سعودی عرب میں سزائے موت دینے کی شرح میں ’نمایاں‘ کمی کی وجوہات کیا ہیں؟


سعودی عرب، سزائے موت
سعودی عرب کے ایک حکومتی ادارے کے مطابق گذشتہ سال ملک میں موت کی سزا پانے والے افراد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

سعودی ہیومن رائٹس کمیشن (ایس ایچ آر سی) نے بتایا ہے کہ سنہ 2020 میں 27 افراد کو سزائے موت دی گئی ہے۔ ادارے کے مطابق یہ تعداد سنہ 2019 کے مقابلے 85 فیصد کم ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ منشیات سے متعلق جرائم پر سزائے موت دیے جانے میں غیر اعلانیہ طور پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اس طرح ’کم سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو دوسرا موقع دیا جا رہا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

سعودی عرب نے کوڑوں کی سزا ختم کر دی

عالمی مذمت کے باوجود سماجی کارکن کو پانچ سال قید کی سزا

سعودی عرب: 18 سال سے کم عمر مجرموں کو سزائے موت نہیں دی جائے گی

انسانی حقوق کے کارکنوں کے گروہ ’ریپریو‘ نے متنبہ کیا ہے کہ رواں سال (سنہ 2021) سزائے موت پانے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ ’اس کمی کی وجہ فروری سے اپریل تک کووڈ 19 کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ حکومت نے وائرس سے بچاؤ کے لیے عائد سختیوں کی وجہ سے لوگوں کو سزائے موت نہیں دی۔‘

سعودی عرب، سزائے موت

انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ سنہ 2021 میں سعودی عرب میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے

’2020 کی آخری سہہ ماہی کے دوران حکومت نے بڑی تعداد میں موت کی سزائیں دینے کا اعلان کیا۔ صرف دسمبر میں گذشتہ سال دی جانے والے سزائے موت کا ایک تہائی دیا گیا۔‘

انسانی حقوق کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سعودی عرب نے سنہ 2019 میں 184 افراد کو سزائے موت دی۔ ان میں سے نصف غیر ملکی شہری اور چھ خواتین تھیں۔

ریپریو اور انسانی حقوق کی یورپی-سعودی تنظیم (ای ایس او ایچ آر) نے ایسے 80 افراد کے کیسز پر نظر رکھی ہوئی ہے جو سزائے موت پانے کے مختلف مراحل پر ہیں۔

ان میں کئی افراد پر ایسے جرائم کے الزامات ہیں جن میں انسانی حقوق کی تنظیمیں تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ ریپریو کا کہنا ہے کہ ممکن ہے مقدمات کے دوران ان کے جائز حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔

گذشتہ سال اپریل میں ایس ایچ آر سی نے ایک شاہی حکم نامے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو اپنے جرائم پر سزائے موت دی جا رہی ہے جبکہ کم عمر افراد کو سزائے موت نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ 10 سال قید کی سزا دی جا رہی ہے۔

لیکن اس حکم نامے کو سرکاری طور پر شائع نہیں کیا گیا تھا اور انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا تھا کہ پانچ کم عمر افراد اب بھی سزائے موت کے منتظر ہیں۔

ان کم عمر افراد میں علی النمر، داؤد المرحون اور عبد اللہ الزہر شامل ہیں جن کی عمر 15 سے 17 سال کے درمیان ہیں۔ انھیں ملک میں اقلیتی شیعہ برادری کی جانب سے کیے گئے حکومت مخالف مظاہروں کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ریپریو کی ڈائریکٹر مایہ فوا کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب میں بہتری کا تعلق شاید اس کی جانب سے اپنی بین الاقوامی ساکھ کو بہتر کرنے سے ہے۔ لیکن عوامی روابط اور قانونی تبدیلیوں میں واضح فرق ہے جو ممکنہ طور پر خطرناک ہے۔‘

مشرق وسطیٰ میں ہیومن رائٹس واچ کے نائب ڈائریکٹر ایڈم کوگل کا کہنا ہے کہ سلمان العودہ اور حسن فرحان المالکی جیسے ہائی پروفائل کیسز میں سعودی استغاثہ ان افراد کے پُرامن اور سیاسی خیالات کی بنا پر ان کے لیے سزائے موت کی درخواست کر رہے ہیں۔

ان دو اصلاح پسند مذہبی رہنماؤں کو دیگر کئی دانشوروں، خواتین اور انسانی کے حقوق کے کارکنان سمیت سنہ 2017 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ خیال ہے کہ سعودی حکام کی جانب سے حکومت مخالف عناصر کے خلاف یہ ایک کریک ڈاؤن کا حصہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp