مالٹے اور کینو کے دیس میں


کافی عرصے سے بھلوال کے ایک دوست گلبدین گجر، جنہیں پیار سے ہم سب گلبدین حکمت یار بھی پکارتے ہیں، بضد تھے کہ میں بھلوال کا سفر کروں۔ ان کا مدعا یہ تھا کہ چونکہ بھلوال پوری دنیا میں اپنے منفرد اور بھرپور ذائقہ رکھنے والے کینوؤں کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور ان کے باغات بھی کینوؤں سے لدے پھدے ہیں تو ایسے میں ہم بھی ان باغوں کو رونق بخشیں۔ وٹامن سی کی کمی کو پورا کریں اور ان کے باغات کے تازہ میٹھے ترش کینوؤں کا خوب ڈھنڈورا پیٹیں۔ ایک دفعہ کال پہ کہنے لگے کہ ہم تو اپنے دوستوں کو کینو کھلاتے ہیں جیسے پہاڑی علاقوں کے لوگ اپنے مہمانوں کو بیر یا سندھ کے لوگ جامن کھلاتے ہیں۔

خیر ہم  نے اردوپوائنٹ کی ٹیم کو ساتھ لیا، منہ ول بھلوال شریف کیا۔ سوچا اسی بہانے اس علاقے میں اپنے ناظرین کے لیے بھی کچھ مواد ڈھونڈ نکالیں گے۔ ابھی بیچ رستے ہی تھے کہ خبر غم نے نڈھال کیا۔ معلوم ہوا کہ گورنمنٹ کالج کی نذیر احمد میوزک سوسائٹی کے نگران پروفیسر طارق سلمان خان فارانی صاحب داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ان سے بڑا عجیب سا رشتہ تھا۔ پیار کا، انس کا، شفقت کا، محبت کا۔ خدا ان کی مرقد پر شبنم افشانی کرے۔

ان کے جنازے میں شرکت نہ کرنے کا بڑا رنج ہوا۔ بہرطور ہم کوئی لگ بھگ دوپہر کے وقت بھلوال پہنچے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ جناب گلبدین ناشتہ کرنے لگے ہیں۔ ہمیں بھی زبردستی دوسرا ناشتہ کروایا مگر بخدا معلوم نہ ہو سکا کہ دو پراٹھے کھائے ہیں یا چار۔ ایسا پرتکلف اور پرتلذذ کھانا تھا کہ کھاتے ہی خون میں حلول کر گیا۔ نہ ڈکار، نہ بدہضمی، نہ جلن، نہ الجھن۔ خالص شہد، مکھن، گھر کے اچار، دیسی گھی کے پراٹھوں اور لسی نے وہ شانت کیا کہ پھر رات تلک کسی چیز کی طلب نہ ہوئی۔

ناشتے کے فوراً بعد ہمیں سوتی دھاگہ بنانے کے کارخانے لے جایا گیا، جہاں پولیسٹر اور کپاس سے سوتی دھاگہ تیار کیا جا رہا تھا۔ دھاگہ جسے پنجابی میں سوتر کہتے ہیں، گو کہ دکھنے میں اک حقیر سی چیز ہے، بال برابر اوقات نہیں مگر اسے بنانے میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، یہ دیکھ کر ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو گیا۔ بڑے بڑے یونٹ لگے ہیں، جہاں کپاس اور پولیسٹر کو اٹھایا جاتا ہے، پھر صاف کیا جاتا ہے، بعد ازاں اس میں سے دھاگوں کو الگ کیا جاتا ہے، پھر جوڑا جاتا ہے، گرم اور ٹھنڈا کیا جاتا ہے، تب جا کر کوئی دھاگہ نما شکل بنتی ہے مگر اب بھی دھاگہ بننے میں مزید کئی مشینوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔

کارخانے میں اتنی گرمی، نمی اور حبس تھا کہ جنوری کے مہینے میں بھی پسینے میں شرابور ہو گئے۔ وہاں ہماری تواضع مچھلی کے قتلوں، نگٹس، پیزے اور طرح طرح کے روغنی مرکبات سے کی گئی۔ پتہ چلا کہ یہ سوتی دھاگے کی فیکٹری فیروز خان نون کی ملکیت ہوا کرتی تھی۔ اس بات سے بہرحال اس خیال کو تقویت ملی کہ پاکستان میں شروع سے اسلامی جمہوریہ نہیں بلکہ جاگیردارانہ جمہوریہ و آمریہ ہے۔

اگلے روز ہمیں وہاں لے جایا گیا جہاں لے جانے کا صدیوں کا وعدہ تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں کینوؤں کے باغات میں سینکڑوں ہزاروں درختوں کو دیکھ سکتا تھا۔ بھلوال کو صنعتی علاقہ قرار دے کر خصوصی اکنامک زون کی حیثیت بھی دی جا چکی ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں نہ صرف مالٹوں، کینوؤں، سنگتروں اور موسمبیوں کے باغات ہیں بلکہ سوتی دھاگے، شوگر، سرامکس، پلاسٹک اور اس طرح کی چند اور بڑی صنعتیں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ شہر سے باغات تک کوئی بھی علاقہ غیر ترقی یافتہ نہ لگا۔ بلند و بانگ کوٹھیاں، شان و عظمت والے کاروبار یہاں کے باسیوں کے خوشحال ہونے کی چغلی کھا رہے تھے۔ کینوؤں کے باغ میں داخل ہی ہوئے تھے کہ امجد صاحب ملے۔ امجد صاحب عرصہ دراز یورپ میں مقیم رہے اور بالآخر دنیا بھر میں اگنے والے 42 سے زائد مالٹوں اور کینوؤں کی اقسام کو یہاں اٹھا لے آئے۔ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے لیے کسی ادارے کی مدد کا انتظار نہ کیا۔

خود ہی ایک رقبہ مختص کیا اور اس میں طرح طرح کے پودے لگا دیے۔ اب ان کے باغ میں اتنی اقسام کے کینو اور مالٹے ہیں کہ ایک ایک دانہ بھی چکھیں تو ایک دن میں سارے نہ چکھ سکیں۔ سب سے منفرد ریڈ بلڈ کینو تھا جو اندر سے سرخ لال اور ذائقے میں بے مثال تھا۔ ایک قسم تو ایسی تھی کہ جسے بغیر چھلکا اتارے سلاد کے طور پر کھاتے ہیں۔ بغیر بیج کے کینو بھی وہیں پہلی دفعہ دیکھے اور سنے۔ یہ اقسام کینوؤں کے اندرونی و بیرونی رنگوں، ڈلیوں کے سائز، کینوؤں کی جسامت، جلد کی باریکی و موٹائی، ڈائیٹری فائبر کی مقدار کی کمی و زیادتی، بیجوں کے سائز، بیجوں کی تعداد، مختلف ذائقوں اور مختلف محصولات کی وجہ سے تھیں۔

ایک جہان حیرت میرے سامنے تھا۔ امجد صاحب ایک ناقابل یقین حد تک محنتی اور شوقین آدمی واقع ہوئے تھے۔ انہوں نے ویلنشیا، کیلیفورنیا، یونان، سپین، آسٹریا، اٹلی اور امریکہ کے مختلف علاقوں میں پائے جانے والی اقسام کے بیج اور پودے اکٹھے کیے اور اب پاکستان میں ان کی افزائش اور پیداوار پہ شب و روز کام کر رہے ہیں۔ ان سے مل کر بڑا اچھا لگا۔ انہوں نے تحفے کے طور پہ بہت سارے کینو بھی ہمارے ساتھ روانہ کیے۔

گلبدین بھائی نے بتایا کہ یہاں بھلوال میں ایک شخص نے زراعت کی جدید ترین ٹیکنالوجی ”ٹنل فارمنگ“ کو اپنا رکھا ہے اور جن دنوں میں وہ اپنی فصل اٹھاتا ہے تو بیس ہزار کی دیہاڑی لگاتا ہے۔ دیدۂ حیراں گل بھائی کو تکے جاؤں اور یقین نہ کر پاؤں مگر وہ ہمیں اپنے ساتھ لیے ان کے ڈیرے پر جا پہنچے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دو کنال کی سیم و تھور والی جگہ کو چاروں طرف سے بند کر کے سفید رنگ کی چادر سے ڈھکا ہوا ہے۔ اندر داخل ہوا تو منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

چھوٹی چھوٹی لوہے کی کیاریوں کو دو فٹ تک بلند رکھا گیا تھا اور ان میں ڈریپ سسٹم کے ذریعے پانی پہنچایا جا رہا تھا۔ طلحہ گوندل اس سارے سیٹ اپ کے نگران تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں ٹماٹروں کے تین ہزار دو سو پودے اگائے گئے ہیں جو دو تین ماہ میں اٹھارہ سے پچیس فٹ تک بڑے ہوں گے اور پھر ایسے ٹماٹر لگیں گے جیسے انگوروں کے بیل پر انگور لچھے دار لگتے ہیں۔ اس قدر بڑھوتری کے لیے ناریل کے ریشوں پر مشتمل خصوصی مٹی سری لنکا سے چودہ سو روپے فی کلو کے حساب سے منگوائی گئی ہے۔

یہاں کیڑوں مکوڑوں کا کوئی عمل دخل نہیں، نیز بارش سے پیدا ہونے والے مسائل کا بھی سامنا نہیں۔ سردیاں ہوں یا گرمیاں یہاں کا درجہ حرارت پچیس سے 27 سیلسئیس رکھا جاتا ہے اور ایک سیزن میں ایک ہزار من ٹماٹروں کی فصل اٹھاتا ہوں۔ میرا تو کیلکولیٹر جواب دے گیا۔ بھلوالیوں کی فراست اور عقل و شعور کے ساتھ ساتھ کاروباری مزاج کا بڑا فین ہوا۔

اس شام بھلوال میں مقیم ہمارے ایک اور دوست ایڈووکیٹ کاشف اجمیر ہرل نے دعوت طعام پہ مدعو کیا۔ کاشف اجمیر ہم دونوں کا اقبال ہاسٹل کا ساتھی ہے۔ ہم تینوں ہی ہاسٹل میں تین مختلف سوسائٹیز کے صدر تھے۔ کاشف صاحب نے گھر بلایا، طرح طرح کے کھانوں سے کھانے کا میز سجایا اور ہم نے بھی جی بھر کے کھانا کھایا۔ ان کے گھر میں ان کے ابا جی کی گورنمنٹ کالج کے زمانے کی اور ان کی اپنی پرانی تصویریں آویزاں تھیں جو ایک قسم کا رومانوی احساس دلا رہی تھیں۔

کاشف اجمیر ہرل وہ ہے جسے زمانے کی صناعی نے ذرہ برابر نہ بدلا۔ اس کی شخصیت میں وہی رکھ رکھاؤ، ٹھہراؤ، مہمان نوازی، شرمیلا پن اور کم گوئی ہے جو پنجاب کے روایتی دیہاتوں میں پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ میں ہوتا ہے۔ وہ، میں اور گلبدین۔ اب آگے نہ پوچھیے۔ وہی ہوا جو گورنمنٹ کالج کے طلبا کے مل بیٹھنے پر ہوتا ہے۔ تذکرۂ مادر علمی۔ اس حد تک کہ آس پاس کے لوگ بوریت محسوس کرنے لگیں۔ بمشکل چائے کے دور پہ محفل کا اختتام ہوا۔

اگلے روز پلاسٹک ری سائیکلنگ پلانٹ کا دورہ کیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ پلاسٹک کی بوتلیں جنہیں میں بچپن میں کباڑیے کو دس روپے کلو کے حساب سے بیچا کرتا تھا، یہاں ستر روپے فی کلو کے حساب سے خریدی جاتی ہیں۔ ان پلاسٹک کی بوتلوں کو کچرا بنا کر اور کیمکل سے دھو دھا کر مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر پولی ایسٹر کی بنی رضائیوں، گدوں، فائیبر اور اس طرح کی دیگر کئی مصنوعات میں استعمال کرتے ہیں۔ یوں جہاں پلاسٹک سے پیدا ہونے والی مہلک ماحولیاتی آلودگی سے بچا جا سکتا ہے وہیں مہینے میں لاکھوں کا زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔

ابھی ہم وہیں تھے کہ نیو ہاسٹل کے ایک جونئیر دوست عثمان وڑائچ کا فون آ گیا۔ بھیا دن کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیں نا؟ عثمان نے سلام و آداب سے چھٹتے ہی کہا۔ بڑی مشکل سے فقط ملنے کا پروگرام طے ہو پایا چونکہ مجھے اب فوراً چکوال نکلنا تھا جہاں موسی اور اسوہ کا سختی سے حکم تھا کہ میں اپنی سالگرہ کبھی ان کے ساتھ نہیں مناتا، سو اب ان کو بھی منانا تھا۔ بھلوال سے نکلتے سمے جب اڈے پہ پہنچا تو رستے میں ایک بزرگ کاریگر سے ٹاکرا ہوا جو اسی سال کی عمر میں بھی خود کما کر کھانے کا قائل دکھ رہا تھا۔

شہتوت کی چھال اور شاخوں سے ٹوکرے ٹوکریاں بنا رہا تھا جو چارا رکھنے، گوبر اٹھانے اور مختلف مصنوعات جیسے مالٹوں کو آگے پیچھے لانے لے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اس کے ہاتھوں کی کاریگری اور پھرتی دیکھی تو بے ساختہ سبحان اللہ پکار اٹھا۔ عثمان وڑائچ اور اس کے ساتھ ایک اور دوست شاہزیب حسن اڈے پر پہنچ چکے تھے اور ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ وہاں پہنچے، ان سے ملے، ان کے خلوص کی مٹھاس کو چکھا اور پھر چکوال کی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ زندگی نام ہی خوبصورت اسفار کا ہے۔ کیے جاؤ، دیکھتے جاؤ اور چلے جاؤ۔ گلبدین بھائی کے لمحہ بہ لمحہ ساتھ نے سفر کی چاشنی میں اضافہ کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).