شو کمار بٹالوی۔ جدید پنجابی شاعری کا ایک بہت بڑا شاعر


اس کا شمار جدید پنجابی شاعری کے پہلے پانچ شعرا میں ہوتا ہے۔ اس نے بھارتی پنجاب کی ادبی دنیا اور دنیا میں پنجابی زبان بولنے اور سمجھنے والے لوگوں میں پنجابی نظموں۔ گیتوں اور غزلوں سے اپنی پہچان کرائی۔ وہ ہندوستان کے ساہیتہ اکیڈیمی ایوارڈ حاصل کرنے والے کم عمر ترین پنجابی شاعر تھا۔ اس کی شاعری میں پر اثر الفاظ اور منظر کشی کے متحرک رنگوں نے انیس سو ساٹھ کے بعد پنجابی بولنے والے لاکھوں لوگوں کے دل جیت لئے۔ اب بھی اس کے گیت۔ غزلیں اور نظمیں پسند کرنے اور اس کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جو اب بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ یہ ہیں جواں مرگ پنجابی شاعر ”شو کمار بٹالوی ً۔

ان کی پیدائش پاکستان میں شامل شکر گڑھ کے گاؤں ًبڑا پنڈ لوٹیاں ”کے ایک برہمن ہندو خاندان میں 23 جولائی 1936 کو ہوئی۔ ان کے والد پنڈت کرشن گوپال ایک با اثر متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ برٹش ہندوستان کے محکمہ ریونیو میں پٹواری تھے۔ انہوں نے شو کمار کی پیدائش پر ہی ان کے مستقبل کی پیش بندی کر لی تھی۔ شو کمار کو 1947 کی آزادی کی شورش میں اپنے کنبے کے ساتھ اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑ کر ہندوستان جانا پڑا جہاں وہ ضلع گورداسپور کے قصبے بٹالہ میں آباد ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر گیارہ سال تھی۔

شو کمار بچپن سے ہی ایک مستقل خواب دیکھنے والا لڑکا تھا۔ جس کو دیہی علاقہ کی جنگلی حیات اور قدرتی مناظر سے بہت پیار تھا۔ بعد ازاں یہی منظر نامہ وہ اپنی نظموں۔ غزلوں اور گیتوں میں دیہی استعاروں کے ساتھ استعمال کرتے رہے۔ انہوں نے دیہی پنجاب کی ثقافت اور رسم و رواج کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ سترہ سال کی عمر میں شو نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے بیرنگ یونین کرسچن کالج بٹالہ میں داخلہ لیا۔

اپنی لا ابالی طبعیت کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور کچھ عرصہ بعد ہی کالج چھوڑ دیا۔ اس کے بعد انہوں نے بٹالہ سے بیس میل دور قادیان کے سکھ نیشنل کالج میں سائنس کے مضامین چھوڑ کر آرٹس میں داخلہ لے لیا۔ یہ سکھ نیشنل کالج 1938 میں لاہور میں قائم کیا گیا تھا، لیکن ہندوستان کی تقسیم کے بعد اس کالج کا نیا کیمپس قادیان میں 1948 میں قائم کیا گیا۔ لاہور میں اس کالج کی بلڈنگ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا کیمپس امرتسر سے شفٹ کر کے قائم کیا گیا تھا۔

انہوں نے اٹھارہ سال کی عمر میں گیت اور نظمیں لکھنا شروع کر دی تھیں۔ وہ یہ نظمیں اپنے کالج کے ساتھیوں کو سنایا کرتے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب قادیان میں ان کی ملاقات ایک نوجوان لڑکی مینا سے ہوئی اور اس سے دوستی ہو گئی۔ وہ یہاں سے شمال میں ہماچل پردیش صوبہ کے شہر بیج ناتھ کی رہنے والی تھی۔ سکھ نیشنل کالج میں بھی وہ اپنا سلسلہ تعلیم کا تسلسل قائم نہ رکھ سکے اور دوسرے سال میں یہ کالج بھی چھوڑ دیا۔ اس کے بعد انہوں نے بیج ناتھ جا کر وہاں کے ایک کالج میں داخلہ لے لیا۔ شاید اس نے یہ داخلہ اپنی دوست مینا کی قربت حاصل کرنے کے لئے لیا۔ اس نے جب یہاں مینا کو تلاش شروع کی تو پتہ چلا کہ وہ تو اس دنیا کو چھوڑ گئی ہے۔ اس کی اچانک موت پر اس نے مینا کی یاد میں ایک مرثیہ لکھا۔ یہی اس کی شراب نوشی شروع کرنے کی وجہ بھی بنی۔

شیو کمار بٹالوی

بیج ناتھ میں بھی مینا کے غم میں کالج اور پھر شہر چھوڑ دیا اور اس کے بعد انہوں نے صوبہ پنجاب کے مشرقی کنارے پر واقع ایک چھوٹے سے شہر نابھا کے گورنمنٹ کالج رپوداماں میں داخلہ لیا، لیکن تعلیم وہاں بھی مکمل نہ کر سکے۔ اتنا عرصہ باہر گزارنے کے باوجود نامکمل تعلیم پر ان کے والد کو بڑا دکھ تھا۔ اس لئے اب والد انھیں اصرار کر کے اپنے ساتھ بٹالہ واپس لے آئے اور نئے سرے سے یہاں پڑھائی شروع کروائی۔ والد کے کہنے پر اس نے محکمہ ریونیو میں پٹواری کا امتحان پاس کیا۔

بٹالہ میں اوائل عمری میں تھے جب انھیں ممتاز پنجابی مصنف اور معروف پنجابی رسالہ ”پریت لڑی“ کے ایڈیٹر گوربخش سنگھ کی خوبصورت بیٹی سے پاگل پن کی حد تک عشق ہو گیا۔ پنجابی ادب میں پریت لڑی کو انیس سو چونتیس سے پنجابی ادب میں جدید نثر کا باپ سمجھا جاتا ہے۔ لڑکی کے باپ نے اس بنا پر رشتہ دینے سے انکار کر دیا کہ لڑکے کا خاندان کم تر ہندو ذات کا ہے۔ لڑکی کو بھی شو سے بہت محبت تھی۔ لیکن یہ رشتہ نہ ہو سکا اور اس محبت کا انجام اس وقت ہو گیا جب لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف انگلینڈ کے ایک جوان سے کر دی گئی اور وہ اس کے ساتھ انگلینڈ چلی گئی۔ شو ہمیشہ سے ایک حساس روح کا مالک تھا۔ اپنی محبوب کی جدائی اور اس جذباتی نقصان نے شو کو ایک اوباش زندگی اور شراب کی لت میں غرق کر دیا۔ انہی دنوں میں کسی نے دیکھا کہ وہ ایک صبح ایک ٹھیکے کے باہر اس کے کھلنے کے انتظار میں کھڑا یہ گنگنا رہا تھا

اج دن چڑھیا تیرے رنگ ورگا۔ تیرے چمن پچھلی سنگ ورگا۔ ہے کرناں دے وچ نشا جہیا۔ کسے چنبے سپ دے ڈنگ ورگا۔
جے ضرباں دیواں وہیاں نوں۔ تاں لیکھا ودھدا جانا ہے۔ میرے تن دی کلی کرن لئی۔
تیرے سورج گہنے پینا ہے۔ تے چلھے اگ نہ بلنی ہے۔ تیرے گھڑے نہ پانی رہنا ہے۔
ایہ دن اج تیرے رنگ ورگا۔ مڑ دن دیویں مر جانا ہے۔ اج دن چڑھیا تیرے رنگ ورگا۔

شو نے بٹالہ کے مقامی مشاعروں کے علاوہ چندی گڑھ اور دوسرے شہروں کے مشاعروں میں بھی اپنا کلام سنانا شروع کر دیا تھا۔ وہ بڑے ترنم کے ساتھ شعر پڑھتا تھا۔ اس کے شعر سنانے کا انداز بہت خوبصورت تھا۔ اس کے درد و رنج میں ڈوبے ہوئے اشعار کی نوجوان نسل دیوانی تھی۔ اس کے سامعین میں بھی جوانوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی

پانچ فروری 1967 کو ان کی شادی گورداسپور کے نواحی گاؤں کیری منگیال کی ایک برہمن ہندو لڑکی ارونا سے ہوئی۔ یہ شادی مکمل والدین کی پسند سے تھی لیکن شو اس لئے راضی ہو گیا تھا، کیونکہ اس لڑکی کی شکل بٹالہ والی لڑکی سے مماثلت رکھتی تھی، جو اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ 1968 میں ان کے والد نے اپنے اثر و رسوخ سے ان کے لئے سٹیٹ بنک انڈیا میں نوکری کا بندوبست کیا اور وہ چندی گڑھ میں بینک کے پبلک ریلیشن افسر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔

یہاں ان کی گھریلو زندگی کچھ سکون میں گزرنے لگی۔ شعر و شاعری اور مشاعروں کا سلسلہ یہاں بھی جاری و ساری تھا۔ یہاں ان کے دو بچے ہوئے، ایک بیٹا مہربان اور بیٹی پوجا۔ انہوں نے اس پرسکون زندگی کو جاری رکھنے کی کوشش کی، لیکن بے تحاشا شراب نوشی نے جگر کو کافی متاثر کر دیا تھا جس سے ان کی صحت خراب رہنے لگی تھی۔ اسی دوران وہ انگلینڈ اور امریکہ کے مختصر دورے پر بھی گئے۔ وہاں کی ہندوستانی اور پنجابی برادری نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ اس دورہ سے جب وہ واپس چندی گڑھ آئے تو ان کی صحت اور زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ صحت کی خرابی کے باعث وہ سب کچھ چھوڑ کر واپس بٹالہ اپنے گھر آ گئے لیکن طبیعت پھر بھی نہیں سنبھلی تو ان کی بیوی انھیں اپنے گاؤں کیری منگیال لے گئی جہاں سینتیس سال کی چھوٹی سی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔

جب پچاس کی دہائی کے آخر میں شوکمار بٹالوی نے شاعری شروع کی تو کلاسیکی پنجابی شاعری کا دور پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ تقسیم کے بعد شاعری میں ابھرتے ہوئے ترقی پسند اور جدید رجحانات کی نمائندگی جن شعرا نے کی ان میں شو کمار بٹالوی اور امرتا پریتم کا نام سرفہرست تھا۔ جدید شاعری میں شو چند مقبول نظموں کے شاعر نہیں تھے اور نہ ہی ان کی شاعری دو تین عنوانات تک محدود تھی بلکہ وہ بہت سے مختلف انداز اور مضامین کی ایک وسیع رینج کا ایک بہت ہی ورسٹائل شاعر تھے۔

اپنی مختصر زندگی میں ان کی شاعری میں برہا سے بڑھتے ہوئے پیچیدہ جذبات اور اس کی اندرونی تکالیف اور معاشرے کی طرف سے مختلف رد عمل کا تسلسل دکھائی دیتا ہے۔ اس کی اپنی شناخت کا احساس بھی مختلف تبدیلیوں سے گزرا۔ انہوں نے 1960 میں شائع ہونے والے اپنے نظموں کے مجموعے ”پیڑاں دا پراگا“ سے لے 1970 میں شائع ہونے والی ان کی آخری بڑی کتاب ”میں تے میں“ ً تک ایک لمبا فاصلہ طے کیا۔

پیڑاں دا پراگا شو کمار کا پہلا اشاعت شدہ مجموعہ تھا، جس میں پچیس نظمیں شامل تھیں۔ اس میں ان کی وہ نظمیں شامل تھیں جو انہوں نے 1957 سے لے کر 1960 کے درمیان لکھی تھیں۔ اس میں ان کی ابتدائی مقبول نظموں میں چاندی دیاں گولیاں۔ اک گیت ہجر دا۔ ہنجواں دی رات۔ مرچاں تے پتر۔ نوراں اور غماں دی رات شامل ہیں۔ ایک گیت مجھے بہت پسند ہے۔

غماں دی رات لمی اے۔ یاں میرے گیت لمے نیں۔ نہ بھیڑی رات مکدی اے۔ نہ میرے گیت مکدے نیں
اے سر کنے کو ڈونگھے نیں کسے نے ہاتھ نہ پائی۔ نہ برساتاں چ چڑھدے نیں۔ تے نہ اوڑاں چ سکدے نیں
ان کی یہ ایک غزل بھی مجھے بہت پسند ہے
جڑی ہنجواں دے موتی چناں پکھی جھول جھول دے دے لوریاں میں دیدے سوالدی پئی
تیری یاد دی رسوند دے کٹورے بھر بھر کے بدو بدی ہاں میں دل نوں پیالدی پئی

پہلا مجموعہ شائع ہونے کے ایک سال بعد ہی ان کا دوسرا مجموعہ لاجونتی 1961 میں شائع ہوا۔ اس میں ان کی شاعری میں وہ پختگی نظر آتی ہے جو ان کے پہلے مجموعے میں نمایاں نہیں تھی۔ اس مجموعے میں آپ نے اپنی نظموں میں پنجاب اور ہندوستانی معاشرے میں رائج روایتی رسم و رواج کو چیلنج کیا ہے۔ اس مجموعہ میں بہت سارے مختلف مضامین پر کچھ قابل ذکر نظمیں ہیں۔ ان کی شاعری میں کچھ خاص مضامین ہیں جن کو انہوں نے پہلی بار لکھا ہے۔

شیشو ایک بہت ہی خوبصورت اور کچھ حد تک لمبی نظم ہے۔ اس میں شو نے ایک امیر زمین دار کے ایک غریب لڑکی کے استحصال کی تفصیل بیان کی ہے۔ لڑکی کی حالت زار پر شو کے ترس اور شفقت کے جذبات قابل ذکر ہیں۔ شو نے چونکہ پنجابی دیہات کا بہت قریب سے مشاہدہ کر رکھا تھا اس لئے ان کی قدرتی مناظر بیان کرنے کی مہارت بے مثال تھی۔ ایک اور لمبی نظم ”اوچیاں پہاڑاں دے سورجا“ ً کے علاوہ لاجونتی۔ پردیسی وسن والیا۔ اک ساہ سجناں د اور الزام اس میں شامل ہیں۔ اک بہت ہی خوبصورت گیت جو نصرت فتح علی خان نے بہت خوبصورت انداز میں گایا ہے۔

مائے نی میرے گیتاں دے نیناں وچ۔ برہوں دی رڑک پوے
ادھی ادھی راتیں۔ اٹھ رؤن موئے متراں نوں۔ مائے سانوں نیند نہ پوے

1962 ء میں آٹے دیاں چڑیاں کے عنوان سے ان کا تیسرا مجموعہ شائع ہوا۔ یہ ایک سماجی برائی چھوٹی عمر میں شادی سے متعلق تھا۔ چھوٹی عمر کی لڑکیوں کے لئے آٹے کی شکل والے پرندے کا استعارہ اس نے استعمال کیا ہے۔ شو کمار کی گہری نظر کے مطابق یہ آٹے کے پرندے غیرشادی شدہ چھوٹی معصوم بیٹیوں کی علامت ہیں جو اپنی مرضی کے خلاف شادی کی رسم کی اسیر ہیں۔ جن کے والدین انھیں کچی عمر میں اپنے رسم و رواج کے بندھن میں اپنے مفادات (وٹے سٹے ) کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ آٹے کا یہ پرندہ ایک بے جان ہے، اڑ نہیں سکتا اور نہ ہی بڑھ سکتا ہے۔ جس چیز کا اس سے مطالبہ کیا جاتا ہے یہ اسی میں ڈھل جاتا ہے۔

دیہی پنجاب کی ایک اور تشبیہ ان کی سب سے مشہور نظم ”میں اک شکرا یار بنایا“ جو میرا سچا جوڑی دار اور میری روح کا ساتھی شامل ہے۔ جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ گوربخشن سنگھ کی بیٹی کے لئے لکھی گئی تھی جس نے شو کو چھوڑ دیا تھا۔

آٹے دیاں چڑیاں۔ تے میں ایہ سمجھداں ایہ سب کڑیاں۔ ایہ آٹے سنگ بنیاں ہین چڑیاں۔ جنہاں سنگ ورچ جاندائے کام بچہ

ایہہ شاید رات اج دی چاننی جئی۔ ہوئے تینوں بھاسدی کوئی زرد پتہ۔ تے میرے واسطے ایہ رات اج دی۔
ہے میرے دوستا کوئی سوانی۔ کہ جس دی ڈھاک تے ہے چن بچہ۔ جد کجا چھاچھ دا سر تے ٹکائی۔
تے گل وچ بگتیاں دا ہارپائی۔ ہے لے کے جا رہی چانن دا بھتا۔ میں اے جانداں ہیں توں سچا۔
میں اک شکرا یار بنایا

مائے نی مائے میں اک شکرا یار بنایا۔ اوہدے سرتے کلغی۔ تے اوہدے پیریں جھانجھر۔ تے اوہ چوگ چوگیندا آیا۔ نی میں واری جاواں

صبح سویرے لے نی وٹناں۔ اساں مل مل اوس نہایا۔ دیہی وچوں نکلن چنگاں تے ساڈا ہتھ گیا کملایا۔ نی میں واری جاواں

چوری کٹاں تے او کھاندانہیں۔ اک اڈاری ایسی ماری۔ او مڑ وطنیں نہیں آیا۔ نی میں واری جاواں

1963 میں شوکمار نے ”مینوں وداع کرو“ کے عنوان سے چوتھا شعری مجموعہ شائع کیا۔ یہ اس کی مایوسیوں کا سال تھا اس نے اپنی ایک نظم میں پہلی بار اپنی موت کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس مجموعے میں ان کی پچیس کے قریب نظمیں اور غزلیں شامل تھیں۔ جن میں مینوں ودیاہ کرو۔ عمراں دے سرور۔ اساں جوبن رتے مر جانا۔ جند مجاجن اور قسمت شامل ہیں۔ اس میں ان کی دو غزلیں بہت ہی خوبصورت ہیں

میں دل دے درد دا وی اکا نہ بھیت چلیا۔ جیوں جیوں ٹکور کیتی ودھیا سگوں سوایا
میں چاہندیاں وی آپ نوں رونوں روک نہ سکیا اپنا حال آپ نوں آپے جدوں سنایا
کہندے نے شو نوں مدت ہوئی اے مریاں ہر روز آکے ملدا اے اج تک اوس دا سایہ
رات گئی کر تارا تارا ٭ ہویا دل دا درد ادھارا – مرنا چاہیا موت نہ آئی ٭ موت وی مینوں دے گئی لارا
نہ چھڈ میری نبض مسیحا ٭ غم دا مگروں کون سہارا
عشق میری دی سالگرہ تے ٭ ایہ کس گھلیاں کالیاں کلیاں
شو نو یار آئے جد پھوکن ٭ ستم تیرے دیاں گلاں چلیاں

اس میں محبوب کے بچھڑنے پر اس کے غم میں مرنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ اس کی یہ دونوں نظمیں ان کے ایسے ہی جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ تبھی اس نے کہا۔

مینوں وداع کرو میرے رام۔ مینوں وداع کرو۔ وارو پیڑ میری دے سر توں۔ نیں سراں دا پانی

اس پانی نوں جگ وچ ونڈو۔ ہر اک عاشق تانی۔ پربھ جی جے کوئی بوند بچے۔ اوہدہ آپے گھٹ بھرو۔ تے مینوں وداع کرو

ددھ دی رتے امڑی موئی۔ بابل بال وریسے۔ جوبن رتے سجن مریا۔ موئے گیت پلیٹھے
ہن تے پربھ جی ہاڑا جے۔ ساڈی بانہہ نہ گھٹ پھڑو۔ مینوں وداع کرو۔
دوسرے گیت میں بھی مایوسی اور مرنے کی خواہش ہے۔ اور جوانی کی موت پر فخر کا اظہار ہے۔
اساں تاں جوبن رتے مرنا۔ مڑ جانا اساں بھرے بھرائے۔ ہجر تیرے دی کر پر کرما۔ اساں تاں جوبن رتے مرنا
جوبن رتے جو وی مردا۔ پھل بنے یاں تارا۔ جوبن رتے عاشق مردے۔ یاں کوئی کرماں والا
یاں او مرن۔ کہ جنہاں لکھائے۔ ہجر دھروں وچ کرماں۔ ہجر تہاڈا اساں مبارک
نال بہشتیں کھڑنا۔ اساں تے جوبن رتے مرناں

1965 میں ان کی طویل نظم لونا منظر عام پر آئی۔ لونا ایک رزمیہ نظم ہے جس کو شو کے نقاد اس کا ایک بہت بڑا شاہکار اور بہت بڑی ادبی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ اس میں شو نے پنجابی زبان کی طویل نظم کی کلاسیکی صنف کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ لیکن حقوق نسواں کے ایک نئے موڑ کے ساتھ۔ اس میں پورن بھگت کے افسانوی کردار کو دوبارہ چھیڑا گیا ہے۔ اس روایتی کہانی میں ایک نوجوان لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف ایک بوڑھے امیر سے کر دی جاتی ہے۔ وہ لڑکی اس بوڑھے شخص کے جوان بیٹے سے ناجائز تعلق قائم کر لیتی ہے۔ شو نے اپنی یہ نظم نوجوان بیوی کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے تناظر سے لکھی ہے۔ شو کمار نے لونا کے روایتی کردار کو یکسر تبدیل کر دیا۔ اس نے لونا کو ایک ہمدردانہ کردار بنایا اور مرد غلبہ والے معاشرے کو چیلنج کیا تا کہ وہ اپنے اصولوں اور اخلاقی اقدار پر نظر ثانی کرے۔ شوکمار کو یہ طویل نظم لکھنے پر 1967 میں ممتاز ہندوستانی ایوارڈ ”ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ“ سے نوازا گیا۔ وہ اس ایوارڈ کو حاصل کرنے والے کم عمر ترین شاعر بن گئے۔

1970 میں “میں تے میں” کے عنوان سے ان کا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ یہ ایک طویل داستان نگاری نظم ہے جو ایک بہت ہی مختلف انداز میں اور مختلف موضوعات پر لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کے ساتھ شو کمار اپنے شعری ارتقا کے عروج پر جا پہنچا۔ یہ اس کی اپنی شناخت اور باطن کی تلاش ہے۔ ان نظموں میں جدید انسان کی زندگی کے المیے کو کئی مختلف ترتیبوں میں دکھایا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے معاشرتی رسومات کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے خلاف پنجابی اور ہندوستانی معاشرے کے ردعمل کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں ان کی بائیس نظمیں شامل ہیں۔

1971 میں ان کی ایک اور کتاب آرتی منظر عام پر آئی جس میں ان کے مختلف اوقات میں لکھے ہوئے گیت اور غزلیں شامل تھیں۔ یہ اس مشہور اور قابل فخر شاعر کی آخری کتاب ثابت ہوئی۔ یہ نظم کہتے ہیں کہ اس لڑکی کی یاد میں لکھی گئی جس کی شادی گھر والوں نے انگلینڈ میں کر دی تھی۔

اک کڑی جدا نام محبت۔ گم ہے گم ہے گم ہے۔ ساد مرادی سوہنی پھبت۔ گم ہے۔ گم ہے۔ گم ہے۔
صورت اوسدی پریاں ورگی۔ سیرت دی او مریم لگدی۔ ہسدی ہے تاں جھڑدے نیں
ٹردی ہے تاں غزل ہے لگ دی۔ لم سلمی سرو قد دی۔ عمر اجے ہے مر کے اگ دی۔
پر نیناں دی گل سمجھدی۔ گمیں جنم جنم ہن ہوئے۔ پر لگدے جیوں کل دی گل ہے۔
ایوں لگدا اے جیوں اج دی گل ہے۔ ایوں لگدا جیوں ہن دی گل اے۔
اسی مجموعے میں ان کی یہ غزل مجھے بھی بہت اچھی لگی۔
غزل۔ جد وی تیرا دیدار ہووے گا۔ دل دل دا بیمار ہووے گا
کسے وی جنم آ کے ویکھ لئیں۔ تیرا ہی انتظار ہووے گا
انج لگدا ہے شو دے شعراں وچ۔ کوئی دکھدا انگار ہووے گا۔
ان کے گیت بھی کافی مشہور ہوئے جو پنجابی ثقافت کی پہچان ہیں۔ بہت سے مشہور گلوکاروں نے انھیں گایا ہے۔

٭ مینوں ہیرے ہیرے آکھے نی منڈا لنبڑاں دا۔ مینوں وانگ شدائیاں جھاکے ہائے نی منڈا لنبڑاں دا

٭ راتاں کالیاں، کلی نو ڈر آوے۔ چنی لینی، چنی لینی، چین مین دی۔ جہڑی سو دی سوا گز آوے۔ ہائے او راتاں کالیاں

٭ نی ایک میری اکھ کاسنی دوجا رات دے آنیندرے نے ماریا۔ نی شیشے نوں تریڑ پے گئی۔ وال واہندی نے دھیان جد ماریا۔

شو کمار بٹالوی کی نظموں کا ایسا ذخیرہ بہت زیادہ ہے۔ جس میں انہوں نے عربی، فارسی، اردو اور ہندی کے لفظ شامل کیے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری میں پنجابی کے وہ الفاظ بھی شامل ہیں جو اب عام بول چال میں نہیں آتے۔ ان کی شاعری میں فطرت اور پنجاب کے دیہی علاقوں کے مناظر۔ جانوروں، پودوں، نگاہوں اور دیسی پنجاب کی آوازوں کا استعمال آپ کو بکثرت ملے گا۔ ان کی بنائی ہوئی یہ تصاویر بڑی متحرک اور نازک نقش و نگار پر مبنی ہیں۔

جو ایک بار سننے پر روح میں نقش ہو جاتی ہیں۔ ان کا نظریہ سیکولر اور انسانیت پر مبنی تھا۔ اگرچہ وہ ہندو اکثریتی ہندوستان میں رہنے والے ہندو تھے لیکن اپنی شاعری میں انہوں نے بہت سی اسلامی اور عیسائی علامتیں بھی استعمال کیں ہیں۔ ان کی نظموں میں اس بات کی جھلک ملتی ہے کہ اس سے قبل کے دنوں کے پنجاب کے چھوٹے چھوٹے دیہات میں ہندو اور مسلمان نسبتاً ہم آہنگی میں رہتے تھے۔

(نوٹ) اس مضمون کی تیاری میں انٹرنیٹ۔ ویکی پیڈیا اور مندرجہ ذیل کتابوں اور مضامین سے سے مدد لی گئی ہے۔
1- Shive Kumar Kulyat- Published by Fiction House 18 Muzang Road Lahore.
2- Web. Academy of Punjabi North America. apnaorg.com
3- Shive Kumar Batalvi- Keats of Punjabi Literature by Dr . Sanjeev Gandhi
Shive Kumar Batalvi – by Talat Afroose @ Dareechay.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).