نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی حلف برداری: کیا امریکہ میں پہلے بھی کبھی صدر کی افتتاحی تقریب میں تشدد کا خطرہ رہا ہے؟


واشنگٹن
امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں 20 جنوری کو ہونے والی نو منتخب صدر جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب پر انتہائی سخت سکیورٹی کے انتظامات کو شاید اس سے بہتر طریقے سے بیان نہیں کیا جا سکتا جس طرح میسیچوسیٹس سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے ایک رکن نے اپنے ٹوئٹر پر کیا ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے سیٹھ مولٹن نے لکھا کہ ’اس وقت واشنگٹن ڈی سی میں جتنے فوجی ہیں اتنے تو افغانستان میں بھی نہیں ہیں اور یہ یہاں ہمیں صدر سے تحفظ دلانے کے لیے ہیں۔ پہلے اسے ہضم کر لیں۔‘

مولٹن کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہے۔ اس وقت واشنگٹن شہر میں 25 ہزار نیشنل گارڈز تعینات کیے گیے ہیں جن کے ذمے شہر کے اندر مختلف مقامات کی حفاظت ہے بلکہ یہ پولیس، خفیہ سروس اور دوسرے اداروں کا ایک طرح سے بیک اپ ہیں اور ان کی تربیت اس طرح سے کی گئی ہے کہ وہ سول ہنگامہ آرائی سے نمٹ سکیں۔

اگر نیشنل گارڈز کو ایک لمحے کے لیے بھول بھی جائیں تو شہر مکمل طور پر بھوتوں کا شہر نظر آتا ہے، ایک ایسا سنسان بھوتوں کا شہر جس کی حفاظت دنیا کی سب سے پڑی سپر پاور کی فورسز کر رہی ہیں۔ بینک، ریستوران اور دکانیں نہ صرف بند ہیں بلکہ ان کے آگے بورڈ لگا دیے گئے ہیں تاکہ کوئی وہاں توڑ پھوڑ نہ کر سکے۔ وائٹ ہاؤس کو جانے والی سڑک پر ایسی باڑ لگا دی گئی ہے جس کے نہ تو اوپر چڑھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے آسانی سے پھلانگا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’امریکی تاریخ کی واحد بغاوت‘ جب سفید فام نسل پرستوں نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا

ٹرمپ رخصت، بائیڈن کی آمد: وائٹ ہاؤس میں کیا تیاریاں ہو رہی ہیں؟

کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے مشہور چہرے ‘کیو اینون شامان’ پر مقدمہ

اس کے علاوہ اہم عمارات کے اطراف میں جگہ جگہ باڑیں لگی ہوئی ہیں، سکیورٹی احاطے ہیں اور بفر زون ہیں جہاں ہزاروں نیشنل گارڈز تعینات ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ سکیورٹی کرنے والے ان نوجوانوں پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے کہ کہیں وہ تو شرپسندوں سے ملے ہوئے نہیں۔ اسی لیے شاید افتتاحی تقریب کے تیاری کے حوالے سے نیشنل گارڈز کے سربراہ میجر جنرل ولیئم والکر نے کہا ہے کہ فوجیوں کے کوائف کو دوبارہ چیک کیا گیا ہے۔

انھوں نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ہر چار سال بعد حلف برداری کی عوامی تقریب کے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے تقریباً 10 ہزار نیشنل گارڈ واشنگٹن آتے ہیں لیکن اس مرتبہ ذرا زیادہ آئے ہیں۔

سکیورٹی

واشنگٹن میں امریکی کیپیٹل کے سامنے فوجی ٹرک اور نیشنل گارڈز نے سکیورٹی کی وجہ سے سڑک بلاک کی ہوئی ہے

اس سال کی تقریب ماضی کی تقریبات سے مختلف کیوں؟

مبصرین کے مطابق امریکی انتخاب کے بعد جیتنے والے صدر کے لیے یہ عوامی تقریب ماضی کی تقریبات سے بالکل مختلف ہو گی اور سکیورٹی کے علاوہ اس کی ایک بڑی وجہ کووڈ 19 کی وبا بھی ہے۔

نو منتخب نائب صدر کملا ہیرس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم حلف لے رہے ہیں اور وہ کرنے جا رہے ہیں جسے کرنے کے لیے ہمیں منتخب کیا گیا ہے اور وہ ہے لوگوں کو وبا سے محفوظ رکھنا۔ ہم چاہتے ہیں کہ پہلے سو دن میں سو ملین لوگوں کو ویکسین لگائیں۔‘

6 جنوری کو صدر ٹرمپ کے حامیوں کے امریکی کیپیٹل پر حملے کے بعد شہر میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ ایف بی آئی نے خبردار کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے مسلح حامی بدھ کے روز جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب کو بھی درہم برہم کر سکتے ہیں۔

امریکہ کی تمام پچاس ریاستوں میں پرتشدد مظاہروں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اور تمام ریاستی دارالحکومت ہائی الرٹ پر ہیں اور واشنگٹنں میں جو بائیڈن کی حلف برداری کے بعد سکیورٹی کے سخت انتظامات اس وقت تک رہیں گے جب تک ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن سے نکل نہیں جاتے۔

اسلام آباد میں قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر الہان نیاز کہتے ہیں کہ ’حلف اٹھانا تو ایک آئینی ضرورت ہے لیکن اِن آگریشن یا نئے صدر کی افتتاحی تقریب امریکہ کے سیاسی کلچر کا ایک اہم حصہ ہے اور وہ اس کلچر پر عمل کرتے ہوئے ہی ایسا کرتے ہیں۔‘

’جہاں پر نیا صدر اور جانے والا پرانا صدر دونوں عوام کے سامنے بیٹھ کے باتیں کرتے ہیں، ہنسی مذاق کرتے ہیں اور یہ چیز دکھاتے ہیں کہ ہمارا جو نظام ہے وہ کسی انفرادی لیڈر کا مرہونِ منت نہیں بلکہ پوری ریپبلک کا نمائندہ نظام ہے اور یہ اقتدار کی منتقلی جو ایک حکومت سے دوسری حکومت کو ہوتی ہے یہ بہت اہم ہے۔‘

اہم عمارتوں کو جانے والے راستوں پر لوہے کی باڑیں لگا دی گئی ہیں

اہم عمارتوں کو جانے والے راستوں پر لوہے کی باڑیں لگا دی گئی ہیں

الہان نیاز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اِن آگریشن دراصل ایک عوامی تقریب ہوتی ہے، ایک میلے کی طرح جس میں ناچ گانے ہوتے ہیں، بازاروں میں رش ہوتا ہے، شاپنگ مالز اور ہوٹل بھرے ہوتے ہیں تاہم حلف برداری زیادہ اہم تقریب ہوتی ہے۔

’اگر کسی وجہ سے امریکی صدر کی افتتاحی تقریب میں تاخیر بھی ہو جائے تو وہ مقررہ تاریخ پر حلف ضرور اٹھا لیتے ہیں کیونکہ اس کے بعد یہ ضروری ہوتا ہے کہ صدر ہونا چاہیے۔ اس مرتبہ افتتاحی تقریب پر بہت سے سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں اور اسے تھوڑا تبدیل بھی کیا گیا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس مرتبہ کی افتتاحی تقریب اس لیے بھی مختلف ہے کہ موجودہ صدر نے ہار نہیں مانی اور ان کے سات کروڑ کے قریب ووٹرز میں سے بھی بہت سارے سمجھتے ہیں کہ یہ نتائج غلط ہیں۔

’اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہمیں اس قسم کی صورتحال کی کچھ عادت سی ہے۔ دھرنے، پارلیمان پر حملے وغیرہ وغیرہ یہاں ہوئے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں لیکن واشنگٹن میں امریکہ کا جو کیپیٹل ہے، جو سینیٹ ہے اور ایوانِ نمائندگان ہے اس پر پرتشدد طریقے سے چڑھائی کی گئی اور اس کی بے حرمتی کی گئی اور جو ویڈیوز آئی ہیں اور جس طرح لوگوں کو گرفتار کر کے الزامات لگائے گئے ہیں اس سے یہ نظر آتا ہے کہ شاید کوئی مجرمانہ سازش تھی جس کی باقاعدہ طور پر منصوبہ بندی کی گئی اور پرتشدد گروہ صرف ڈیموکریٹس کو نہیں ڈھونڈ رہا تھا بلکہ ان ریپبلیکنز کو بھی تلاش کر رہا تھا جو کہ ان کے خیال میں انتخابات کے نتائج تسلیم کر رہے تھے جن میں نائب صدر مائیک پینس بھی شامل تھے۔‘

الہام نیاز کہتے ہیں کہ ’اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بہت زیادہ دانشورانہ ذہن کا صدر نہیں سمجھا جاتا لیکن ان کی سیاسی انسٹنکٹ یا کسی صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کی قابلیت بہت تیز ہے اور ایسی صورتِحال میں بھی جہاں وہ ہار گئے ہیں، ان پر مواخذے کی تلوار ہے اور خدشہ ہے کہ بعد میں ان کے خلاف انکوائریاں بھی ہو سکتی ہیں وہ بڑی کامیابی سے اپنے حریف کو مشکلات میں ڈالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بنیادی طور پر امریکہ کے سیاسی کلچر کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔

’انھوں نے یہ دکھایا کہ یہ جو آپ کے قوائد و ضوابط ہیں اور جو آپ کا ماننا ہے کہ آپ قوانین والی ایک قوم ہیں یہ کوئی اتنی مضبوط بات نہیں جتنی شاید آپ سمجھتے ہیں۔ مطلب یہ کہ یہ پرامن طریقے سے اقتدار کا تبادلہ دراصل صرف جیتنے اور ہارنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح کا ردِ عمل ظاہر کرتا ہے۔‘

کیا ماضی میں بھی کچھ اس طرح ہوا ہے؟

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ صدارتی تقریب کے دوران بغاوت کا خطرہ پیدا ہوا ہو۔ اس سے قبل امریکہ میں دو مرتبہ ایسا ہوا ہے جب ایک فریق نے انتخاب کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا اور ملک میں بغاوت جیسی صورتِحال پیدا ہو گئی۔

سنہ 1860 اور 1861 کے دوران ابراہم لنکن کی صدارتی تقریب سے پہلے اور 1876 اور 1877 میں ردفورڈ بی ہیز کی صدارتی تقریب تک امریکہ میں پرتشدد مظاہرے بھی ہوئے اور ایک بے یقینی کی صورتحال بھی رہی اور نومنتخب صدر کی حلف برداری کے دوران دارالحکومت میں فوج کی ایک بڑی تعداد موجود رہی۔

ابراہم لنکن کے صدر بننے سے پہلے کیا ہوا؟

4 مارچ 1861 کو امریکی دارالحکومت میں ہونے والی ابراہم لنکن کی پہلی صدارتی تقریب میں شرکت کے لیے لوگ جمع ہوئے لیکن اس سے پہلے ہی تقریباً سات جنوبی ریاستیں علیحدگی کا اعلان کر چکی تھیں اور خدشہ تھا کہ یا تو نو منتخب امریکی صدر کو اغوا کر لیا جائے گا یا پھر انھیں قتل کر دیا جائے گا۔

لنکن کی ان آگریشن کی تقریب سے پہلے شہر میں سکیورٹی سخت کر دی گئی خصوصی دستے راستوں کی نگرانی کرنے لگے۔ اس تقریب کے ٹھیک ایک مہینے کے بعد مسلح بغاوت کے خدشے کے پیشِ نظر فوج واشنگٹن میں آ گئی اور خانہ جنگی شروع ہو گئی جو کہ 1865 تک جاری رہی۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً چھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔

جب دونوں امیدواروں نے جیت کا اعلان کیا؟

کچھ ایسی ہی صورتِحال 4 مارچ 1877 کو بھی ردرفورڈ بی ہیز کی ان آگریشن کی تقریب کے دوران ہوئی۔

1876 میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ریبپلیکن ردفورڈ اور ڈیموکریٹ سیمیئول ٹلڈن دونوں نے ہی اپنی جیت کا اعلان کر دیا تاہم بعد میں ردفورڈ فاتح قرار پائے جس کی وجہ سے تناؤ مزید بڑھ گیا اور صدر یولیسس سی گرانٹ کو واشنگٹن ڈی سی میں فوج بلانی پڑی۔

نومنتخب صدر نے اقتدار چھوڑنے والے صدر کے ساتھ سفر کرنے کی روایت پر دو دن بعد عمل کیا۔

صدر ٹرمپ

صدر ٹرمپ صدارتی انتخاب کا نتیجہ ماننے سے انکار کرتے رہے ہیں اور اب انھوں نے جو بائیڈن کی افتتاحی صدارتی تقریب میں جانے سے انکار کیا ہے

ایک اور صدر جنھوں نے حلف برداری کی تقریب میں شمولیت سے انکار کیا

سنہ 1869 میں ایک اور ڈیموکریٹ صدر اینڈریو جانسن نے جن کا مواخذہ کیا گیا تھا، نو منتخب صدر یولیسس ایس گرانٹ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ خیال رہے کہ صدر ٹرمپ جانسن کو بہت پسند کرتے ہیں اور انھوں نے بھی کچھ اسی طرح ہی انتخاب کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔

1801 میں بھی جان ایڈمز نے صدر تھامس جیفرسن کی ان آگریشن کی تقریب میں جانے سے انکار کیا تھا اور اس دن صبح ہی چپ چاپ وہ واشنگٹن سے بالٹی مور چلے گئے تھے۔

ان کے بیٹے جان کوینسی ایڈمز بھی اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلے اور 1829 میں صدر اینڈریو جیکسن کی تقریب میں شریک نہیں ہوئے۔ وہ ان سے بہت نفرت کرتے تھے۔

صدر ٹرمپ کے نتائج نہ ماننے سے انکار کی وجہ سے اس سال اقتدار کی منتقلی کا عمل بہت تلخیوں کا شکار رہا ہے لیکن جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے اس وقت بھی اقتدار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہو رہا ہے۔

امریکی یونیورسٹی پرنسٹن میں تاریخ کے پروفیسر سین وینلٹز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نظام چل رہا ہے۔ راستہ بڑا ناہموار ہے، بہت جھٹکے لگ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اقتدار کی منتقلی ہونے جا رہی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp