ابھی نندن کی رہائی سے ارنب گوسوامی کے انکشاف تک


دو روز سے پاکستان اس بات پر شدید رد عمل دے رہا ہے کہ متنازعہ بھارتی صحافی ارنب گوسوامی کو فروری 2019 میں بالاکوٹ پر بھارتی فضائی حملے کے بارے میں پہلے سے معلومات حاصل تھیں۔ اس بھارتی ایڈونچر کے اگلے ہی روز پاک فضائیہ نے بھارت کے دو فائیٹر مار گرائے تھے اور ایک بھارتی پائیلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرلیا تھا۔ تاہم چند روز بعد ہی پاکستانی حکومت نے ’جذبہ خیر سگالی‘ کے تحت بھارتی پائیلٹ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس دوران بھارت میں قومی انتخابات کی مہم زور شور سے جاری تھی۔ ابھی نندن کی گرفتاری اور اس کی رہائی کو وزیر اعظم نریندر مودی نے سیاسی مقصد کے لئے استعمال کیا۔ انہوں نے ایک ایسی خطرناک فضائی جھڑپ کا خطرہ مول لیا تھاجس کی وجہ سے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو ملکوں میں جنگ چھڑنے کا اندیشہ موجود تھا۔ البتہ نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی نے بالاکوٹ پر حملے اور پھر ابھی نندن کی رہائی کو پاکستان پر بھارت کی بالادستی کے طور پر پیش کیا ۔ عالمی سطح پر فضائی صورت حال کی نگرانی کرنے والے کسی ادارے نے بھارت کے ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کی کہ اس نے پاکستانی حدود میں فضائی حملہ کرکے دہشت گردوں کے کسی کیمپ کو تباہ کیا تھا۔ پاکستان نے غیر ملکی صحافیوں کو اس جگہ کا معائنہ کرواکے یہ ثابت کردیا تھا کہ بھارتی طیارے ایک جنگل میں بارود پھینک کر بھاگ گئے تھے جس سے ماحولیاتی نقصان کے علاوہ پاکستانی تنصیبات کو گزند نہیں پہنچی تھی۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کی حکومت البتہ ابھی تک یہ نہیں بتا سکی کہ اس افسوسناک اور خطرناک سانحہ کے بعد بھارت جیسے دشمن اور مودی جیسے انتہا پسند لیڈر کی حکومت کے ساتھ فوری خیرسگالی کا مظاہرہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ کون سی مجبوری تھی کہ ابھی نندن کو تیسرے ہی روز باعزت طور سے بھارت کے حوالے کردیا گیا۔
اس حوالے سے متعدد قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں۔ کوئی بھی ملک کسی دباؤ یا ضرورت کے بغیر کسی دشمن ملک کے ساتھ ایسی خیر سگالی سے پیش نہیں آتا۔ عالمی معاہدوں کے مطابق پاکستان کو شاید جلد یا بدیر بھارتی اسکارڈن لیڈر ابھی نندن کو رہا کرنا ہی پڑتا لیکن اسے چند ہفتے یا چند ماہ حراست میں رکھ کر بھارتی انتخاب میں پاکستان کے خلاف نعرے بازی کرنے والے نریندر مودی کی زبان بندی ضرور ہوسکتی تھی۔ فوری طور سے ابھی نندن کی رہائی کو نریندر مودی نے بھارت کی سفارتی کامیابی تسلیم کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اسے پاکستان پر عسکری فتح کے طور پر پیش کیا اور اپنے ووٹروں کو یہ کامیابی فروخت کرنے کے لئے پاکستان سے رہا ہونے والے ابھی نندن کی تصویروں والے انتخابی پوسٹر تک چھاپے گئے۔ مودی اور بی جے پی کے لیڈروں نے اپنی تقریروں میں یہ تاثر عام کیا کہ مودی کی قیادت میں بھارت اتنا طاقت ور ہے کہ پاکستان اس کے پائیلٹ کو گرفتار کرلینے کے باوجود اسے حراست میں رکھنے کا ’حوصلہ ‘ نہیں کرسکتا۔ اسی لئے اسے فوری طور سے رہا کرنا پڑا، ورنہ بھارت اسے سخت ’سزا ‘ دے سکتا تھا۔
اس حوالے سے معاملہ کے دو پہلوؤں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ایک یہ کہ اس وقت پاکستانی وزیر اعظم عمران خان بھارت میں نریندر مودی کی انتخابی کامیابی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کہ بی جے پی انتہا پسند ہندو ایجنڈے پر انتخاب میں حصہ لے رہی ہے۔ اس لئے اگر نریندر مودی دوبارہ انتخاب جیت گیا تو وہ پاکستان کے ساتھ مفاہمت کے کسی معاہدے پر پہنچنے کا اقدام کرسکتا ہے۔ یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے عمران خان کی دلیل یہ تھی کہ کانگرس جیسی پارٹی پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے اور کشمیر پر کسی تصفیہ تک پہنچنے کی جرات نہیں کرے گی کیوں کہ اسے انتہاپسند ہندوؤں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ جبکہ مودی چونکہ انہی عناصر کا نمائندہ ہے، اس لئے وہ آسانی سے مشکل فیصلے کرلے گا۔ ہوسکتا ہے عمران خان کی اس سوچ کے درپردہ جولائی 2001 میں آگرہ میں پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری باچپائی کی سربراہی کانفرنس میں ہونے والی پیش رفت ہو۔ اس موقع پر دونوں ملک کشمیر سمیت متعدد امور کے متفقہ حل پر ’راضی ‘ ہوگئے تھے لیکن معاہدے پر دستخط کی نوبت نہیں آئی کیوں کہ بھارت کی طرف سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا گیا۔ بعد میں بھارتی ذرائع کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ بھارتی حکومت پرویز مشرف اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ پر اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔
اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ وہی عناصر تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کا سبب بنے تھے جو پرویز مشرف کی حقیقی طاقت تھے۔ پاکستانی اسٹبلشمنٹ میں یہ سوچ موجود ہوسکتی ہے کہ بھارت کی سول حکومت نے پرویز مشرف کے آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے گریز کیا ہو۔ اگر عمران خان جیسے مقبول لیڈر کی سربراہی میں سویلین پاکستانی حکومت بات چیت کرے گی تو بھارت میں بی جے پی کی حکومت ضرور آگرہ میں طے ہونے والے اصولوں کی بنیاد پر معاہدے پر راضی ہوجائے گی۔ اسی تاثر کی بنیاد پر عمران خان نے اپنا یہ سیاسی نظریہ پیش کیا ہو کہ مودی انتخاب جیت گیا تو دونوں ملکوں کے درمیان امن معاہدہ کا امکان روشن ہوجائے گا۔ یہ سوچتے ہوئے البتہ عمران خان اور ان کے ہم خیال عناصر یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ اٹھارہ برس میں پاکستان ہی نہیں بھارت کے حالات بھی ڈرامائی طور سے تبدیل ہوچکے تھے۔ بھارت معاشی لحاظ سے مستحکم اور سفارتی طور سے طاقت ور اور بارسوخ ہوگیا تھا۔ پاکستان کی بجائے اب بھارت نہ صرف امریکہ کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے بلکہ اس کے ساتھ دفاعی معاہدہ بھی کرچکا ہے جس کے مطابق جنگ کی صورت میں دونوں ملک ایک دوسرے کی تنصیبات استعمال کرسکتے ہیں۔ جنگی نفسیات کے حوالے سے یہ معاہدہ بھارت کے اعتماد و حوصلہ میں اضافہ کا سبب بنا ہے۔
مودی سے امن کی توقع کرتے ہوئے پاکستانی لیڈر نریندر مودی اور باجپائی کے مزاج کا موازنہ کرنے میں بھی ناکام رہے۔ اٹل بہاری باچپائی بنیادی طور پر شاعر اور انسان دوست تھے اور وہ خطے میں خوشحالی اور امن کے داعی تھے ۔ ان کے برعکس نریندر مودی کی ساری زندگی سیاسی انتہاپسندی سے عبارت ہے۔ 2019 تک پہنچتے پہنچتے بھارت میں ہندو انتہاپسندی کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا۔ مودی ہندو عظمت کی بحالی کا ایجنڈا لے کر میدان میں اترے تھے اور اس وقت ملک کی نصف آبادی ان کے اس مذہبی جنون کے ساتھ کھڑی ہے۔ نریندر مودی نے اپنے گزشتہ چار سالہ دور حکومت میں بھی پاکستان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی تھی۔ دسمبر 2015 کے آخر میں بیک ڈور ڈپلومیسی کے نتیجہ میں نریندر مودی اچانک نواز شریف کے مہمان کے طور پر لاہور آئے تھے۔ اور امید کی جارہی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن کی راہ ہموار ہوسکے گی کہ 2 جنوری 2016 کو پٹھان کوٹ کا سانحہ ہوگیا۔اس طرح نئی دہلی کو خبر ہوگئی کہ پاکستان کے ساتھ امن معاہدہ میں بہت سے پل صراط عبور کرنا ہوں گے۔ اب دونوں ملک اپنے اپنے مورچے سے ایک دوسرے کو انتہا پسند کہہ کر باہمی امن کی رکاوٹوں میں اضافہ کررہے ہیں۔
بھارتی پائیلٹ ابھی نندن کی فوری رہائی کے حوالے سے دوسرا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ پاکستان نے ابھی تک خیر سگالی کے علاوہ اس کی کوئی قابل قبول وجہ نہیں بتائی۔ اگر بھارت کے سخت رد عمل کا ’خوف‘ اور جنگ کا اندیشہ اس فیصلہ کی وجہ نہیں تھا تو عمران خان کو بتانا چاہئے کہ پاکستان پر حملہ آور ہونے والے بھارتی پائیلٹ کو کسی مناسب پوچھ گچھ کے بغیر کیوں چھوڑا گیا ۔ اس حوالے سے بھارت کو کسی باقاعدہ پروٹوکول پر دستخط کرنے پر بھی مجبور نہیں کیا گیا تھا۔ پاکستان جس طرح بھارت کے ساتھ ہر وقت حالت جنگ میں رہتا ہے، اس کی روشنی میں اسکارڈن لیڈر کے عہدے پر فائز انڈین ائیر فورس افسر کی گرفتاری انٹیلی جنس معلومات کے حصول کے لئے ایک بریک تھرو کی حیثیت رکھتی تھی۔ بھارت میں نریندر مودی انتخاب کا سامنا کررہے تھے اور ابھی نندن کی مسلسل حراست ان کی سیاسی پوزیشن کمزور کرتی۔ ایسے وقت میں پاکستانی حکومت نے ابھی نندن کو چھوڑ کر مودی کو سیاسی لائف لائن فراہم کی تھی۔ عمران خان کو اب دنیا کے سامنے مودی کو فاشسٹ ثابت کرنے کی مہم چلانے سے پہلے اہل پاکستان کو بتانا چاہئے کہ فروری 2019 میں ابھی نندن کو رہا کرتے ہوئے کون سی مجبوریاں درپیش تھیں یا ایسی کون سی ضمانتیں حاصل کی گئی تھیں جو بعد میں ’جعلی‘ ثابت ہوئیں۔ یہ واقعہ پاکستان کی عسکری کامیابی لیکن سفارتی ناکامی کا سیاہ باب کہا جاسکتا ہے۔
اب ایک بھارتی صحافی کے جرائم کی تحقیقات میں سامنے آنے والی معلومات کو وزیر اعظم عمران خان سمیت ان کی پوری حکومت نریندر مودی پر سفارتی سبقت لے جانے کے لئے کررہی ہے۔ عمران خان نے ٹوئٹ پیغامات میں دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے تو یہ بات 2019 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بتا دی تھی کہ بھارتی حکومت پاکستان کے خلاف مہم جوئی کے ذریعے خطے کو جنگ میں جھونک سکتی ہے۔ مودی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے یہ کہنے کے لئے کوئی سیاسی نابغہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹوئٹ بیان میں وزیر اعظم نے مودی کو فاشسٹ قرار دیا اور ایک بار پھر برصغیر میں ایٹمی جنگ کے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ کوئی ذمہ دار ایٹمی ملک کبھی جنگ یا تنازعہ کی صورت میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی بات زبان پر نہیں لاتا۔ یہ اعزاز بھی پاکستان و بھارت کے لیڈروں کو ہی حاصل ہے۔
عمران خان بھی جانتے ہوں گے کہ انہوں نے اپنے ٹوئٹ بیان کے ذریعے جو طوفان پاکستان میں برپا کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے دنیا کے کسی دارالحکومت میں کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوگی۔ نہ ہی اس دلیل میں کوئی وزن محسوس ہوتا ہے کہ گوسوامی کے واٹس ایپ پیغامات سے سامنے آنے والی مبینہ معلومات سے ’بھارتی حکومت اور میڈیا کے ناپاک گٹھ جوڑ‘ کا پتہ چلتا ہے۔ یہ گٹھ جوڑ ہر ملک اور ہر دور میں موجود رہتا ہے۔ کیا پاکستانی صحافی اپنے قومی مفاد کے لئے حکومتی مؤقف پیش کرنے میں سر دھڑ کی بازی نہیں لگاتے۔ ایک بدنام اور الزامات کی زد پر آئے ہوئے صحافی کے واٹس ایپ پیغامات پر پاکستان کا شور شرابا، ملک کی ہنگامہ خیز مگر ناقص خارجہ حکمت عملی کا پول کھولتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali