شمالی کوریا کا جوہری اور میزائل پروگرام کس نوعیت اور صلاحیت کا حامل ہے؟


شمالی کوریا نے اپنے ہتھیاروں کے پروگرام میں تیزی سے پیشرفت کی ہے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ممکنہ امریکی حملے کے پیش نظر اپنے دفاع کا انتظام کرنا بہت ضروری ہے۔

اس سلسلے میں شمالی کوریا نے سنہ 2021 کا آغاز ایک دھماکے دار خبر سے کیا ہے۔ یعنی ایک ایسے ہتھیار کی خبر جسے شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے ’دنیا کا سب سے طاقتور ہتھیار‘ قرار دیا ہے۔

اور یہ ہتھیار ہے آبدوذ کے ذریعے داغے جانے والا نیا بلیسٹک میزائل۔ شمالی کوریا نے اس میزائل کو کم جونگ اُن کی زیر نگرانی ایک فوجی پریڈ میں لانچ کیا ہے۔

اس ہتھیار کی اصل صلاحیتیں ابھی تک واضح نہیں ہیں کیوںکہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا لانچنگ سے قبل اس کا کوئی باقاعدہ تجربہ کیا گیا تھا یا نہیں۔

کم جونگ پریڈ کے موقع پر ہتھیاروں کی ایک فہرست کا خاکہ پیش کرتے ہوئے شمالی کوریا کی جوہری اور عسکری صلاحیت کو بڑھانے کا بھی عہد کیا ہے۔

آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ اب تک ہم شمالی کوریا کے میزائل اور جوہری پروگرام اور اس کی فوجی صلاحیتوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

شمالی کوریا کے اسلحہ خانے میں ‘حسن کی فوج’

شمالی کوریا کا مزید دو میزائلوں کا تجربہ

’امریکی فوج شمالی کوریا سے نمٹنے کے لیے تیار ہے‘

میزائل جو امریکہ تک پہنچ سکتے ہیں

سنہ 2017 میں شمالی کوریا نے اپنی فوجی ٹیکنالوجی میں تیزی سے پیشرفت کرتے ہوئے متعدد میزائلوں کا تجربہ کیا تھا۔

ہوواسونگ -12 بلیسٹک میزائل کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ 4،500 کلومیٹر (2،800 میل) تک کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور بحر الکاہل کے جزیرے گوام پر امریکی فوجی اڈوں کو اس سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

اکتوبر 2020 میں شمالی کوریا نے اپنے نئے بیلسٹک میزائل کو لانچ کیا

اکتوبر 2020 میں شمالی کوریا نے اپنے نئے بلیسٹک میزائل کو لانچ کیا

بعد میں ہووسونگ 14 نامی میزائل نے اس سے بھی زیادہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ چند ماہرین کے مطابق اگر اس میزائل کو زیادہ سے زیادہ رفتار سے لانچ کیا جائے تو یہ دس ہزار کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

اس میزائل کے تجربے سے یقیناً شمالی کوریا کو اپنا پہلا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ملا ہو گا جو نیویارک تک پہنچنے کے قابل ہے۔

آخر کار ہووسونگ 15 کا تجربہ کیا گیا جس نے اندازاً 4،500 کلومیٹر تک اونچائی پر جا کر اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔

لیکن اگر اسے زیادہ روایتی طریقے سے لانچ کیا جائے تو یہ میزائل 13 ہزار کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اس کا سادہ الفاظ میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ امریکہ میں کسی بھی مقام کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

اکتوبر 2020 میں شمالی کوریا نے مزید نئے بلیسٹک میزائل کو لانچ کیا۔

ابھی تک اس نئے میزائل کا نام نہیں رکھا گیا اور شاید نہ ہی اس کا تجربہ کیا گیا ہے۔ ہوواسونگ-15 کی طرح یہ بھی سٹیج ٹو مائع ایندھن والا میزائل ہے لیکن اس کی لمبائی اور قطر زیادہ ہے۔ یہ ممکنہ طور پر ایک سے زیادہ ہتھیار اور گولہ بارود لے جانے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ان ہتھیاروں سے امریکہ میں کسی بھی مقام کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، اور گذشتہ سال جب اسے کی رونمائی کی گئی تو اس کے حجم نے بڑے بِڑے عسکری تجزیہ کاروں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔

اس کے کچھ ہی مہینوں بعد جنوری 2021 میں شمالی کوریا نے ایک فوجی نمائش میں آبدوز سے لانچ کیے جانے والے ایک نئی قسم کے بلیسٹک میزائل کی رونمائی کی، جسے اس نے ’دنیا کا سب سے طاقتور ہتھیار‘ قرار دیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے میزائلوں کی رونمائی بائیڈن انتظامیہ کو شمالی کوریا کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کا پیغام بھیجنے کے مقصد سے ڈیزائن کی گئی ہے۔

کم جونگ نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ امریکہ ان کا ’سب سے بڑا دشمن‘ ہے۔ اس وقت انھوں نے اپنے مطلوبہ ہتھیاروں کی فہرست کا خاکہ بھی پیش کیا تھا جس میں زیادہ فاصلے تک نشانہ بنانے والے بلیسٹک میزائل شامل تھے جنھیں وہ زمین یا سمندر سے لانچ کرنے کے قابل ہیں اور جو زیادہ سے زیادہ ہتھیار، گولہ بارود لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سخت اقتصادی پابندیوں کے باوجود شمالی کوریا اپنے اسلحے کے سازو سامان کو نمایاں طور پر آگے بڑھانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

تھرمو نیوکلیئر بم

تین ستمبر 2017 کو شمالی کوریا نے پنگگی ری ٹیسٹ سائٹ پر اب تک کا سب سے بڑا جوہری تجربہ کیا تھا۔

دھماکہ خیز ڈیوائس کی طاقت کا تخمینہ 100-7070 کلو ٹن تک تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سنہ 1945 میں ہیروشیما پر گرائے جانے والے بم کے مقابلے میں اس بم کی طاقت چھ گنا زیادہ ہے۔

شمالی کوریا نے دعویٰ کیا کہ یہ تجربہ اس کا پہلا تھرمو نیوکلیئر ہتھیار تھا، یہ جوہری دھماکے کی سب سے طاقتور شکل ہوتی ہے جہاں ایٹمی دھماکے میں اس سے کہیں زیادہ بڑے دھماکے کرنے کے لیے ثانوی فیوژن کے عمل کو فروغ دیا جاتا ہے۔

امریکی فوجی انٹیلیجنس کا خیال ہے کہ شمالی کوریا نے میزائل کے اندر فٹ ہونے کے لیے جوہری ہتھیاروں کو کامیابی کے ساتھ مینیوچرآئز کیا ہے۔

اپریل 2018 میں شمالی کوریا نے اعلان کیا کہ وہ مزید جوہری تجربات کو معطل کر دے گا کیونکہ اس کی صلاحیتوں کی ’تصدیق‘ ہو گئی ہے۔

شمالی کوریا نے اس وقت وعدہ کیا تھا کہ وہ پنگی ری کی سائٹ کو ختم کر دے گا۔ اس نے مئی میں کچھ سرنگوں کو اڑایا بھی تھا اور اس وقت وہاں غیر ملکی صحافی بھی موجود تھے لیکن کوئی بین الاقوامی جوہری ماہر نہیں تھا۔ شمالی کوریا نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنے تمام جوہری مواد کی افزودگی کی سہولیات کو بھی ختم کرے گا۔

شمالی کوریا فوج

لاکھوں سپاہی

شمالی کوریا کے پاس دنیا کی سب سے بڑی افواج میں سے ایک فوج ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ سپاہوں سمیت اس کے پاس ریزور فوج کی تعداد 50 لاکھ ہے۔

اس کے پاس موجود زیادہ تر سامان اور ہتھیار پرانے ہے لیکن اس کی فوج اب بھی جنگ میں جنوبی کوریا کو بھاری نقصان پہنچا سکتی ہے۔

شمالی کوریا کے پاس خصوصی فوجی دستوں کی تعداد دو لاکھ ہے جو کہ کسی بھی وقت جنوبی کوریا میں کسی تنازع کی صورت میں دراندازی کر سکتے ہیں۔

اس میں وہ ممنکہ طور پر ان سرنگوں کا غلط استعمال بھی ہو سکتا ہے جن کی تعداد 20 سے 25 ہے اور جو دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پر موجود غیر فوجی علاقے میں ہیں۔ یہ جنوبی کوریا اور امریکہ کی فارورڈ لائنز کے درمیان ہے۔

ایک اور خطرہ شمالی کوریا کی آرٹلری اور راکٹ لانچرز کی تنصیبات سے ہے جو کہ سرحد کے ساتھ موجود ہیں۔ ان کو چلانے سے جنوبی کوریا میں اس کے دارالحکومت سیئول سمیت کئی علاقوں میں تباہی ہو سکتی ہے۔ سیئول شمالی کوریا کی سرحد سے صرف 60 کلومیٹر سے بھی کم دوری پر ہے۔

کیمیائی ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2012 میں جنوبی کوریا کی حکومت نے اندازہ لگایا تھا کہ شمالی کوریا کے پاس 2500 سے 5000 ٹن تک کے کیمیائی ہتھیار موجود ہیں اور یہ ممکنہ طور پر زمین پر اس نوعیت کے ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔

امریکہ کا بی ون بی طیارہ

اس وقت دنیا میں جنوبی کوریا وہ تیسرا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ امریکی فوج کی موجودگی ہے

جنوبی کوریا اور وسیع تر خطے میں امریکی افواج

جزیرہ نما کوریا میں کورین جنگ کے بعد سے امریکی فوج موجود ہے۔ اس وقت دنیا میں جنوبی کوریا وہ تیسرا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ امریکی فوج موجود ہیں۔

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے مطابق جنوبی کوریا میں اندازاً 28 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جن میں فضائیہ کے اہلکاروں کی تعداد نو ہزار ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے وہاں 300 ایم آئی ابرامز ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تعینات کر رکھی ہیں۔

امریکہ نے وہاں متنازع تھاڈ میزائل دفاعی سسٹم بھی لگا رکھا ہے۔ یہ شمالی کوریا کے قریب اور دور تک کی رینج کے حامل میزائلز کو مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آئی آئی ایس ایس کے مطابق اس وقت جاپان میں سب سے زیادہ امریکی فوجی موجود ہیں جن کی تعداد 47 ہزار سے زیادہ ہے۔ اس میں بڑی تعداد بحری اہلکاروں کی ہے۔ جاپان میں امریکہ کے طیارہ بردار جہاز بھی موجود ہیں۔

بحرالکاہل کے جزیرہ گوام میں بھی امریکی فوجوں بڑی تعداد موجود ہے جسے کبھی کبھار ’مستقل ائیر کرافٹ کریئر‘ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل شمالی کوریا نے دھمکی دی تھی کہ وہ گوام کے گرد پانیوں میں میزائل فائر کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp