امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی حلف برداری، وائٹ ہاوس میں کیا تیاریاں کی گئی ہیں؟


بائیڈن، ٹرمپ
جو بائیڈن امریکہ کے 46ویں صدر کے طور پر اپنے عہد کا حلف 20 جنوری کو اٹھائیں گے
وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کی صدارت کے آخری نقوش بھی مٹائے جا رہے ہیں تاکہ نو منتخب صدر جو بائیڈن حلف اٹھانے کے بعد اقتدار سنبھالتے ہی یہاں منتقل ہو سکیں۔

وائٹ ہاؤس کی تمام دفتری میزیں خالی کر دی گئی ہیں، کمروں کی اچھی طرح صفائی ستھرائی کر دی گئی ہے تاکہ نو منتخب صدر اپنے معاونین اور مشیروں کی نئی ٹیم کے ساتھ فوری طور پر اپنا کام شروع کر سکیں۔

امریکہ میں صدارتی انتخابات کے بعد اقتدار منتقلی کے عمل کا یہ بہت بڑا حصہ ہے جس سے نئی حکومت کو اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے میں مدد ملتی ہے۔

گزشتہ ہفتے کی ایک شام ٹرمپ انتظامیہ کے کلیدی عہدیدار سٹیفن ملر وائٹ ہاؤس کے مغربی حصہ میں رہ رہے تھے۔

ملر جو پہلے دن سے صدر ٹرمپ کی پالیسیاں مرتب کروانے اور ان کی تقاریر لکھنے میں معاونت کرتے رہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی ابتدائی ٹیم کے ان چند لوگوں میں شامل رہے ہیں جو آخر تک ان کے ساتھ رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

وائٹ ہاؤس کی زندگی پر بل کلنٹن کا ناول

وائٹ ہاؤس سے رخصتی کے بعد صدر ٹرمپ مستقبل میں کیا کیا کر سکتے ہیں؟

وائٹ ہاؤس کے بعد زندگی کیسے گزارتے ہیں؟

دیوار کا سہارا لیے اپنے ساتھیوں سے کسی میٹنگ کا وقت مقرر کرنے کے لیے گفتگو کرتے ہوئے وہ قطعاً کسی عجلت میں نظر نہیں آئے۔

وائٹ ہاوس سے تصاویر اور دستاویزات لے جائی جا رہی ہیں

وائٹ ہاوس سے تصاویر اور دستاویزات لے جائی جا رہی ہیں

وائٹ ہاؤس کا مغربی حصہ جو عام طور پر کافی پررونق اور مصروف رہتا ہے سنسان نظر آ رہا تھا۔ فون بند تھے۔ تمام دفاتر میں میزوں پر کاغذات اور بغیر کھلے خطوط بکھرے ہوئے تھے اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان دفتروں میں کام کرنے والے افسران جلدی میں سب کچھ چھوڑ کر نکل گئے ہیں اور واپس آنے والے نہیں۔

درجنوں سنیئر حکام اور معاونین کیپیٹل ہل پر چھ جنوری کو ہونے والے حملے کے بعد مستعفی ہو گئے تھے۔

بات چیت ختم کر کے جب ملر اپنے ساتھیوں سے علیحدہ ہو کر واپس جانے لگے تو اس وقت میں نے ان سے پوچھا کہ ان کی اگلی منزل کیا ہو گی تو انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’میرا دفتر‘ اور لمبے لمبے قدم بھرتے ہوئے اپنے دفتر کی طرف چلے گئے۔

یہ بہت کٹھن ہے

حلف برداری کے دن ملر کے دفتر کو صاف ستھرا اور تمام نشانیوں سے پاک ہونا چاہیے تاکہ بائیڈن کی ٹیم یہاں اپنا کام شروع کر سکے اور انھیں ایسا محسوس نہ ہو کہ ان سے پہلے یہاں کسی اور نے کبھی کام کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے مغربی حصے کی ہر چار سال بعد اس انداز میں صفائی، امریکہ میں اقتدار منتقلی کی دو صدیوں سے زیادہ عرصے پر محیط سیاسی روایات کا ہمیشہ سے اہم جز رہی ہے۔

یہ ایک ایسا مرحلہ ہوتا ہے جس میں ہمیشہ گرمجوشی شامل نہیں ہوتی۔

سنہ 1869 میں ایک اور ڈیموکریٹ صدر اینڈریو جانسن جن کا مواخذہ کیا گیا تھا انھوں نے یولیسس ایس گرانٹ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ گرانٹ جنھوں نے جانسن کو اقتدار سے الگ کرنے کی حمایت کی تھی وہ اس رد عمل پر قطعی طور پر حیران نہیں تھے۔

اس سال اقتدار منتقلی کا سارا عمل بہت تلخیوں کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ عمل عموماً انتخابات کے فوراً بعد ہی شروع ہو جاتا ہے لیکن اس مرتبہ یہ عمل تاخیر کا شکار ہو گیا کیونکہ صدر ٹرمپ نے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ صدر ٹرمپ نے حلف برداری کی تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا ہے اور ممکن ہے کہ وہ فلوریڈا میں مار لاگو کلب چلے جائیں۔

لیکن جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے اس وقت بھی اقتدار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہو رہا ہے۔

امریکی یونیورسٹی پرنسٹن میں تاریخ کے پروفیسر سین وینلٹز کا کہنا ہے کہ ’نظام چل رہا ہے۔ راستہ بڑا ناہموار ہے، بہت جھٹکے لگ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اقتدار کی منتقلی ہونے جا رہی ہے۔‘

ٹرمپ

صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں منتقل ہوتے ہی سب سے پہلے امریکہ کے مقبول ترین صدر اینڈریو جیکسن کی تصویر اوول آفس میں لگوائی تھی

لیکن انتہائی خوشگوار وقتوں میں بھی اقتدار کی منتقلی ایک بڑا کام ہوتا ہے جس میں تمام تر معلومات اور سرکاری عملے کا بہت بڑے پیمانے پر منتقل ہونا شامل ہوتا ہے۔

سٹیفن ملر ان چار ہزار سے زیادہ سیاسی تقرریوں میں سے ایک تھے جو ٹرمپ انتظامیہ نے کی تھیں جن کی نوکریاں اب ختم ہو جائیں گی اور جو بائیڈن اپنے لوگ لے کر آئیں گے۔

واشنگٹن میں قائم سینٹر فار پریزیڈینشل ٹرازیشن کے مطابق امریکہ میں اقتدار کی منتقلی کے دوران ڈیڑھ سے تین لاکھ افراد نوکریوں کے لیے درخواستیں دیتے ہیں۔ ان میں گیارہ سو کے قریب ایسی تقرریاں بھی ہوتی ہیں جن کی توثیق کے لیے سینیٹ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ان سب آسامیوں پر بھرتیوں میں کئی ماہ اور بعض اوقات سال بھی لگ جاتے ہیں۔

چار سال کی پالیسی دستاویزات، بریفنگ کے کتابچے اور دیگر حساس نوعیت کی چیزوں کو بکسوں میں بند کر کے ’نیشنل آرکائیوز میں پہنچا دیا جاتا ہے جہاں انھیں بارہ سال تک خفیہ رکھا جاتا ہے تاوقتکہ صدر خود ہی یہ فیصلہ کریں کہ ان میں سے کچھ دستاویزات عام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

صدر ٹرمپ کی پریس سیکرٹری کیلی میکنینی

صدر ٹرمپ کی پریس سیکرٹری کیلی میکنینی انتہائی تربیت یافتہ، بولنے میں محتاط اور تلخ ترین سوالات کا سامنا کرتے وقت بھی اپنے غصے کو قابو میں رکھنا جانتی تھیں

آگے کا سفر

صدر ٹرمپ کی پریس سیکرٹری کیلی میکنینی کے دفتر کا دروازہ گزشتہ ہفتے کی ایک شام کو آدھا کھلا ہوا تھا۔ میکنینی صدر کا دفاع کرنے والے سرکردہ لوگوں میں شامل تھیں۔ انتہائی تربیت یافتہ، بولنے میں محتاط اور سخت اور تلخ ترین سوالات کا سامنا کرتے وقت بھی اپنے غصے کو قابو میں رکھنا جانتی تھیں۔

گو کہ وہ بھی جانے کی تیاریاں کر رہی تھیں لیکن پھر بھی ان کا دفتر انتہائی منظم دکھائی دے رہا تھا۔

وائٹ ہاؤس پر ایک کتاب کی مصنفہ کیٹ اینڈرسن برور کا کہنا ہے کہ عام طور پر آخری کچھ دنوں میں ایک ’منظم سا ہنگامہ نظر آتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کا فرنیچر جن میں اوول آفس کا ریزولوٹ ڈیسک بھی شامل ہے، دیواروں پر لگی بہت سی تصاویر، چینی کے ظروف اور دیگر بہت سی اشیا سرکاری ملکیت میں آتی ہیں اور وہ کہیں نہیں جاتیں۔

لیکن دیگر بہت سے چیزیں جن میں صدر کی تصاویر جو راہداریوں میں لٹکائی جاتی ہیں انھیں ہٹا لیا جاتا ہے تاکہ نئے مکینوں کے سامان کی گنجائش پیدا کی جا سکے۔

وائٹ ہاؤس کے عملے میں شامل ایک خاتون اہلکار مشرقی حصے سے خاتون اول میلانیا ٹرمپ کی تصاویر نکال کر لا رہی تھیں۔

یہ دیو قامت تصاویر جنھیں اپنے سائز کی وجہ سے ’جمبو‘ کہا جاتا ہے اس خاتون کے مطابق نیشنل آرکائیوز میں رکھوا دی جائیں گی۔

صدر ٹرمپ اور ان کی فیملی کی ذاتی اشیا جن میں کپڑے، زیورات اور دیگر چیزیں شامل ہیں انھیں فلوریڈا میں مار آلگو منتقل کر دیا جائے گا۔

وائٹ ہاؤس لان

اس مرتبہ واہٹ ہاؤس کی خصوصی صفائی کی جائے گی۔

صدر اور ملر سمیت وائٹ ہاؤس کے عملے کے درجنوں افراد گزشتہ کئی ماہ میں کورونا وائرس کا شکار ہو گئے تھے جس کی وجہ سے وائٹ ہاؤس کی عمارت کی چھ منزلوں اور 132 کمروں کی اچھی طرح صفائی کی جائے گی اور ان کو جراثیم سے پاک کیا جائے گا۔

وفاقی ادارے جرنل سروسز ایڈمنسٹریشن کی ترجمان کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاوس میں لگی لفٹس کے بٹنوں، دروازوں کے ہینڈل سے لے کر ہر چیز کو صاف کیا جائے گا اور ان کو جراثیم سے پاک کیا جائے گا۔

صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں منتقل ہوتے ہی سب سے پہلے امریکہ کے مقبول ترین صدر اینڈریو جیکسن کی تصویر اوول آفس میں لگوائی تھی۔ انھوں نے پردے، صوفے اور قالین بھی تبدیل کیے تھے۔

حلف برداری کے دن نائب صدر مائیک پینس بھی نو منتخب نائب صدر کمالا ہیرس کے لیے سرکاری رہائش گاہ کی انیسویں صدی کی عمارت کو، جو وائٹ ہاؤس سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے، خالی کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp