روداد سفر حجاز(قسط دوم)



ہم جدہ ائیر پورٹ پر اترے، لاؤنج میں ہمیں پولیو کے قطرے پلائے گئے۔ ہماری گھڑیوں میں دن کے 9 بجے تھے، یہ پاکستانی وقت تھا، جبکہ سعودی عرب میں صبح کے 7 بجے تھے۔ ہم نے اپنی گھڑیوں کو 2 گھنٹے پیچھے کر لیا۔ جدہ ائیر پورٹ پر کاغذات کی چیکنگ، سامان کی وصولی اور پھر مکہ روانگی کے لیے بسوں کا انتظار، کل ملا کر 3 گھنٹے لگ گئے۔ پی آئی اے کے عملے نے مسافروں کو جہاز میں لنچ پیک دے دیے تھے، ہم نے وہ کھائے اور اپنے اپنے فون میں سب نے سعودی سم ڈلوائی۔

کچھ کمپنیوں کے ایجنٹ زائرین حج کو چھتریاں اور بیگ تحفتاً تقسیم کر رہے تھے، اسی اثنا میں بسیں آ گئیں۔ ہمارا مکتب نمبر 42 تھا، ہمیں پکارا گیا، ہمارا سامان بسوں میں لادا گیا اور دوپہر 12 بجے ہماری بسیں جدہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئیں۔ تلبیہ کی آوازیں دوبارہ بلند ہوئیں، زائرین حج میں ایک جوش کی لہر دوڑ گئی۔ یہ سفر دو گھنٹے کا متوقع تھا۔ مجھ سمیت کچھ مسافروں کو نیند کے جھونکے آنے لگے۔ مکہ کی حدود شروع ہوئیں تو ہماری آنکھ مردوں کے اونچی آواز سے تلبیہ پڑھنے سے کھل گئی۔

جب مکہ شہر میں داخل ہو گئے تو دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی اور آنکھیں اشکبار ہونے لگیں۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ بالآخر ہم اپنی ان دیکھی منزل مقصود پر پہنچ چکے تھے۔ ہماری رہائش گاہ ابراہیم خلیل اللہ روڈ پر تھی۔ گاڑیاں قریب ترین بازار میں روک دی گئیں۔ چند گلیوں میں سے گزارتے ہوئے ہمیں ہماری رہائش گاہ تک پہنچا دیا گیا۔ بعد میں سامان بھی پہنچا دیا گیا۔ کمروں میں پہنچنے کے بعد ہمیں لنچ بکس بھی دیے گئے۔

کچھ لوگ تو فوراً ہی نماز اور عمرہ کے لئے حرم کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہماری رہائش گاہ حرم پاک سے تقریباً 700 میٹر کے فاصلے پر تھی جو زیادہ نہیں تھا۔ مگر ہم کافی تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے ، اس لیے ہم نے سوچا کہ تھوڑا سا آرام کر کے تازہ دم ہو کر اللہ کے گھر حاضری دی جائے۔ کمرے میں ہی ظہر کی نماز پڑھ کر ہم تینوں سو گئے۔ گروپ لیڈر نے مہربانی کر کے ہم تینوں کو ایک ہی کمرے میں ٹھہرایا۔ عصر اور مغرب کی نماز بھی کمرے میں ادا کی، اس کے بعد چائے پی کر ہم بالکل تازہ دم ہو چکے تھے۔

عشاً کی نماز سے پہلے ہم بڑی عقیدت کے ساتھ تلبیہ پڑھتے ہوئے اللہ کے گھر کی طرف چل پڑے۔ عمارت سے باہر نکل کر، گلیوں سے گزرتے ہوئے ہم بازار میں جب بڑی سڑک پر پہنچے تو بے شمار زائرین حج جوق در جوق حرم پاک کی جانب رواں تھے۔ 6، 7 منٹ پیدل چلنے کے بعد تھوڑی سی چڑھائی آ گئی۔ جب ہم چڑھائی پر چڑھ رہے تھے تو حرم پاک کے مینار نظر آنے لگے، دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ ہم لبیک پکارتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، چند ہی لمحوں میں روشنیوں میں نہائے ہوئے اللہ کے گھر کے مینار اور چار دیواری ہمارے سامنے تھی۔

مجھے تو پلک جھپکنا یاد ہی نہ رہا۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہی وہ مقدس گھر ہے جس کو دیکھنے کی تڑپ میں عمر گزر گئی، آج وہ نظروں کے سامنے ہے، رش بہت زیادہ تھا، عشا کی نماز کا وقت شروع ہوا چاہتا تھا۔ اندر جانے کے سب راسے بند ہو چکے تھے۔ حرم سے باہر کی تمام سڑکوں پر لوگ صفیں بنا چکے تھے۔ ہم نے بھی تھوڑی سی خالی جگہ دیکھ کر مصلے بچھا لیے۔ جلدی جلدی تحیۃ المسجد اور وضو کے نوافل پڑھے۔ اتنے میں اذان کی آواز گونجی جو دل میں اتر گئی۔

نماز ختم کرنے کے بعد ہم نے رش کم ہونے کا انتظار کیا۔ لوگوں کا جم غفیر تھا جو نماز پڑھ کر باہر نکل رہا تھا۔ جب ذرا رش کم ہوا تو ہم نے اندر جانے کے لئے قدم بڑھائے۔ دل کی عجیب حالت تھی، قدم تو آگے بڑھ رہے تھے مگر گھبراہٹ میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ہم باب عبد العزیز سے حرم پاک میں داخل ہوئے۔ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے، نظریں نیچی کیے ، تلبیہ پڑھتے ہوئے ہم سیڑھیاں اترتے چلے گئے۔ حرم پاک کے برآمدوں سے گزرتے ہوئے جب ہم آخری سیڑھی پر پہنچے تو احساس ہوا کہ چھت ختم ہو گئی ہے۔

ہم حرم کے صحن میں پہنچ چکے تھے۔ ہم نظریں جھکائے تھوڑا سا بائیں جانب ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ نظریں اٹھائیں تو ہم مطاف میں اللہ کے عظیم گھر کے سامنے کھڑے تھے۔ وہ گھر جس کی طرف بن دیکھے ساری زندگی ہم نے سجدے کیے تھے۔ ایک بے یقینی والی کیفیت سے کچھ دیر اس گھر کو صرف دیکھتے چلے گئے۔ پھر دل پگھلنا شروع ہو گیا اور بے اختیار آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے۔ نظریں خانہ کعبہ پر جمی تھیں، زبان پر تکبیر، تشریک اور دعائیں تھیں۔

کہا جاتا ہے کہ جب کعبہ پر پہلی نظر پڑے اس وقت مانگی جانے والی دعائیں ضرور شرف قبولیت حاصل کرتی ہیں۔ کیا مانگا جائے، کیسے مانگا جائے، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ایک ہیبت اور لرزہ طاری تھا۔ ہچکیاں بندھ گئیں، اپنی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہونے لگا۔ ہر کوئی چپکے چپکے سے اپنے اللہ سے ہم کلام تھا۔ جب جی بھر کر دعائیں مانگ لیں اور استغفار کر لی تو کچھ سکون سا ہونے لگا۔ خدائے بزرگ و برتر کی موجودگی کا احساس بہت شدت سے ہو رہا تھا، وہ دیکھ رہا ہے، وہ سن رہا ہے۔

طواف قدوم کے سات چکروں کی نیت کی، حجر اسود کا استقبال اور استلام کیا اور طواف کا آغاز کیا۔ ہم بھی انسانوں کے ریلے میں بہنے لگے۔ یوں لگا جیسے قطرہ، سمندر میں مل گیا ہو، اپنے وجود کا احساس ہی ختم ہو گیا۔ سر اور نظریں جھکی ہوئی، قدم آگے بڑھتے ہوئے، زبان سے حمد و ثنائے پروردگار عالم جاری، دل پگھل کر آنکھوں کے راستے اشکوں کی صورت بہنے لگا۔ زندگی بھر کیے گئے گناہ یاد آنے لگے، شرمندگی ہونے لگی، دل سے ایک ہی صدا چیخ بن کر رہی تھی،  بخش دے میرے پروردگار! مجھے بخش دے، تو غفور ہے، تو رحیم ہے، تو کریم ہے، مجھے بخش دے۔

ً ہر کوئی رو رہا تھا، گڑ گڑا رہا تھا۔ رکن یمانی پر پہنچ کر لوگوں کا جوش بڑھنے لگتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ رکن یمانی سے حجر اسود تک کا سفر یہ سوچ کر کریں کہ جیسے آپ جنت کے ٹکڑے پر چل رہے ہوں اور اس دوران کثرت سے استغفار کریں۔ حجر اسود کے سامنے پہنچ کر بھی لوگوں کے اضطراب میں اضافہ ہونے لگتا تھا۔ اسی کیفیت کے ساتھ روتے، گڑگڑاتے، اشک بہاتے سات چکر پورے ہوئے۔ مقام ابراہیم پر بہت رش تھا۔ اس کی سیدھ میں کچھ فاصلے پر جا کر جگہ ملی تو دو رکعت نماز نفل، واجب الطواف ادا کی۔

اس کے بعد جی بھر کر آب زم زم پیا، دعا پڑھی۔ دوبارہ حجر اسود کی سیدھ میں آ کر نواں استلام کیا اور سعی کے سات چکروں کی نیت کر لی۔ پھر ہم صفا کی جانب بڑھے کیونکہ سعی کا آغاز صفا سے ہوتا ہے۔ صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا، دعائیں پڑھتے ہوئے ہمارے سات چکر ختم ہوئے، اس دوران اماں ہاجرہؓ کی اس سعی کو بھی یاد کرتے رہے جب وہ ننھے اسمٰعیلؑ کو لق و دق صحرا میں پیاس سے ایڑیاں رگڑتا ہوا چھوڑ کر پانی کی تلاش میں نکلیں، بے چینی سے صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا تک بار بار چکر لگاتی ہوئے فکر مندی سے مڑ مڑ کے ننھے بچے کو بھی دیکھتی جا رہی تھیں۔

تصور کی آنکھوں سے وہ منظر دیکھا۔ اللہ تعالٰی کو ان کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ قیامت تک انسانوں کو یہ عمل دہرانے کا حکم دے دیا۔ ایک ماں کی تڑپ اور بے قراری کو اللہ ضائع نہیں کرتا، سبحان اللہ۔ سات چکر پورے کرنے کے بعد ہم نے مروہ پر اپنی فولڈنگ قینچیوں سے بال کاٹے۔ شکرانے کے نوافل پڑھے۔ دعاؤں کا سلسلہ جاری رہا۔ ہمارا پہلا عمرہ مکمل ہو چکا تھا، الحمد للہ۔ ہم احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو چکے تھے۔ خوشی سے اپنا آپ ہلکا پھلکا محسوس ہونے لگا۔

ٹانگیں اور پاؤں بہت تھک چکے تھے اور مجھے محسوس ہوا کہ میرے پاؤں کے تلووں میں چھالے بن گئے ہیں۔ آدھی رات ہو چکی تھی۔ مکہ میں ہمارے پہلے دن کا اختتام ہو چکا تھا۔ ہم پیدل چلتے ہوئے واپس ہوٹل کے کمرے میں پہنچے۔ نیند آ رہی تھی، تہجد اور فجر کی نماز کے لیے دوبارہ حرم پاک وقت پر پہنچنا تھا اس لیے جلدی سو گئے۔ دوسرے دن ہم نے صرف نمازوں کی پابندی کی، عمرہ اور طواف نہ کیا۔ تیسرے دن ہم نے دوباہ نفلی عمرہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کے لئے مسجد عائشہ جانا ضروری تھا جو کہ مقامی لوگوں کے لیے میقات ہے۔ مغرب اور عشا کی نماز حرم پاک میں ادا کرنے کے بعد ہم لوگ لوکل بس میں بیٹھ کر مسجد عائشہ چلے گئے۔

سمیعہ اور میں نے تو کمرے میں ہی احرام پہن لیا تھا، البتہ منصور نے مسجد عائشہ میں آ کر احرام پہنا۔ تحیۃ المسجد کے دو نفل ادا کیے ، احرام کی نیت کر لی اور دوبارہ بس میں بیٹھ کر ہوٹل کے کمرے میں واپس آ کر سو گئے۔ تہجد کے وقت دوبارہ حرم میں جا کر پہلے تہجد اور فجر کی نمازیں ادا کیں۔ پھر اشراق کی نماز سے فارغ ہو کرہم دوبارہ نفلی عمرے کی نیت سے مطاف میں اترے۔ جب ہم نے حرم کے گرد سات چکر پورے کر لئے تو مقام ابراہیم پر نفل پڑھنے کا موقع مل گیا اور اس کے بعد اللہ تعالٰی نے حطیم میں داخل ہونے کا موقع بھی عطا کر دیا۔

حطیم میں نفل ادا کرنے کے بعد حرم کی دیوار کے ساتھ لپٹنے کا موقع بھی پروردگار نے عطا کر دیا یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی بچہ اپنی بچھڑی ہوئی ماں کی ٹانگوں سے لپٹ کر رونے لگتا ہے۔ میری چیخیں نکل گئیں۔ آہ و فغاں کا ایک طوفان میرے چاروں طرف اٹھ رہا تھا۔ وجود لرز رہا تھا۔ ہر کوئی اپنے معبود سے ہم کلام تھا، گریہ کر رہا تھا۔ کسی کو پروا نہ تھی کہ کوئی سن رہا ہے یا دیکھ رہا ہے، کیا سوچے گا، کیا کہے گا، بس اعتراف جرم ہو رہا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ حطیم خانہ کعبہ کا ہی حصہ ہے جو اس میں داخل ہوا گویا وہ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوا اور جو اس کی دیوار سے لپٹا وہ رب دو جہاں سے لپٹا۔ وہ قبولیت کی گھڑیاں تھیں، معلوم نہیں کتنا وقت گزر گیا۔ بے خودی کی کیفیت تھی۔ جتنی دعائیں یاد تھیں، سب مانگ لیں۔ سب سے بڑی دعا تو یہی تھی کہ یا اللہ ہماری پچھلی ساری زندگی کے سارے گناہ معاف فرما دے جو ہم نے دانستہ یا نادانستہ طور پر کیے ۔ وہاں سے ہٹنے کا تو کسی کا دل ہی نہیں چاہتا مگر رش بہت زیادہ ہوتا ہے اور ہر کوئی آگے بڑھ کر لپٹنے کو بے قرارہوتا ہے اس لئے دوسروں کو بھی جگہ دینا ضروری ہوتا ہے۔

حطیم سے باہر نکلی تو رکن شامی سے رکن یمانی تک کی درمیانی دیوار کے پاس لوگوں کے ہجوم نے مجھے دھکیل دیا۔ میں ایک مرتبہ پھر بیرونی دیوار سے لپٹ گئی۔ مجھے لگا میرا رب مجھے اپنے پاس بلا رہا ہے، خود موقع فراہم کر رہا ہے، دیوار خالی مل گئی۔ میں پھر لپٹ گئی، آہ و فغاں کا طوفان دوبارہ امڈ پڑا، جیسے کوئی صدیوں کا بچھڑا ہوا ملا ہو۔ ہمارا محبوب حقیقی، جس کو ہم فراموش کیے بیٹھے تھے، آج سامنے ہے، مہربان ہے، گلے مل رہا ہے، دیوانگی کی سی کیفیت تھی۔

حج پر جانے سے پہلے بہت سے لوگوں نے پاکستان میں دعائیں لکھوائی تھیں، وہ سب مانگ لیں اور دل کو یقین کامل تھا کہ وہ سن رہا ہے، قبول کر رہا ہے۔ اس کی سند ہمیں چند ہی دن کے بعد مل گئی۔ حسن جو منصور کا تایا زاد ہے وہ بلڈ کینسر کا مریض تھا، اس کی صحت یابی کے لیے تہہ دل سے ہم نے دعائیں مانگی تھیں۔ ہمیں ایک ہی ہفتے کے اندر پاکستان سے فون آ گیا کہ اس کی رپورٹس کلیئر آ گئی ہیں۔ الحمدللہ، ہم نے شکرانے کے نفل ادا کیے۔

شب و روز اس معمول کے مطابق گزر رہے تھے کہ ہم ظہر سے پہلے پہلے حرم میں جاتے، نماز ظہر، عصر، مغرب اور عشا ادا کرتے۔ کبھی کبھی ظہر اور عصر کمرے میں بھی پڑھ لیتے۔ حرم میں فرض نمازوں کے علاوہ نوافل اور دیگر نفلی نمازیں مثلاً اشراق اور اوابین وغیرہ بھی پڑھ لیتے۔ قرآن پاک کی تلاوت بھی کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ مکہ میں قیام کے دوران کم از کم ایک مرتبہ تو ضرور قرآن ختم کرنا چاہیے اور زیادہ کا تو کوئی حساب نہیں۔

عشا کی نماز سے فارغ ہو کر ہم ایک نفلی طواف کر لیتے اور ہوٹل واپس آ کر تقریباً گیارہ بجے کھانا کھاتے اور سو جاتے۔ صبح 3 بجے جاگ جاتے اور تہجد کے لیے دوبارہ حرم میں چلے جاتے۔ تہجد، فجر اور اشراق کی نمازوں سے فارغ ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر طواف کر لیتے۔ کسی دن ہم ایک مرتبہ طواف کر پاتے اور کسی دن دو مرتبہ کر لیتے۔ تمام نفلی طواف والدین مرحومین، بچوں، بہن بھائیوں، بھابھیوں اور دیگر افراد خانہ کے نام منسوب کیے ۔

جس دن معلوم ہوا کہ ذی الحج کی یکم تاریخ ہو گئی ہے، ہم نے ارادہ کیا کہ اب اگلی تمام راتیں حرم پاک میں ہی گزاری جائیں گی کیونکہ ان راتوں کی بڑی فضیلت ہے۔ ان راتوں میں ہم مختلف تجربات کرتے رہے، کبھی مغرب سے پہلے حرم میں جاتے، نماز مغرب اور عشا پڑھنے کے بعد طواف کر لیتے۔ تمام رات وہیں بِتاتے، اس دوران صلوٰۃ التسبیح، نوافل، قرآن پاک کی تلاوت، قضا نمازیں اور مختلف دعاؤں کی تسبیحات پڑھتے رہتے۔ بعض اوقات فجر کے بعد نیند غالب آنے لگتی اور اس پر قابو پانا مشکل ہو جاتا تو ہم کسی خالی کونے میں کسی ستون کی اوٹ میں لیٹ بھی جاتے اور کچھ دیر اونگھ لیتے۔

اشراق کا وقت ہونے پر وضو تازہ کرنا پڑتا جو کہ بہت مشکل کام ہوتا۔ حرم پاک میں غسل خانوں تک جانا اور واپس آنا رش کی وجہ سے بہت مشکل لگتا تھا۔ فاصلہ بھی زیادہ ہوتا تھا کیونکہ تمام غسل خانے حرم کی عمارت سے باہر بنے ہوتے ہیں اور وہ بھی زیر زمین، وہاں تک پہچنے لے لئے راستہ ملنا ہی دشوار ہو جاتا ہے بالخصوص نمازوں کے اوقات میں۔ اشراق پڑھنے کے بعد ہم کمرے میں آتے، ناشتہ کر کے سو جاتے۔ آئندہ دنوں میں ہمارا یہی لائحۂ عمل رہا۔ ایک دن ہوٹل کے داخلی راستے کی دیوار پر ایک نوٹس لگا دیکھا کہ رات 9 بجے ایک تربیتی کلاس عمارت کی چھت پر ہو گی۔ تمام خواتین و حضرات اس میں شرکت کریں۔ مفتی صاحب(جو ہمارے گروپ میں اپنی بیگم کے ہمراہ شامل تھے) خطاب فرمائیں گے۔

اس پر چادریں لٹکا کر پردے کا انتظام کر دیا گیا۔ مفتی محمد طیب صاحب نے خطاب فرمایا۔ حج کے مناسک کی تفصیل بیان کی، فرائض، سنن اور واجبات کو الگ الگ بیان کیا۔ پھر حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے گئے۔ اور آخر میں گروپ لیڈر وحید خان صاحب نے اعلان کیا کہ ہمیں 7 اور 8 ذو الحج کی درمیانی رات کو ( رش کو مد نظر رکھتے ہوئے ) گاڑیوں کے ذریعے منٰی میں پہنچا دیا جائے گا۔ ویسے منٰی میں حاضری 8 ذو الحج کو ہی ضروری ہوتی ہے۔

سب کو تاکید کی گئی کہ ساڑھے نو بجے شام بالکل تیار رہیں۔ وقت مقررہ پر ہم سب تیار تھے مگر گاڑیاں تقریباً رات 11 بجے پہنچیں۔ جب گاڑیاں سٹارٹ ہوئیں تو تلبیہ کی آوازیں پورے جوش کے ساتھ گونجنے لگیں۔ سب لوگ اس احساس کے ساتھ کہ ہم اپنے رب کے حضور پیش ہونے جا رہے ہیں، ایک خاص دلی کیفیت میں تھے۔ تلبیہ کی آواز نے ایک مرتبہ پھر میرے دل پر خاص اثر کیا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ سارا راستہ آنکھیں تر رہیں۔

آدھ گھنٹے کا سفر تقریباً 2 گھنٹے میں طے کر کے ہم منٰی کے خیموں میں پہنچے۔ ہر فرد کے لئے تقریباً ڈیڑھ فٹ چوڑا گدا مختص تھا۔ مردوں کے خیمے الگ اور عورتوں کے الگ تھے۔ ہمارا مکتب نمبر 42 تھا اور خیمہ نمبر 10 تھا، جبکہ ہمارے مکتب کے مردوں کا خیمہ نمبر 11 تھا۔ دونوں خیمے ساتھ ساتھ تھے۔ ہمارے خیمے میں تقریباً 150 خواتین تھیں۔ خیمے کے اندر فرش پر قالین بچھے تھے۔ قالینوں پر گدے اور ہر گدے پر چھوٹا سا ایک سرہانہ اور ایک عدد چادر اوپر اوڑھ کے لیٹنے کے لیے۔یہ کل جائے رہائش تھی۔ اسی میں سامان رکھیے اور اسی میں قیام کیجیے۔

خیر، الحمد للہ، رات صلوٰۃ التسبیح اور نوافل پڑھنے میں گزر گئی۔ تہجد، فجر اور اشراق پڑھنے کے بعد ہم کچھ دیر کے لئے سو گئے کیونکہ نیند اب غالب آ چکی تھی۔ حج کا پہلا دن یعنی 8 ذو الحج شروع ہو چکا تھا۔ ظہر، عصر، مغرب اور عشا کی نمازیں منٰی میں پڑھیں، اس دوران تسبیحات، دعائیں اور اذکار کا ورد بھی جاری رہا۔ ظہر کی نماز کے وقت شدید بارش شروع ہو گئی جو مسلسل کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔

خیموں سے باہر ابر رحمت برس رہا تھا اور خیموں کے اندر حاجیوں کے اشکوں کی بارش ہو رہی تھی۔ لوگوں کے گناہ ان کے آنسوؤں سے دھل رہے تھے۔ میرا چھوٹا بھائی شہزاد جو کہ ریاض میں مقیم تھا وہ بھی حج کے لئے آیا ہوا تھا، میرے بیٹے نے جب اس سے مکہ میں فون پر رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ وہ منٰی میں ہم سے ملے گا۔ اس کا خیمہ الگ تھا مگر فون پر ہمارے مکتب اور خیمے کا نمبر پوچھ کر وہ ملاقات کے لیے آ گیا۔

جاری ہے۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).