کوثرعباس کون ہے؟


مکان بنانے کے لیے جگہ خریدنے جائیں تو وسیع اور کشادہ گلی کا مطالبہ کرنے والے ہم ہیں مگر گھروں کے آگے تھڑے بنا کر اورمحض کارپارکنگ کے لیے مین گیٹ کو آگے سرکا کر اسی گلی کو تنگ کرنے والا کون ہے؟ اپنے ووٹ کی ”طاقت“ سے اپنے ”حکمران“ چننے والے ہم ہیں مگر اپنے ہی ”انتخاب“ کو مطعون کرنے والا کون ہے؟

آزادی کے نام پر بچوں کو حدود و قیود سے نا آشنا کرنے والے ہم ہیں مگر جب وہ اسی ناآشنائی میں حدود و قیود پھلانگ جائیں تو پھر عمر رسیدگی میں ان کی حرکتوں پر کڑھنے والا کون ہے؟ پہلے دن سے محمکہ پولیس کو گالیاں دینے والے ہم ہیں مگر اسی محکمے سے اچھی کارکردگی کی امید لگانے والا کون ہے؟

دودھ میں پانی ملانے والے ہم ہیں مگر ”مکھن ملائی“ نہ آنے کا شکوہ کرنے والا کون ہے؟ منافع خوری کرنے والے ہم ہیں مگر اسی پیسے سے لوگوں کو زکوٰۃ دینے میں فخر محسوس کرنے والا کون ہے؟ ذخیرہ اندوزی کرنے والے ہم ہیں تو پھر مہنگائی کا رونا رونے والا کون ہے؟ اینٹیں پیس کر مرچوں میں، لوہے کا برادہ پتی میں اور باجرا پیس کر دھنیے میں ملانے والے ہم ہیں توپھر ملک بھر میں جگر، معدے اور گردے کی بیماریوں کا ماتم کرنے والا کون ہے؟

آپریشن کا بہانہ کر کے لوگوں کے گردے نکال کر بیچنے والے ہم ہیں تو پھر یہ کہنے والا کون ہے کہ قوم ناکارہ ہو گئی ہے؟ میٹرک میں اعلیٰ نمبر آتے ہیں تو ڈاکٹر بن کر لوگوں کی خدمت کا عہد کرنے والے ہم ہیں تو وقت آنے پر ڈاکٹر سے ڈاکو بننے والا کون ہے؟ ڈاکٹر بن ملک و قوم کے آرام و سکون کی بات کرنے والے ہم ہیں تو اپنی تنخواہ بڑھانے کی خاطر ناجائز ہڑتالیں کر کے لوگوں کو موت کی وادی میں جاتا دیکھنے والا کون ہے؟

ہم وہ قوم ہیں جو ”حکمرانوں“ سے اپنے ”مطالبات“ منوانے کی سزا ”عوام“ کو دیتے ہیں۔ وہ کون ہے جو سڑک پر روٹ لگواتا ہے؟ وہ کون ہے جو تیزی سے ”گزر“ جانے کی خاطر لوگوں کے راستے بند کرتا ہے، یوں طلبہ کو سکول اور مریضوں کو ہسپتال پہنچنے میں رکاوٹ بنتا ہے اور پھر قوم کا ہمدرد بن کر لیکچر بھی جھاڑ رہا ہوتا ہے؟ آپ نے کبھی غور کیا کہ وہ کون سی قوم ہے جو ٹائی، سوٹ، نیکر پہن کر اور انگلش بول کر دنیا میں اپنی پہچان بنانے کی خواہش آنکھوں سجائے پھرتی ہے؟

وہ کون لوگ ہیں جو بولتے توانگریزی ہیں مگر لیڈر ان کے کہلاتے ہیں جن کو یہ زبان سمجھ ہی نہیں آتی؟ چلو مان لیا کہ انگریزی بولنے والے تعلیم یافتہ ہیں لیکن اپنی عوام کی ذہنی سطح کا خیال نہ رکھنے والے کون ہیں؟ (وضاحت: میں انگریزی کی نہیں بلکہ ایک طرز فکر کی بات کر رہا ہوں)  ہاں! امتحان، Annual Charges، کلاس مینٹینینس، سیر تفریح اور کوالٹی کے نام پر تعلیم کو مہنگا کرنے والے بھی ہم ہیں تو پھر پاکستان کی شرح تعلیم پر ”سینہ“ کوٹنے والے کون ہیں؟

ہم اپنے بچوں کو دین سے دور کرتے ہیں، یہ خیال کرتے ہیں کہ کہیں انہیں کوئی مولوی نہ کہہ دے اور ان کی بولڈ حرکات کو ”کلیورنیس“ کا نام دے کر انہیں ویلکم بھی کرتے ہیں مگرجب یہی بچے والدین یا اقربا کی تیمارداری نہ کریں، مرنے کے بعد ان کی قبروں پر فاتحہ خوانی نہ کریں، اپنی ہی ٹیچر سے عشق کرنے لگیں اور جب عشق کو پانے میں ناکامی پر خود کو گولی مار دیں تو اپنی ہی تیار کردہ نسل کو ناخلف کہنے والے کون ہیں؟

اپنی ہی بچیوں کو ”حقوق“ کے نام پر خود سر بنانے والے، انہیں ”ساس ڈائن ہے“ کا سبق ذہن نشین کرانے والے ہم ہیں تو پھر ان کا گھرانہ نہ بسنے کا شکوہ کرنے والے کون ہیں؟ طلاق کے اسباب پر یک طرفہ بحث کرنے والے، مردوں یا عورتوں کو بے جا ظالم کہنے والے، خواتین کی مجبوری پر ٹسوے بہانے والے، حقوق کے نام بچوں کو منہ زور بنانے والے ہم ہیں تو پھر نئی نسل کے بد تمییز ہونے پر شاکی ہونے والے کون ہیں؟

اگر عورتوں کو خوبصورتی اور حقوق کے نام پر بے لباس کرنے والے اور انہیں مردوں سے بھرے آفس میں ”ملازم“ بنا کر بھیجنے والے ہم ہیں تو پھر چینلز پر بیٹھ کر پیدہ شدہ مسائل کا تجزیہ کرنے والے کون ہیں؟ ہم وہ قوم ہیں جو یہ چاہتی ہے کہ مائیں آفسز میں جاب کریں اور آیا ان کے بچے سنبھالا کریں لیکن اس کے باوجود ہم یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ آج کے بچے جب کل کے نوجوان بنیں تو ان میں ایاز جتنی وفاداری بھی پائی جائے۔ چلیں! آپ ہی بتائیں کہ دنیا میں وہ کون سی قوم ہے جو وی آئی پی کلچر کی اصطلاح ایجاد کرتی ہے اور پھر اس کلچر کو پروموٹ بھی کرتی ہے لیکن اس کے باوجود ”مساوات اور برابری“ کا درس دیتی بھی ہے اور سنتی بھی ہے؟

یہ ہمیں تو ہیں جو رشوت کا بازار گرم کرتے ہیں، سفارش کا ”دھندا“ کرتے ہیں اور میرٹ کی دھجیاں بھی اڑاتے ہیں لیکن پھر اداروں کی تباہی اور ان کی بری کارگردگی پر دل گرفتہ ہوتے ہیں۔ یہ ہمیں ہیں جو ہر معاملے میں دین کو ذمہ دار سمجھتے ہیں، دین کا تمسخر اڑاتے ہیں اور لوگوں کو دین سے دور کرتے ہیں لیکن پھر حواس باختہ ہو کر یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ہائے! لوگوں کو دین کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ کھلے روڈ کا مطالبہ کرنے والے بھی ہم ہیں اور فٹ پاتھوں پر ٹھیلے لگانے والے، روڈ کے دائیں بائیں ریڑھیاں لگانے والے اور غلط پارکنگ کر کے روڈ کی تنگی اور ٹریفک جام کی شکایت کرنے والے بھی ہم ہی ہیں۔

مادری زبان تک نہ سمجھنے والے بچے کے منہ میں انگریزی ٹھونسنے والے ہم ہیں تو ان کے نتائج خراب آنے پر اساتذہ کو سزا دینے والے بھی ہم ہی ہیں۔ الغرض پالیسیاں بنا کر اپنے ملازمین پر نافذ کرنے والے ہم ہیں لیکن تو اپنی ہی پالیسیوں کے فیل ہو جانے کی سزا ملازمین کو دینے والے بھی تو ہم ہی ہیں۔ اس بھری دنیا میں کوئی ہم سا ہے تو سامنے آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).