ٹھرک اور ٹھرکیوں کے مسائل



ہر مرد پیدائشی ٹھرکی ہوتا ہے، سوائے ان مردوں کے جن کی نس بندی کی جا چکی ہو یا جو اپنی ہی صنف میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ میرے خیال میں ہم جنس پرست بھی ٹھرکی ہوتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ وہ مردوں میں چکنا پن تلاش کرتے ہیں۔

جس طرح نئے پاکستان اور پرانے پاکستان میں مقابلہ دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے ، اسی طرح پرانے ٹھرکی اور نئے ٹھرکی بھی آج کل مقابلہ پر آن پہنچے ہیں۔

پرانے کھلاڑی جو اس میدان میں ہیں ، ان کے نزدیک آنکھیں ٹھنڈی کرنا، نوٹ پر نمبر لکھ کر پھینکنا، پتنگ بازی و کبوتربازی کو پیغام رسانی کے طور پر استعمال کرنا، اسکیننگ یا ایکسرے کرنا ٹھرک ہے۔ پرانے کھلاڑیوں کے بقول کام بھی ہو جاتا تھا اور شوروغل بھی نہیں ہوتا تھا، البتہ اس زمانے میں محلہ کا ایک آدھ بابا ایسا ہوتا تھا جو تھڑے پر بیٹھا ان تمام حرکات و سکنات کا بخوبی مشاہدہ کرتا تھا اور یکے بعد دیگرے محلہ کو چٹ پٹ خبریں فراہم کرتا تھا۔

پرانے ٹھرکیوں کی ٹھرک کے لئے کچھ مال و مواد ہمسائے ملک کی فلموں کا ایک آدھ گانا پورا کر دیتا تھا جن میں یس باس، دل والے دلہنیا لے جائیں گے اور ڈپلیکیٹ جیسی فلمیں شامل تھیں ، اس سے قبل فیروز خان کی فلمیں بھی کسی حد تک قابل استعمال تھیں۔ وقت پھر تبدیل ہوا اور ہمسائے ملک کے ہدایت کار اس ٹھرک کو ایک نئے درجہ پر  لے گئے جس کے بعد جسم، مرڈر، جولی جیسی فلمیں ٹھرکی حضرات کی توجہ کا مرکز بنیں ، نیز پاپی چولو نامی ایک گانے کو شہرت دوام بخشا گیا۔

پاکستان سے بھی اسٹیج ڈرامہ و فلموں (گنڈاسا ثقافت) نے ٹھرکیوں کے لئے  کافی ‘مال و مواد’ فراہم کیا۔ سب سے زیادہ مال و مواد مشرف دور میں مہیا کیا گیا،  جب 2000ء میں بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات نے کشیدگی اختیار کی اور بھارتی چینلز پر پابندی لگائی گئی۔ ہر کیبل آپریٹر  نے ٹھرکیوں کو وہ وہ ڈانس دکھایا جسے دیکھنے کے بعد ٹھرکیوں کی حالت غیر ہو جاتی تھی۔

بل گیٹس بھائی جان کا اللہ بھلا کرے جنہوں نے کمپیوٹر اور نیٹ کیفیز کو مملکت خداداد پاکستان میں نہایت عام کر دیا تھا۔ ان کی بدولت نئے ٹھرکیوں کو کافی سہولیات میسر ہو گئیں، کئی ٹھرکی لسانی ٹھرکی تھے تو ان کے لیے میسینجرز اور چیٹ روم میسر آ گئے، کئی لوگوں کی بصارت میں ٹھرک تھی ان کی وہ حسرت بھی پوری ہو گئی۔ اس سلسلے میں لاہور میں ہال روڈ، فیصل ٹاؤن اور کوٹھا پنڈ پر موجود تمام افراد کا شکریہ جنہوں نے نوجوان ٹھرکیوں کی حسرتیں انٹرنیٹ سے قبل و بعد میں پوری کرنے میں مکمل تعاون فراہم کیا۔ پرانے ٹھرکیوں نے شکر ادا کیا ہے کہ اس زمانے میں موبائل فون سمارٹ نہیں تھے ورنہ لوگوں کی ایسی ایسی ویڈیوز شیئر ہونی تھیں کہ الامان و الحفیظ۔

وقت تبدیل ہوتا گیا ، چنانچہ دوسرے ممالک میں ٹھرک ایک مکمل صنعت بن چکی تھی، تو بہت سے سیٹھ حضرات نے اس صنعت کی ترقی و ترویج میں سرمایہ کاری کی۔ جدید قسم کی ویب سائٹس اور ایپلیکیشنز بنائیں، جن میں بیگو Bigo، ٹنڈر Tinder، وی چیٹ We chat، بدو Badoo، سکاوٹ Skout وغیرہ مشہور ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو ٹیکنالوجی نے نئے ٹھرکیوں کو موبائل میں ایکسٹرا پرائیویسی فراہم کی ہے، بشرطیکہ پاسورڈ آپ کی بیوی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔

اس سے کم از کم ٹھرکیوں کا خوف کسی حد تک کم ہو گیا ہے، اب وہ لسانی و بصری ٹھرک کبھی بھی کسی بھی وقت کہیں بھی پوری کر سکتے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں جس طرح خوشحالی چند لمحوں کے لئے آتی ہے ، اسی طرح ٹھرکیوں کی خوشیوں کو بھی چند ہی لمحوں میں نظر لگ گئی اور حکومت پاکستان نے ان تمام مغلظات پر پابندی لگا دی ہے۔

ہمارے ٹھرکی بھی جگاڑی ہیں ، اب بھی وی پی این لگا کر ان تمام مصنوعات کو استعمال کرتے ہوں گے۔ ہر ملک میں ٹھرک کی پیاس مٹانے کے لئے شہر کے عین وسط میں ایک سڑک مختص کی جاتی ہے تاکہ ٹھرک کو شہر میں جگہ جگہ پھیلنے سے روکا جا سکے ، نیز اس کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ان افراد کا ممکنہ تعین کیا جا سکے جو ٹھرک کے متاثرین ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ٹھرک کے علاقوں کی روشنیاں معدوم کر کے حکومتی افراد نہ جانے کون سی ذاتی انا کی تسکین کا سامان کر رہے ہیں اللہ ہی جانتا ہے۔ جس برادر ملک کی مثال دی جاتی ہے ، اس نے بحرین نامی جزیرہ اپنے ٹھرکیوں کے لئے ہی تعمیر کروایا ہے تاکہ ٹھرکیوں کو مکمل آزادی فراہم کی جا سکے۔

آخر میں ٹھرکیوں کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مشورہ ہے، اگر عمل کرنا چاہیں۔ جس طرح آج کل ہر شخص ہی صحافی بن گیا ہے اس لئے ممکن ہے کہ کوئی آپ کی ویڈیو بنا لے اور پھر پرائیویسی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جاری بھی کر دے۔ اس لئے برائے مہربانی اپنی ٹھرک کی سرگرمیوں کو محدود کر لیں ورنہ آپ کا حال بھی مفتی عبدالقوی و ہم نوا کی طرح کا ہو گا۔ نام اور بھی ہیں مگر لئے نہیں جا سکتے کیونکہ آج کل توہین عدالت اور غداری کے مقدمات بہت جلد درج ہوتے ہیں ۔ محکمہ داخلہ پاکستان پر چیئرمین انجمن غیر شادی افراد کے سینئر ممبر کا قبضہ ہے جن کا فرمانا ہے کہ اس جانور کو گھر میں پالنے کی ضرورت نہیں جس کا دودھ بازار میں دستیاب ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).