ریاست مدینہ جدید کے سکینڈلز


نئے پاکستان یعنی نام نہاد ریاست مدینہ میں آئے دن ایک سے بڑھ کر ایک سکینڈل سامنے آ رہا ہے۔ حکومت کے آغاز ہی میں ادویات سکینڈل سامنے آتا۔ اس کی بازگشت ابھی باقی ہوتی ہے کہ پٹرول کا بحران ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یہ طوفان تھمنے سے پہلے ہی آٹے کا سکینڈل سر اٹھا لیتا ہے اور آٹے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ عوام آٹا آٹا پکار رہے ہوتے ہیں کہ چینی کا تاریخی سکینڈل قدم جما لیتا ہے اور چینی کے نرخ سنچری عبور کر لیتے ہیں۔

ابھی لوگ سنبھلنے بھی نہیں پاتے کہ مچھ میں گیارہ بے گناہ کان کنوں کے گلے پر کند چھریاں پھر جاتی ہیں۔ لوگ چینی کی دہائی دے رہے ہوتے ہیں کہ بجلی کے بحران کی وجہ سے کراچی سے کشمیر تک پورا ملک تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔ ابھی حکومت بجلی کے فالٹ کی وجہ تلاش کر رہی ہوتی ہے کہ براڈ شیٹ کا اعصاب شکن اور ہوش اڑانے والا سیکنڈل امنڈ پڑتا ہے جو سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ کنٹرول ٹاور کے کچھ پردہ نشینوں کو بھی ننگا کر دیتا ہے۔

ابھی یہ طوفان تھمتا نہیں کہ پھولوں کے شہر لاہور کو کچرا کنڈی بنانے کا شورو غوغا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بازگشت ختم نہیں ہوتی کہ ملائشیا میں ہمارے طیارے کی ضبطی اور مسافروں کے رل جانے کی افسوس ناک خبر آ جاتی ہے۔ ابھی کاوے موسوی کے حیرت انگیز انکشافات انجام کو نہیں پہنچتے کہ فارن فنڈنگ کیس حکومت کے گلے کی ہڈی بن جاتا ہے۔ حکومت فارن فنڈنگ کیس سے جان چھڑانے کے بارے میں سوچ رہی ہوتی ہے کہ چیئرمین وزیراعظم معائنہ کمیشن احمد یار ہراج اپنی ہی حکومت کی کارکردگی کا پول کھول کے رکھ دیتے ہیں اور بے شمار اداروں میں رشوت ستانی اور کرپشن کی دہائی دیتے ہیں۔ اس کی بازگشت ابھی فضا میں ہوتی ہے کہ ڈبلیو ٹی او کے اینٹی ڈمپنگ کیس کا فیصلہ بھی پاکستان کے خلاف آ جاتا ہے۔ حکومت ہر نئے سکینڈل کا ملبہ پچھلی حکومتوں پر گرا کر اپنی ذمہ داری سے فارغ ہو جاتی ہے۔

آج ملک میں سیاسی عدم استحکام اور نفسا نفسی کا دور دورہ ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیا کے ممالک میں مہنگائی کے حوالے سے پہلے نمبر ہے۔ بے روزگاری اور غربت کا یہ عالم ہے کہ کروڑوں پاکستانی گھر کی چیزیں بیچ کر جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے جتن کر رہے ہیں۔ درجنوں اداروں اور محکموں کے ملازمین روزانہ پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرے کرنے پر مجبور ہیں اور ریاست مدینہ جدید کے وزیراعظم،  وزیراعظم ہاوٴس کے سبزہ زار میں بیٹھ کر فرماتے ہیں کہ بائیس کروڑ آبادی کا ملک چلانا آسان کام نہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب وہ نوے روز میں ملک کی تقدیر بدلنے کے وعدے اور دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعوے کیا کرتے تھے تو اس وقت بھی ملک کی آبادی بائیس کروڑ تھی۔

کل ہی وزیر خزانہ نے یہ روح فرسا خبر سنائی کہ مہنگائی کم کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔ یہی وزیراعظم جب اپوزیشن میں تھے تو خود کشی کو قرض لینے پر ترجیح دیا کرتے تھے مگر خیر سے وفاق کے سرکاری قرضوں میں ایک سال میں 3700 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے اور یہ قرضے بڑھ کر اب 35.8 ٹریلین ہو چکے ہیں۔ کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے مطابق نومبر 2020 تک پاور سیکٹر کے گردشی قرضے 2306 ارب ہو چکے ہیں جس کے پس پردہ بجلی چوری، واجبات کی بروقت ادائیگی نہ ہونا اور توانائی کے شعبے میں ناقص کارکردگی جیسی وجوہات شامل ہیں۔ جو وزیراعظم سالانہ آٹھ ارب ڈالرز سے زائد ٹیکس اکٹھا کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتے تھے ، ان کی حکومت میں پہلی ششماہی میں صرف 5 فیصد ریونیو گروتھ حاصل ہو سکی ہے۔

حیرت اس امر پر ہے کہ آج جب شرح نمو منفی، سٹاک ایکسچینج میں مندی، پٹرول ایک سو سات روپے لٹر، آٹا ستر روپے کلو، چینی ایک سو روپے کلو، دودھ ایک سو تیس روپے کلو، مرغی تین سو روپے کلو، گھی دو سو ستر روپے کلو اور دوسری اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اورملک کی معیشت تباہی کے گڑھے میں گر رہی ہے تو مفلوک الحال عوام کو یہ لولی پاپ دیا جا رہا ہے کہ ملک کی معیشت درست سمت چل پڑی ہے۔ ہم حکومت کے افلاطونوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر یہ درست سمت ہے تو وہ کون سی سمت تھی جب شرح نمو تقریباً چھ فیصد، پٹرول ساٹھ روپے کلو، سٹاک ایکسچینج ستاون ہزار پر، دودھ نوے روپے لٹر، مرغی کا گوشت ڈیڑھ سو روپے کلو، آٹا پینتیس روپے، گھی ایک سو بیس اور چینی باون روپے کلو تھی؟

عمران خان نے کرپشن کے خلاف انتخابی مہم چلائی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ کرپشن ملک کا سب سے بڑا ناسور ہے اور جب حکمران کرپٹ ہوتے ہیں تو ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، جہالت اور افلاس سمیت تمام خرابیاں در آتی ہیں۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیں کہ پچھلی حکومت واقعی کرپٹ تھی اور موجودہ حکومت میں سب دودھ کے دھلے اور حاجی صاحبان ہیں تو اصولی طور پر ملک کی معاشی حالت بہت شاندار ہونی چاہیے تھی مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔

اگر ہم اپنی حکومت کا موازنہ بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان سے کریں تو پتہ چلے گا کہ یہ تینوں ملک ہم سے زیادہ کرپٹ ہونے کے باوجود ترقی کی شرح میں ہم سے بہت بہتر ہیں۔ کرپشن پرسیپشن انڈکس کے مطابق بنگلہ دیش کرپٹ ترین ملکوں میں شامل ہے۔ 180 ممالک بنگلہ دیش 146 ویں نمبر ہے۔ ہر سو میں سے 72 لوگ کہتے ہیں کہ انہیں جائز کام کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ جب کہ پاکستان اس انڈیکس میں 120 ویں نمبر ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو ترقی کی شرح میں بنگلہ دیش سے بہت آگے ہونا چاہیے مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش اس حوالے سے ہم سے کوسوں آگے ہے۔

یہی حال بھارت اور افغانستان کا ہے۔ ہم ان دونوں ملکوں سے کم کرپٹ ہیں لہٰذا ہماری ترقی کی شرح ان سے بہتر ہونی چاہیے مگر معاملہ بالکل الٹ ہے۔ مہاتیر محمد، ٹرمپ، طیب اردوان اور مودی سمیت وہ کون سا حکمران ہے جس پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ اہل اور قابل بھی ہیں۔ اول تو عمرانی حکومت ہرگز کرپشن سے ماورا نہیں اور تھوڑی دیر کے لیے یہ مان بھی لیں کہ حکومت اور موجودہ حکمران کرپٹ نہیں ہیں تو پھر ان کی اہلیت پر سنجیدہ نوعیت کے سوال اٹھتے ہیں۔

حرف آخر یہ ہے کہ بالفرض ہمیں کرپٹ اور نا اہل حکمرانوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو جدید ریاست مدینہ کے تلخ تجربے کے بعد ہم کس کا انتخاب کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).