ایران کا جوہری پروگرام: خلیجی ملک کی جوہری تنصیبات کو حملوں کا خطرہ کیوں لاحق ہے اور یہ حملے کیسے ہو سکتے ہیں؟


ایران میزائل
ایران نے اپنے میزائل پروگرام میں کافی سرمایہ کاری کی ہے
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت صدرات کے خاتمے پر ایران نے بحیثیت مجموعی مگر محتاط انداز میں سُکھ کا سانس لیا ہے۔

چند حلقوں کو یہ خدشہ تھا کہ اپنی صدارت کے آخری دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی اپنی پالیسی کو مزید بڑھاوا دیتے ہوئے ایران کے سویلین جوہری پلانٹس اور دیگر اہداف پر فوجی حملہ کریں گے۔

نومبر میں واشنگٹن سے حاصل ہونے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی صدر نے اس آپشن پر غور بھی کیا تھا لیکن ان کے مشیران نے انھیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔

یہ بھی پڑھیے

ایران جوہری معاہدہ: کیا کوئی راستہ بچا ہے؟

ایران: ’محسن فخری زادہ کو ریموٹ کنٹرول ہتھیار کے ذریعے ہلاک کیا گیا‘

کیا ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف اسرائیل ’خفیہ جنگ‘ جاری رکھے ہوئے ہے؟

اس کے برعکس نو منتخب صدر جو بائیڈن نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ ایران کے ساتھ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہو، جس کا مطلب یہ ہو گا ایران اس معاہدے کی مکمل پاسداری کرے اور اس کے بدلے میں اس پر عائد سخت معاشی پابندیاں ہٹائی جائیں اور تہران کو کچھ رقم جاری کی جائے۔

تو کیا اب ایران حملے سے محفوظ ہے؟

اسرائیلی طیارہ

اسرائیل کے وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ ‘اسے حملے کے آپشن کی ضرورت ہے’

سادہ الفاظ میں کہا جائے تو، نہیں۔ اسرائیل نہ صرف ایران کی سویلین جوہری سرگرمیوں سے بلکہ اس کے بلیسٹک میزائل تیار کرنے کے پروگرام کی وجہ سے بھی انتہائی تشویش کا شکار ہے۔

جمعرات کے روز ایران کے جوہری ترقیاتی پروگرام کے حوالے سے اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گینٹز کا قول نقل کیا گیا جس میں انھوں نے کہا: ’یہ واضح ہے کہ اسرائیل کے سامنے فوجی آپشن کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے وسائل اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور میں اس کو انجام دینے کے لیے کام کر رہا ہوں۔‘

اسرائیل چونکہ اسلامی جمہوریہ ایران کا علی الاعلان دشمن ہے اس لیے وہ ایران کے ہاتھوں میں جوہری بم کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اس نے دنیا کو اس کو روکنے کی اپیل کی ہے، اس سے قبل کہ کہیں بہت دیر ہو جائے۔

ایران نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام خالصتاً پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ لیکن اس کی جانب سے یورینیم کی افزودگی میں اضافے کی حالیہ کارروائی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران کا یہ قدم سنہ 2015 کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس میں ایران کو ایک حد کے اندر ہی یورینیم کی افزودگی کی اجازت دی گئی تھی۔

سنہ 1981 میں اسرائیل کو شبہ ہوا تھا کہ عراقی صدر صدام حسین جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔

اس نے پیشگی کارروائی کے تحت ’آپریشن بابل‘ میں اپنے ایف 15 اور ایف 16 جیٹ طیاروں کا استعمال کر کے عراق کے اوسیرک ایٹمی ری ایکٹر کو تباہ کر دیا تھا۔

سنہ 2007 میں یعنی 26 سال بعد اس نے ’آپریشن آؤٹ سائیڈ باکس‘ میں شام کے ساتھ ایسا ہی کیا اور دیر الزور کے قریب صحرا میں ایک خفیہ پلوٹونیم ری ایکٹر کو اپنا کام شروع کرنے سے پہلے ہی تباہ کر دیا تھا۔

نظروں سے دور

لیکن فاصلہ، رسائی اور فضائی دفاع کی بات کی جائے تو ایران ایک بہت مشکل ہدف ہے۔

اس بات پر سوالیہ نشان ہے کہ کیا اسرائیل امریکی شراکت کے بغیر ایران پر کامیاب فضائی حملے کر سکتا ہے اور امکان یہی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ایسا کرنے سے گریزاں ہو گی۔

امریکہ، اسرائیل اور ممکنہ طور پر خلیجی عرب ریاستوں کی طرف سے اپنے جوہری تنصیبات کو لاحق دیرینہ خطرے سے باخبر ایران نے اپنی کچھ تنصیبات کو پہاڑوں کے نیچے زیر زمین لے جانے پر رقم خرچ کی ہے۔

اگرچہ ایران کی جوہری صنعت بظاہر سویلین ہے لیکن وہ فوجی اور سکیورٹی کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ قریب سے جڑی ہوئی ہے۔

درحقیقت ایرانیوں نے جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی تیاری میں اتنا عرصہ لگا دیا ہے کہ اب اس بات امکان نہیں رہا کہ ان کی زیر زمین سہولیات ناقابل تسخیر ہیں۔

اس کے باوجود ایران کے جوہری تنصیبات تین محاذوں پر حملے کا شکار ہو سکتی ہیں۔

طبعی طور پر حملہ

بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ برائے سٹریٹجک سٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) میں ایسوسی ایٹ فیلو اور اسلحہ کنٹرول کے ماہر مارک فٹز پیٹرک کا کہنا ہے کہ ’ایران کی تنصیبات ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔‘

’نطنز [میں موجود تنصیبات] کو سٹیک بنکر شکن بمباری سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور دو بار کے حملے میں وہ تباہ ہو سکتا ہے۔ یعنی پہلا حملہ شگاف بنانے کے لیے اور دوسرا حملہ اس کے ذریعے فیسیلیٹیز کو تباہ کرنے کے لیے یا کم از کم اتنا ہلا دینے کے لیے کہ نازک مشینیں ناکارہ ہو جائيں۔‘

لیکن ایران ایک وسیع و عریض ملک ہے اور اس کی جوہری تنصیبات ملک کے طول و عرض کی گہرائی میں پھیلی ہوئی ہیں۔

بہت پہلے سنہ 2012 میں ہی ماہرین نے کہا تھا کہ فردو (ایران کا ایک علاقہ) میں یورینیم کی افزودگی کی سہولت ایک پہاڑ کے اندر کم از کم 80 میٹر (یا 260 فٹ) کی گہرائی میں ہے اور ممکن ہے کہ عین امریکہ کے سٹیک ’بنکر بسٹنگ‘ بم سے بھی اس کو نقصان نہ پہنچ سکے۔

مارک فٹزپٹرک کا کہنا ہے کہ ’فردو کی زیادہ گہرائی اسے بنکر بسٹرز تو محفوظ کرتی ہے لیکن سبوتاژ کرنے سے نہیں۔ اس کے داخلی راستوں اور ہوا کے لیے بنائے گئے روشن دانوں کو دھماکے سے تباہ کر دینے سے مہینوں تک اسے کام کرنے سے باز رکھا جا سکتا ہے۔‘

لیکن ان سہولیات تک پہنچنے کے لیے ایک نہیں بلکہ ممکنہ طور پر دو بار ایرانی فضائی حدود میں اندر دور تک داخل ہو کر فضائی حملہ کرنا ہو گا اور اس کے لیے یا تو اس کے دفاعی نظام کو چکمہ دینا ہو گا یا پھر اس کے فضائی دفاع کو قابو میں لا کر ہی ایسا کیا جا سکتا ہے۔

ایران نے اپنی زمین سے ہوا تک مار کرنے والی میزائل فورس تیار کرنے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے جس میں باور 373 بھی شامل ہے جو کہ روس کے ایس۔300 نظام کا ایک دیسی ساختہ ورژن ہے اور جو 300 کلومیٹر (186 میل) دور تک طیارے کو ٹریک کرنے اور نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایک واحد جزوی طور پر کامیاب حملے کا امکان تو ہے لیکن اس میں خطرہ یہ ہے کہ پائلٹ کو پکڑ لیا جائے گا اور اسے ایرانی ٹی وی پر دکھایا جائے گا اور یہ وہ چیز ہے جو کسی حملے سے باز رکھتی ہے۔

انسانوں پر حملہ

محسن فخری زادہ

یہ پہلے سے ہی ہوتا رہا ہے۔

اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے ایران کے اندر ایجنٹوں کے غیرمعمولی طور پر باخبر نیٹ ورک تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

اتنا باخبر نیٹ ورک کہ جب 27 نومبر کو ایران کے اعلی فوجی سائنس دان جنرل محسن فخری زادہ تہران کے مشرق میں ایک سنسان سڑک پر ایک محفوظ قافلے میں سفر کر رہے تھے تو ان کے حملہ آوروں کو ان کے راستہ اور اوقات کا بخوبی علم تھا۔

اس دن ان پر کس طرح حملہ ہوا اس کے متعلق مختلف اطلاعات ہیں۔

ایران کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک پک اپ ٹرک پر نصب سیٹلائٹ کنٹرولڈ مشین گن کے ذریعہ کیا گیا تھا۔ جبکہ دوسرے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ موساد کے تربیت یافتہ ایجنٹوں کی ایک بڑی ٹیم نے کیا اور وہ فرار ہونے میں کامیاب رہے اور اب تک آزاد ہیں۔

بہر حال بات کوئی بھی ہو فخری زادہ کو قتل کر دیا گیا۔ انھیں ’ایران کے ایٹمی پروگرام کے گاڈ فادر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور امریکی انٹیلیجنس کا کہنا ہے کہ انھوں نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے رازدارانہ طور پر کام کیا تھا۔

اسرائیل نے باضابطہ طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے کہ اس حملے کے پسِ پشت کون تھا۔

اس سے قبل سنہ 2010 اور 2012 کے درمیان ایران کے اندر چار سرکردہ ایرانی جوہری سائنسدانوں کو قتل کیا گیا جن میں سے بیشتر کو کار بم دھماکوں سے ہلاک کیا گیا تھا۔

ایک بار پھر اسرائیل نے نہ تو اس میں اپنی شمولیت کی تصدیق کی اور نہ ہی انکار کیا۔ لیکن ان ہلاکتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی سکیورٹی کی جانب سے زبردست تحفظ کے باوجود قاتل اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہیں اور ایران کی جوہری ٹیکنالوجی کی دانشورانہ صلاحیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

سائبر حملہ

نطنز

ایران کا کہنا ہے کہ جولائی سنہ 2020 میں نطنز میں آگ لگایا جانا سبوتاژ کی کوشش تھی

سائبر کی دنیا میں ایک غیر اعلانیہ جنگ جاری ہے جس میں ایران ایک طرف ہے اور امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب اس کے خلاف صف آرا ہیں۔

سنہ 2010 میں سٹکس نیٹ نامی پیچیدہ مالویئر کو خفیہ طور پر نطنز میں موجود ایران کے یورینیم افزودگی کے سینٹری فیوجز کو کنٹرول کرنے والے کمپیوٹرز میں ڈال دیا گیا تھا۔

اس کے نتیجہ میں وہاں افراتفری مچ گئی اور اس کی وجہ سے سینٹرفیوجز قابو سے باہر ہو گئے اور سالوں سے افزودگی کا جو پروگرام جاری تھا اسے بہت پیچھے کر دیا گیا۔

اس سائبر حملے کو بڑے پیمانے پر اسرائیلی کی جانب سے کیا جانے والا حملہ کہا گیا اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیلی ماہرین نے ’سٹکس نیٹ‘ تیار کرنے میں تعاون کیا تھا۔

ایران نے جلد ہی اس کا جواب دیا اور شامون کے نام اپنے جدید ترین مالویئر کو کامیابی کے ساتھ سعودی عرب کی سرکاری ملکیت والی تیل کمپنی آرامکو کے نیٹ ورک میں داخل کر دیا جس نے 30 ہزار کمپیوٹرز کو غیر فعال کر دیا اور سعودی عرب کے تیل کی پیداوار کو خطرہ لاحق ہو گیا۔

اس کے بعد مزید حملے جاری رہے۔

مستقل خطرہ

ایران

ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے

سنہ 2015 کے جوہری معاہدے یعنی مشترکہ جامع منصوبے پر عمل درآمد ایران کی جوہری سرگرمیوں پر اس طرح کی سخت پابندیاں عائد کرنے والی تھیں کہ اس کے مخالفین کو فوجی حملے پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔

لیکن اسرائیل اور سعودی عرب اس معاہدے کے بارے میں ہمیشہ شبے میں رہے کیونکہ وہ اسے بہت ہی نرم اور عارضی سمجھتے تھے کیونکہ اس میں ایران کے بلیسٹک میزائل پروگرام کو روکنے کے متعلق کچھ بھی نہیں تھا۔

آج وہ اس معاہدے کو بحال کرنے والی بائیڈن صدارت کے بارے میں کم پُرجوش ہیں جب تک کہ ان کے خدشات کو کم نہیں کر دیا جاتا۔

خلیجی خطے میں کوئی بھی مزید تنازعات نہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ سعودی عرب کے تیل کے انفراسٹرکچر پر سنہ 2019 میں ہونے والے میزائل حملے پر بھی کچھ نہیں ہوا اگر چہ ایران اور اس کے اتحادیوں پر بڑے پیمانے پر اس کے الزام لگائے گئے۔

لیکن جب تک یہ شکوک شبہات باقی ہیں کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار کی صلاحیت حاصل کرنے پر کام کر رہا ہے اس وقت تک اس کی سہولیات پر حفظ ماتقدم کے تحت حملے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہے گا۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp