ایک دن بالاج کے ساتھ


ماں باپ نے ہمیں پیدا کیا۔ پھر ہم نے اپنے بچے پیدا کیے۔ پھر اپنے بچوں کے بچے دیکھے۔ اتنی لمبی زندگی! جی اوب گیا۔ تب بالاج ننھے ننھے قدموں سے چلنے لگے، تو لگا کہ جیسے زندگی اب شروع ہوئی ہے۔

جب یہ تین سال کے ہوئے تو شرارتوں سے ماں کو اجیرن کر کے رکھ دیتے۔ دادی کے پاس تو ہفتے میں ایک بار آتے ہیں۔ دادی کو تو کبھی ان کی کوئی حرکت، کوئی نقصان، کوئی رونا پیٹنا، کوئی ضد پریشان نہیں کرتی۔ جانے یہ ماں باپ کیوں میرے بچے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔

ایک روز بالاج میاں نے ایک کھلونا دیا کہ اسے کھولیں تاکہ معلوم ہو کہ اس میں کیا بج رہا ہے۔ بہت کوشش کی کھل نہیں پایا، تو بالاج نے ہمارے ہاتھ سے لے کر اسے زمین پر مار دیا۔ مگر کھلونا بچے کی طاقت سے زیادہ مضبوط تھا۔ ہم نے پوری طاقت سے اس کھلونے کو زمین پر مارا تو کھلونا دو ٹکڑے ہو گیا۔ اس کھلونے کے اندر سے بجنے والی کوئی چیز نکلی بھی ہو گی تو کہیں گم ہو گئی ہو گی۔ مگر میرے بچے کی ناصرف تسلی ہو گئی بلکہ ایسے کسی بھی کھلونے کے اندر سے کوئی چیز بازیاب کرانی ہو تو وہ صرف اپنی دادی کی ہی خدمات حاصل کرتا ہے۔ اب دادی کوئی بھی کھلونا خریدنے سے پہلے احتیاط کرتی ہے کہ اندر سے کوئی آواز نہ آئے۔

دس روز قبل بالاج میاں گرم پانی اوپر ڈال بیٹھے۔ اب علاج سے تکلیف میں کچھ کمی آئی۔

سوچا آج بالاج میاں کے ساتھ دن گزارا جائے۔ ساڑھے بارہ بجے رامش کے گیٹ پر کھڑے تھے۔ بیل بجائی، دروازہ کھلا سامنے کوئی نہیں تھا، آہٹ پر جھک کر دیکھا تو بالاج مسکرا رہے تھے۔ گود میں لے کر خوب پیار کیا۔ بہو سے تکلیف کے بارے میں پوچھا، تسلی ہوئی کہ کافی کم ہے۔ ہم نے بالاج سے کہا آؤ کرکٹ کھیلیں۔

”امی! اس کی بال صبح سے نہیں مل رہی ہے“ ۔ بہو فوراً بولی۔ ”آپ نے کہہ دیا اب پھر بے چارہ ڈھونڈنے لگے گا“ ۔

”اچھا یہ بات ہے۔ چلو بالاج گیند لینے باہر چلیں“ ۔ بالاج میاں تو خوش ہو گئے۔
”امی اس نے اپنی چپل بھی نیچے پھینک دی ہے“ ۔ بہو نے بتایا۔
”چلو پھر اسے شوز پہنا دو ہم اس کی چپل بھی لیں گے“ ۔
”امی آپ اسے کیسے لے کر جائیں گی“ ۔
”ارے بھئی آن لائن گاڑی منگواتے ہیں“ ۔

ہم نے گاڑی بک کی، بالاج کا منہ دھلایا انہیں جاگرز بڑی مشکل سے پہنائے گئے۔ جا نے کی خوشی میں وہ پیر بھی سیدھا نہیں کر رہے تھے۔ دروازے سے باہر نکلے تو ہاتھ چھڑا کر ہم سے آگے آگے چلنے لگے۔ تیز تیز بغیر ریلنگ پکڑے اترنے لگے۔

”ارے بیٹا ریلنگ پکڑ لو گر جاؤ گے“ ۔

مگر جیسے ان میں بجلی بھر گئی تھی۔ گراؤنڈ پر اتر کر ہم نے ان کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ سلور کلر کی کلٹس سامنے کھڑی تھی، ہم نے بالاج کو گود میں لیا دائیں بائیں دیکھا، دائیں طرف سے ایک چنگچی آ رہی تھی۔ ہمیں دیکھ کر وہ رک گئی۔ بالاج میاں مچل گئے کہ اس میں جا نا ہے۔ سامنے کلٹس کھڑی تھی، ہم نے چگنچی ڈرائیور سے کہا بھیا ہمیں نہیں جانا، لیکن بالاج گود سے گرے جا رہے تھے۔ ہماری کمر ٹوٹنے لگی تو ہم نے انہیں اتار دیا۔

وہ فوراً چنگچی میں سوار ہو نے کی کوشش کرنے لگے۔ ہم نے کلٹس کو ہاتھ لہرا کر بائے بائے کیا، اور بالاج کو چنگچی میں سوار کرنے کے بعد خود بیٹھ گئے۔ کلٹس کو کینسل کیا اور فون کر کے ان سے معذرت اور ہرجانہ بھرنے کا وعدہ کیا۔ معلوم ہوا چگنچی پاپوش مارکیٹ جا رہی ہے۔ دس منٹ بعد ہی ہم مارکیٹ میں اتر گئے۔ ایک غبارے والا قریب آیا۔ اس نے ایک لکڑی میں تین غبارے باندھے ہوئے تھے۔ لکڑی ہلانے پر اندر سے گھنگرو بجتے۔

اس نے بالاج کے پاس لے جا کر انہیں ہلایا۔ بالاج نے فوراً ان کے ہاتھ سے اچک لیے۔ ہمارے ایک ہاتھ میں بالاج کا ہاتھ، دوسرے ہاتھ کو منہ کے پاس لے جا کر بیگ کی زپ کھولی۔ کچھ پیسے ہاتھ آئے بھاؤ تاؤ کرنے کا موقع نہیں تھا۔ سامنے ایک ٹھیلا نظر آیا اس پر بچوں کے دستانے لٹکے تھے۔ میرے بچے کے ہاتھ ٹھنڈے ہو رہے تھے۔ ٹھیلے والے کے اسٹول پر بالاج کو بٹھا کر اسے دستانے پہنانے کے بعد دام پوچھے تو حیرت ہوئی کہ عام سے دستانے اتنے مہنگے!

پر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ ٹھیلے والے نے موقعے کا خوب فائدہ اٹھایا۔ بالاج نے غباروں کے اندر سے آتی آوازوں کی کھوج لگانے کے لیے انہیں زمین پر مارنا شروع کر دیا۔ مگر یوں وہ پھٹنے والے نہیں تھے۔ ہم نے بیگ کے اندر سے بال پوائنٹ نکالا اور بالاج کو سمجھا دیا کہ تینوں غباروں میں اس کی نوک چبھو دے۔ غبارے سے زور کی آواز آئی تو بالاج میاں نے باقی غباروں کی جاں کنی کا کام ہم سے لیا۔

بالاج کو لے کر آگے بڑھے۔ سامنے مارکیٹ نظر آئی چھوٹی چھوٹی دکانیں لائن سے تھیں۔ ان میں بچوں اور بڑوں کی چپلیں بھی تھیں۔ ہم نے ایک دکان پر رک کر بالاج کے لیے موزے والے جوتے، اور ایک جوڑی چل خریدی۔ اور آگے چل دیے۔ آگے کھلونوں کی دکان تھی۔ ہمیں بالاج کے لیے گیندیں لینی تھیں۔ بالاج میاں خود اس دکان میں گھس گئے۔

ہم نے اس کے لیے مختلف رنگوں اور ڈیزائن کی پانچ گیندیں لیں کہ اگر ایک گم ہو جائے تو میرا بچہ ڈھونڈتا نہ پھرے۔ تھوڑی دیر بعد بالاج ایک بڑی سی بس ہاتھ میں پکڑے باہر نکلے۔ شکر ہے یہ علاقہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے۔ مارکیٹ میں چیزوں کے بھاؤ اور کوالٹی بھی اسی مناسبت سے ہے۔ ویسے بچے کو اس سے کیا کھلونا دس ہزار کا ہو یا سو روپے کا بچے کے لیے اس کی وقعت، وقتی ہوتی ہے اور ہمارے لیے اس وقتی خوشی کا دورانیہ زندگی پر محیط ہوتا ہے۔

جب کبھی میں بالاج کے لیے ہم کوئی کھلونا لیتے ہیں، آنکھوں میں بالاج ٹھہر جاتا ہے ۔ وہ ایک مسکراہٹ جو ہمارے ہاتھ سے وہ کھلونا لیتے وقت اس کے چہرے پر آئے گی۔ وہ اس وقت تک اوجھل نہیں ہوتی جب تک اسے وہ کھلونا دے کر وہ مسکراہٹ دیکھ نہ لیں۔

ہم نے رکشے کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑائی، ایک چنگچی ہمارے پاس رک گئی۔ ہم سے پہلے بالاج چڑھنے کی کوشش کرنے لگے انہیں سوار کرا کر ہاتھوں میں تھیلے پکڑے ہم بھی بیٹھ گئے۔ بالاج کے ہاتھوں میں پہنائے دستانے اب ان کے ہاتھوں سے غائب تھے۔

منزل آنے پر اترے۔ تو سیدھے ہاتھ پر ہی ایک منی اسٹور تھا۔ بالاج پائی پائی (پانی) کرنے لگا۔ اسٹور میں گھسے تو بالاج میاں نے سامنے فرج کا دروازہ کھول کر جوس نکال لیا، اور ہم نے پیکٹ میں لپٹا سٹرا نکال اسے دیا۔ دو سپ لے کر جوس ہمارے حوالے کیا، اور فرج کا دروازہ کھول کر کولڈ ڈرنک کا ٹن نکالا، ہم نے اسٹرا نکال کر انہیں ٹن تھما دیا، اس کے بھی دو سپ لے کر انہوں نے اسے سامنے پڑی کرسی پر رکھ دیا اور شیلف سے چپس کا پیکٹ اٹھا لیا۔

اب صورت حال قابو سے باہر ہو نے والی تھی۔ ہم نے کاؤنٹر پر پیسے دیے۔ مچلتے بالاج کو اس عمر میں گود میں قابو کیے کیسے گھر پہنچے، ۔ یہ الگ داستان۔

اپنی لائی کھلونا بس کو کو دیکھ کر بالاج ضد بھول کر اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے۔ کراچی کی بسوں کی طرح اس بس کھلونے کے اندر سے بھی آواز آ رہی تھی۔ اس کے تجسس کو مطمئن کرنے کے لیے دادی کے سوا دنیا میں کون ہے جو بس کو دنیا سے ٹکرا دے، دیوار کیا چیز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments