مصر میں برتھ ڈے کیک بنانے پر خاتون گرفتار: مخالفین کے مطابق ڈیزائن ’نازیبا‘ ہے


File photo showing cupcakes
خاتون بیکر نے کیک پر انسانی جنسی اعضا کی تصاویر بنانے کے الزام کی تردید کی ہے
مصر کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق قاہرہ میں پولیس نے ایک عورت کو کیک پر ’نازیبا‘ تصاویر بنانے پر حراست میں لے لیا تھا جسے بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق کیک پر انسانی جنسی اعضا کی تصاویر بنائی گئی تھیں اور اس کیک کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں جو بعد میں وائرل ہو گئیں۔

اطلاعات کے مطابق قاہرہ کے ایک سپورٹس کلب میں ہونے والی برتھ ڈے پارٹی میں کیک پر انسانی جنسی اعضا اور ایک انڈر ویئر کی تصویر بنائی گئی تھیں۔ جب اس کیک کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں تو کچھ حلقوں کی طرف سے اس پر اعتراض سامنے آنا شروع ہو گئے۔

تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو نے کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور اس نے خاتون بیکر کو گرفتار کر لیا جسے بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

خاتون بیکر نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ اس نے کیک پر کوئی ایسی تصویر بنائی تھیں جنھیں نازیبا کہا جا سکے۔

مصر کی ایک اعلیٰ مذہبی تنظیم دارلافتا نے کہا ہے کہ اسلام میں ایسی اشیا بنانے کی ممانعت ہے جو جنسی اعضا سے مشابہہ ہوں۔

درالافتا نے اپنے فیس بک پیچ پر لکھا کہ ایسی کوئی چیز جو جنسی اعضا سے مشابہت رکھتی ہو وہ ہماری اقدار کے منافی ہیں۔

پولیس کئی دیگر خواتین سے بھی پوچھ گچھ کر رہی ہے جو اس پارٹی میں شریک تھیں۔ مصر کی وزارت نواجونان اور کھیل اس کلب کے اس واقعے میں ملوث ہونے کے حوالے سے تحقیق کر رہی ہے جہاں اس پارٹی کا انعقاد کیا گیا تھا۔

مصر کے انسانی حقوق کے ایک وکیل نگد البورائی نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ اس واقعے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ معاشرے کا ایک حصہ جسے ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے، وہ ملکی اقدار کے تحفظ کی آڑ میں شخصی آزادیوں کو ختم کرنے کے در پر ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

’غیر مہذب‘ ویڈیوز بنانے پر مصری ٹک ٹاک انفلوئنسرز جیل میں

’اس نے کچھ غلط نہیں کیا تھا، میری بہن کوئی مجرم نہیں ہے‘

انھوں نے اس واقعے کا ماضی قریب میں پیش آنے والے ان واقعات سے بھی موازنہ کیا جن میں کچھ نوجوان مصری خواتین کی جانب سے ٹک ٹاک سمیت کچھ سوشل میڈیا پیلٹ فارمز پر ویڈیوز اپلوڈ کرنے کی وجہ سے ان پر اخلاقی بے راہ روی اور معاشرتی اقدار کی پامالی کا الزام لگا کر انھیں دو برس قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔

Mawada al-Adham on a mobile phone screen

گذشتہ ہفتے مصر کی اپیل کورٹ نے دو نوجوان مصری خواتین کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا

گذشتہ ہفتے مصر کی ایک اپیل کورٹ نے دو نوجوان انفلوئینسروں کو ’نازیبا‘ تصاویر اور ویڈیوز شائع کرنے اور ’خاندانی اقدار‘ کی پامالی کے الزام میں دی گئی دو سال قید کی سزا کو ختم کر دیا تھا۔

عدالتی حکم کے باوجود پبلک پراسیکیوٹر نے ان خواتین پر انسانی سمگلنگ کے الزام پر تفتیش شروع کر کے ان کی جیل سے رہائی کو روک رکھا ہے۔

پبلک پراسیکیوٹر نے الزام عائد کیا کہ ان خواتین نے نوجوان لڑکیوں کو اپنی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ پر شیئر کرنے پر مائل کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32484 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp