میں تحریک کی شکست، باہمی داخلی اختلافات، موقع پرستی اور تحریک بکھر جانے کے الفاظ سے پکارا گیا۔ کیا تجزیہ کار حضرات پی ڈی ایم سے توقع رکھتے اور پسند کرتے تھے کہ وہ پرامن ذرائع ترک کر کے پر تشدد ذرائع اپنا لے اور ایران جیسی شاہ مخالف جدوجہد پر کار بند ہو جائے۔ ؟ کیا اہل قلم و حکمت سمجھتے ہیں کہ ملک پر تشدد سیاسی جدوجہد کے مظاہرے مثلاً شاہراہوں پر شہریوں اور ریاستی مشنیری کے مابین مسلح تصادم انارکی و افتراق کا متحمل ہو سکتا ہے؟

اگر اس کا جواب نفی میں ہے اور یقیناً نفی میں ہی ہونا چاہیے تو پھر پی ڈی ایم تحریک کی حکمت عملی میں تغیر وتبدیل کو معروضی حقائق و ضروریات کے تناظر میں سمجھتے ہوئے اس کا جائزہ لینا چاہیے اس پر تبرے کی بجائے تحسین کی نظر ڈالی جائے تو اس کے کثیر الجہت فوائد ملک وعوام کو ملیں گے، پرامن سیاسی جمہوری جدوجہد پراعتماد بڑھے گا تو اختیار واقتدار کی تقسیم ختم ہو پائے گی، پارلیمان بازیاب ہو گی تو ریاست پر عوام اقوام کا بھروسا و اعتماد اور عوامی خود مختاری کے تصورات مستحکم ہوں گے۔

تجزیات میں ابہام اور تجزیہ کار کی ذہنی و فکری بے سمتی عوام کی درست رہنمائی میں حائل ہو جاتی ہے۔

” سرو اور گھاس“ کے عنوان سے لکھے گئے خوبصورت مرصع و مرقع کالم میں علامتوں کے ذریعے جس وضاحت کے ساتھ صورتحال بیان ہوئی ہے وہ قابل داد ہے، جس تضاد خیالی کی جانب میں اشارہ کر رہا ہوں اس کی جھلک بھی مگر اسی تحریر میں موجود ہے۔ یوں کہیے کہ محترم و مکرم کالم نگار نے خالص دودھ سے برتن لبا لب بھرنے کے بعد اس میں دو مینگنیاں بھی ڈال دی ہیں، لکھتے ہیں:

”آیا ایسے میں ضروری نہیں کی اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان فیصلہ کن طاقتیں ملک و قوم کی بہتری کے لئے کوئی کردار ادا کریں؟ کیا وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے پارلیمان کی ناکامی کا حشر دیکھتی رہیں گے“

محترم سوئے ادب کی معذرت۔ گزارش ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر براجمان عہدیداران کس برتے پر یا کس آئین و قانون کے تحت فیصلہ ساز قوتیں قرار پاتی ہیں؟ اعلیٰ عہدوں پر براجمان اہلکار، افسران یا حاکم نہیں عوام کے ملازم ہیں،  سول سرونٹس۔ جبکہ فیصلہ و حاکمیت کا حق صرف پاکستان کے عوام کے پاس ہے جس کی صراحت و وضاحت دستور پاکستان کے دیباچے یا تمہید میں بیان کردی گئی ہے۔

”اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم کل ہے اور پاکستان کی قوت جمہوریہ کو جو اقتدار و اختیار کی مقررہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق حاصل ہے وہ ایک مقدس امانت ہے، یہ پاکستان کے عوام کی منشاء ہے کہ ملکی انتظام و انصرام کی خاطر حکم نامہ مرتب اور جاری کرے۔ ایک ایسا جمہوری ڈھانچہ قائم کیا جائے جس میں ملک کے عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو ہی اقتدار و اختیارات حاصل ہوں گے“

پارلیمان کی ناکامی کا حشر! تو جناب یہ سراسر لغو بات ہے اصل مسئلہ پارلیمان کی سلب شدہ آزادی عمل کی بازیابی کا ہے، آپ جناب نے جن سے کردارادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اگر وہ اصل فیصلہ کن قوت ہیں تو پھر سرو کے درخت سے گلہ کیسا؟ بہ نظر دقت جائزہ لیں تو آپ کی تحریر اور معروضی حقیقت نامہ بتاتا ہے کہ پارلیمان کو مفلوج بنا کر اس کا حشر دیکھنے کے لئے ہی تو سیاست میں مداخلت اور انتخابات میں انجینئرنگ کی جاتی ہے۔ ”سرو اور گھاس“ والے کالم کا اختتامیہ زیادہ تشویش ناک اور توجہ کاحامل ہے۔

”پاکستانی اقتدار اعلیٰ نے اگر تاریخ میں اپنا نام روشن رکھنا ہے تو انہیں سیاسی نظام کو چلانے کے لئے ایڈوائیس اور مدد دینا ہو گی“۔ شاید ہم نے نئے سال کے ابتدائی پندرواھڑے میں رونماء ہوئے ملکی واقعات اور واشنگٹن میں ٹرمپ کے انجام میں پینٹاگون کے کردار سے کچھ سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اسی لیے مبہم پسندی کے جنگل میں بھٹکتے ہوئے منزل پر پہنچنے کے سپنے جاگتی آنکھوں دیکھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).